ہمارے تو وزیر اعظم کئی کئی دن لاپتہ رہتے ہیں۔ ہم گمشدہ بچوں کے بارے میں کیا بات کریں؟ میڈیا والے‘ پولیس کو گمشدگیوں کا ذمے دار قرار دے کر‘ اس پر طرح طرح کی الزام تراشیاں کرتے ہیں۔کسی پر تہمت لگانے سے پہلے سوچ لینا چاہئے کہ کیا وہ شخص یا ادارہ‘ ان واقعات کا ذمے دار بھی ہے؟ جس کی بنیاد پر پولیس کو ہر کوئی ذمہ دار ٹھہرا دیتا ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے پولیس کے بنیادی فرائض یہ ہیں کہ وی آئی پیز کی حفاظت کرے۔ انہیں اغوا کنندگان سے بچائے۔ ان کے ساتھ کوئی شرارت نہ کر پائے۔ چھیڑ چھاڑ سے محفوظ رکھے۔ عوام میں کئی سرپھرے‘ وی آئی پیزکو دیکھتے ہی اپنا گلا درست کر کے ان کے خلاف بلا وجہ نعرے لگانے لگتے ہیں۔ جو کام وی آئی پیز کی ذمے داریوں میں شامل نہیں‘ اس کے حوالے سے الزام تراشیاں کرتے ہیں۔ سبزی مہنگی ہو تو ذمے دار‘ وی آئی پی۔آٹا مہنگا ہو تو ذمے دار‘ وی آئی پی ۔ خواتین کا میک اپ خراب ہو جائے تو ذمے دار وی آئی پی۔ حد تو یہ ہے کہ لوگ علما کرام پر بھی ایسے الزامات لگانے لگے ہیں۔ مفتی عبدالقوی کو ہی دیکھ لیں۔ کیا میڈیا والوں کو زیب دیتا تھا کہ ایسے پا ک باز انسان پر بے ہودہ الزام لگائے جاتے۔ ایک زمانہ تھا کہ مفتی صاحب کے حجرے سے کوئی خوب صورت ماڈل برآمد ہو بھی جاتی تو عقیدت مند یہی سمجھتے کہ مفتی صاحب‘ برآمد ہونے والی ماڈل کو نیک چلنی کا سبق دے رہے ہوں گے۔ پردے کی اہمیت سمجھا رہے ہوں گے۔ بندوں کے حقوق جتلا رہے ہوں گے۔ ایک زمانہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ماڈل کو گناہ سے تائب ہونے پر مائل کیا اور وہ‘ مفتی صاحب کے حجرے میں پہنچ کر ان سے دعا کی طالب ہوئی کہ اس کے حق میں دعا کریں ۔وہ گناہ کا راستہ ترک کر کے‘ اچھی زندگی گزارنا شروع کر دے۔ غالباً مفتی صاحب ہی کی ہدایت اور رہنمائی کی برکت تھی کہ مذکورہ ماڈل نے اپنے خاندان کی طرف رجوع کیا‘ لیکن اس کے بھائی ایسے بے ہدایت نکلے کہ اپنی بہن ہی کی جان لینے کے درپے ہو گئے۔ سزا کے حق دار مرحومہ کے بھائی قرار پائیں گے کیونکہ مرحومہ نے بری زندگی چھوڑ کے‘ اچھی زندگی کے لئے‘ خدا کے ایک نیک بندے کی طرف رجوع کیا ۔ا س کہانی سے استفادہ کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس میںپوشیدہ سبق حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ۔
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ پولیس والوں کا کام ہی‘ وی آئی پیز کی حفاظت کرنا ہے۔ انہیں بے راہ روی سے بچانا ہے۔ان پر نظر رکھنا ہے کہ وہ محافظوں سے نظر بچا کر‘مفتی عبدالقوی کی طرح نہ دھر لئے جائیں۔پولیس کی ڈیوٹی ‘خدا کی طرف سے بندوں کی کڑی آزمائش ہے۔ لیکن میڈیا انہیں نیکی اور پاک بازی کے راستے پر چلنے نہیں دیتا۔ بچے ناراض ہو کر یا آوارگی کا راستہ اختیار کر کے‘ خود گھروں سے بھاگتے ہیں اور الزام پولیس پر لگا دیا جاتا ہے کہ وہ ان بچوں کو تلاش نہیں کرتی۔ میرے ذہن میں برے برے خیالات آرہے ہیں۔ فرض کیا مفتی صاحب کی حفاظت کرنے اور ان پر نظر رکھنے کے لئے پولیس کی ایک گارد کی ڈیوٹی لگائی جائے اور گارد کے جوان‘ اپنی ڈیوٹی ادا کرتے ہوئے‘ مفتی صاحب کے تخلیے میں جا دھمکیں تو ان پر کیسی کیسی تہمتیں لگائی جاتیں؟ حالانکہ وہ بیچارے فرض کے ہاتھوں مجبور ہو کر‘اپنی خواہش کے خلاف مفتی صاحب پر ''نظر ‘‘ رکھنے کا فرض ادا کرنے کی غرض سے اس کمرے میں گئے تھے۔ ہم اپنی پولیس کو جانتے ہیں۔ نیکی کا راستہ بار بار اس کے سامنے آتا ہے مگر کیا مجال ہے کہ پولیس والے ‘اس راستے پر قدم رکھیں۔بچوں کے اغوا کے واقعات کتنے دردناک اور تکلیف دہ ہیں؟ پولیس چاہے تو بچے کواغوا کرنے والے بدمعاشوں سے‘ چند ہی دنوں میں بازیاب کرا کے‘ انہیں والدین تک پہنچا سکتی ہے۔ آپ نے متعدد پولیس افسروں کے بیانات میں فرض شناسی کا جذبہ دیکھا ہو گا۔آج ہی ایک فرض شناس پولیس افسر کا یہ بیان دیکھنے میں آیا کہ ایک باپ مبینہ طور پر اپنے اغوا شدہ بچے کو ڈھونڈتا ہوا پولیس کے پاس پہنچا۔ پولیس اسے تھانے کے اندر ''خاطر مدارات‘‘ کے لئے مخصوص کمرے میں لے گئی۔اس کمرے کے اندر ‘حواس باختہ باپ کی ''اصلاح‘‘ کی گئی اور کمرے سے باہر نکلتے ہی وہ باپ یہ کہتا ہواپایا گیا کہ '' میرا بچہ خود ناراض ہو کر گھر سے بھاگا ہے‘‘۔پولیس افسر نے ‘حواس باختہ باپ کا یہ بیان اپنی نگرانی میں میڈیا کے سامنے پیش کیا اور ثابت کر دیا کہ اگراغوا شدہ بچے کا باپ‘ اپنے منہ سے یہ کہہ دے کہ وہ ناراض ہو کر گھر سے بھاگا ہے تو سارے مسائل ختم ہو گئے۔ پولیس نے اپنا فرض ادا کر دیا۔اگر قارئین میں سے کسی کو اس باپ کی حالت دیکھنے کا موقع ملا ہو‘ جو بدحواسی کے عالم میں یہ کہہ رہا تھا کہ'' مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی۔ میرا سر چکرا رہا ہے۔میرا بیٹا ناراض ہو کر‘ خود ہی گھر سے چلا گیا تھا‘‘۔گویا باپ اقرار کر رہا تھا کہ میرا بچہ گھر سے ناراض ہو کر نکلا تھا۔ خدا اسے خود ہی بازیاب کر دے گا۔ خدا ہمیشہ پولیس والوں کی مدد کرتا ہے۔
ہمارے حکمرانوں میں جتنے بھی لیڈر‘ قائدین اور رہنما‘ ہمارے سامنے زندہ سلامت پھر رہے ہیں۔ یہ صرف پولیس والوں کی مہربانی ہے اور پولیس والوں پر خدا کا کرم ہے کہ وہ اپنی ذمے داریاں‘ نہایت خلوص نیت کے ساتھ ادا کر رہے ہیں۔ اپنے فرائض نبھا رہے ہیںاور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ عوام ان لیڈروں کے لئے کیا کیا دعائیں کر رہے ہیں؟شاید پولیس والے یہ سوچتے ہوں کہ عوام اپنے لیڈروں سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ عوام کے جس جس محبوب لیڈر نے جتنی دولت بھی کمائی ہے‘ وہ حریص اور لالچی پاکستانیوں کے برے ارادوں سے بچی رہے۔ کوئی اس پر ہاتھ نہ مارے۔ کوئی اسے لوٹ نہ پائے۔ہمارے ارباب اقتدار اگر پاناما جیسے دور افتادہ مقامات پر عوام کی دولت ‘ان سے چھین کر محفوظ نہ کریں‘ تو پاکستان کنگال ہو جائے۔ حکومت پاکستان نے کرپٹ رہنمائوں کے لئے‘ ایسے ایسے قوانین بنا دئیے ہیں کہ جو رہنما کرپشن کے ذریعے جتنی زیادہ دولت جمع کرتا ہے‘ اسے اتنا ہی تحفظ دیا جاتا ہے۔ہمارے جو ادارے ناجائز دولت کمانے والوں کو پکڑنے پر مامور ہیں‘ اگر انہیں یہ شکایت ملے کہ فلاں شخص نے ناجائز دولت جمع کی ہے اور ادارے کے افسران یہ رپورٹ لکھ دیں کہ گرفت میں آیا ہوا شخص‘ بے گناہ ہے تو قوم کو ڈانٹ کر بتایا جاتا ہے کہ ہم نے اسے ایک مرتبہ بے گناہ قرار دے دیا ہے۔ اب کوئی بد زبان اس پر الزام نہ لگائے۔ اس کے پاس جتنی بھی دولت ہے‘ آئندہ ہم اس کی حفاظت کریں گے اور سچی بات ہے کہ وہ قول کے پکے ہیں۔ اختیارات اور اتھارٹی رکھنے والے کتنے لوگوں نے کرپشن کر کے‘ اتنی دولت جمع کی ہے ‘ وہ ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گئی۔دنیا میں بڑے بڑے دولت مندوں نے مل کر جو قواعد و ضوابط طے کئے ہیں ‘ ان کے تحت جتنی بھی ناجائز دولت یکجا کر کے‘ مشترکہ تحفظ میں دے دی گئی ہے ‘ اسے وہ شخص زندگی بھر آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا‘ جس سے یہ چھینی گئی ۔پاکستان میں جتنے لوگوں سے لوٹ کر یہ دولت جمع کی گئی‘ ان کی اکثریت دھکے کھاتی پھر رہی ہے۔اس کے جوتے ٹوٹے ہوئے ہیں۔ کپڑے پھٹے ہوئے ہیں۔سانس پھولی ہوئی ہے۔ پسلیوں کی ہڈیاں باہر نکلی ہوئی ہیں۔ ایسی دولت پاکستان کے پندرہ بیس خاندانوں کے پاس ہو گی۔اس کی حفاظت کا انتہائی تسلی بخش نظام بنا دیا گیا ہے۔اپنی اغوا شدہ کمائی اور اغوا شدہ بچوں کو‘ بے چارگی کے عالم میں ڈھونڈنے والے غریب پاکستانیوں کے پاس ‘ایک ہی راستہ ہے کہ مدد کے لئے پولیس کے پاس جائیں اور پولیس ان سے یہ بیان دلوائے کہ '' میرا بچہ ناراض ہو کر گھر سے بھاگا ہے اور میرا پیسہ‘ میری جیب سے اچھل کر‘ حکمرانوں کے قدموں میں گرا ہے۔ یہاں میرے اختیار میں کچھ نہیں۔ میرے بچے بھی اور خون پسینے کی کمائی بھی‘‘۔