برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد بھارتی فوج نے خوئے بد چھوڑی نہ کشمیری عوام نے اپنی وضع بدلی۔ میرسید علی ہمدانیؒ کے پیروکاروں کا جذبہ حریت سلامت اور ایثار و قربانی کی روایت برقرار ہے۔ فوج کے مظالم کی حد ہے نہ کشمیریوں کے جہادی ولولے کی کوئی انتہا۔ دونوں عروج پر ہیں۔ بھارتی فوج پیلٹ گن کا فائر کرتی ہے تو جواباً نعرہ گونجتا ہے: ''پاکستان سے رشتہ کیا‘ لا الہ الا اللہ‘‘
پاکستان میںالبتہ اصحاب سیاست سے لے کر ارباب صحافت تک کنفیوژن اور بے حسی کا شکار ہیں اپنے مفادات اور بے بصیرتی کی وجہ سے وہ خود تو کنفیوژ ہیں‘ قوم کو بھی اس مرض میں مبتلا دیکھنا چاہتے ہیں۔ کشمیریوں کے بارے میں بھی یہی باور کرا رہے ہیں کہ سربکف مرد و زن اور پیروجواں صرف بھارت سے بیزار نہیں‘ پاکستان سے بھی بدظن ہیں‘ دونوں سے چھٹکارا پا کر اپنی آزاد دنیا بسانا چاہتے ہیں۔ یہ بے خبری اور لاعلمی ہے یا ''پاکستان سے رشتہ کیا ‘لا الہ الا اللہ‘‘ کے نعرے سے وحشت؟ واللہ ا علم بالصواب۔
کشمیریوں نے حالیہ جدوجہد میں صرف بھارتی سیکولرازم اور جمہوریت کو بے نقاب نہیں کیا‘ انسانی حقوق کی علمبردار اور نام نہاد تنظیموں‘ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اور عالمی برادری کی منافقت کا پردہ بھی چاک کیا۔ سوشل میڈیا کی ترقی‘ روشن خیالی اور معلومات کے امتیاز و تفریق کے بغیر فراہمی کا پول بھی کھولا۔ امریکہ اور یورپ کی طرف سے جو بیانات جاری ہوئے وہ کشمیری عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف تھے۔ پُرامن مذاکرات کی تلقین اور تحمل و برداشت پر زور‘ کیا ظالم اور مظلوم‘ جارح اور مجروح کو ایک ہی میزان میں تولنا اور ظالم کا پلڑا بھاری رکھنا نہیں تو کیا ہے؟ اور سماجی رابطوں کی مقبول بین الاقوامی ویب سائٹ فیس بک کا جانبدارانہ طرزعمل؟ پیرس اور دوسرے شہروں میں دہشت گردی کے واقعات ہوں یا مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح کرنے والے مواد کی ترسیل‘ تشہیر اور تبلیغ ‘فیس بک نے کبھی قابل اعتراض مواد کو حذف کرنے کی سعی نہیں کی مگر مظلوم کشمیریوں سے یکجہتی اور بھارتی مظالم کو عالمی سطح پر بے نقاب کرنے کے لیے صارفین نے فیس بک کا سہارا لیا تو انتظامیہ نے ایسے اکائونٹس بلاک کر دیئے اور وہ بھی آزادانہ فیصلے کے تحت نہیں‘ بھارتی حکومت کے دبائو پر۔ صرف بھارت میں بند کئے گئے اکائونٹس کی تعداد ڈیڑھ لاکھ ہے۔
بھارتی جریدے پترکار کے مطابق کشمیری باشندوں نے 2010ء سے اب تک ہزاروں بار فیس بک انتظامیہ سے شکایت کی کہ ان کے حریت پسندی پر مبنی مثبت پوسٹس کو ڈیلیٹ کیا جا رہا ہے۔ برطانوی جریدہ گارجین یہ انکشاف کر چکا ہے کہ کشمیر میں عوامی جذبات اور بھارت مخالف احتجاج کی کوریج اور کشمیری عوام سے یکجہتی کے لیے لگائی جانے والی پوسٹوں کو ہٹا دیا جاتا ہے حتیٰ کہ جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ سعید کے علاوہ بھارتی صحافی برکھادت کا اکائونٹ بھی ڈیلیٹ کر دیا گیا۔ بھارتی جریدے دکن کرانیکل کے مطابق ہزاروں بھارتی ماہرین تعلیم‘ صحافیوں‘ تجزیہ نگاروں اور دانشوروں نے شکایات درج کرائی ہیں کہ ان کی پوسٹوں کو ڈیلیٹ کیا جا رہا ہے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں امریکی فلم میکرز‘ سماجی کارکنوں اور صحافیوں کی اس حوالے سے شکایات کا جائزہ لیا اور لکھا کہ فیس بک کی سنسر شپ کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے۔
سارا قصور مگر امریکہ‘ یورپ‘ انسانی حقوق کی تنظیموں اور سماجی رابطے کی ویب سائٹ کا نہیں۔ جب مدعی سست تو گواہ کو چُست ہونے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان مسئلہ کشمیر کا ایک فریق ہے اور کشمیری عوام اپنی ہی نہیں پاکستان کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔ کشمیر میں عوام کو کچلنے والی چھ لاکھ فوج اگر وہاں سے ہٹی تو پاکستان کی سرحد پر تعینات ہو گی‘ ہماری مشرقی سرحد پر وہی شرارتیں کرے گی جو ہماری مغربی سرحد پر جاری ہیں اور سی پیک منصوبہ اس کی زد میں ہو گا۔ پاکستان اب تک بیان بازی سے آگے نہیں بڑھا۔ او آئی سی تک کو متحرک نہیں کیا گیا اور پارلیمنٹ کا اجلاس بھی اگست میں بلایا گیا ہے ‘شاید اس اُمید پر کہ اس وقت تک بھارتی فوج کشمیریوں کا مکّو ٹھپ چکی ہو گی اور محمود اچکزئی جیسوں کی فوج مخالف تقریروں کے بعد اجلاس ملتوی کر دیا جائیگا۔ ہر چھوٹے بڑے معاملے پر آل پارٹیز کانفرنس بلانے کی عادی حکومت نے یہ تکلف بھی نہیں کیا ۔حافظ سعید شور مچاتے ہیں تو اعتراض ہوتا ہے کہ براہ کرم وہ خاموش رہیں تاکہ بھارت کو مخالفانہ پروپیگنڈے کا موقع نہ ملے ۔یہ بھارت کی نفسیاتی فتح ہے کہ اُس نے اپنے دشمن کو پاکستان میں نکّو بنا دیا ہے‘ اُسے بھارتی میڈیا کے علاوہ پاکستانی صحافتی مگرمچھوں کے سامنے بھی صفائی پیش کرنی پڑتی ہے۔ بھارتی عوام نے امریکہ کی طرف سے دہشت گرد قرار پانے والے نریندر مودی کو اپنا وزیراعظم منتخب کر لیا مگر پاکستان میں کشمیریوں کے حقوق اور بھارتی مظالم کو اجاگر کرنے والا کسی ٹی وی چینل پر نمودار ہو تو پیمرا کو تکلیف ہوتی ہے۔
پارلیمنٹ کی ایک کشمیر کمیٹی قائم ہے جس کی ذمہ داری مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر اجاگر اور اس حوالے سے پارلیمنٹ کی رہنمائی کرنا ہے مگر اس کے محترم چیئرمین مولانا فضل الرحمن‘ برہان وانی سمیت درجنوں کشمیریوں کی شہادت پر اتنا بھی نہیں تڑپے جتنا وہ پاناما پیپرز کے انکشافات پر بے چین تھے۔ ایک آدھ بیان کے بعد وہ یوں خاموش ہیں جیسے کشمیر میں کچھ نہیں ہو رہا اور کشمیر کمیٹی کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ مولانا فضل الرحمن سے اس کے علاوہ توقع بھی نہیں۔ وہ کشمیریوں کی جدوجہد کے دل سے حامی نہ بھارت کے مظالم پر معترض۔ پاکستانی لیڈر شپ کی اس بے اعتنائی کے باوجود کشمیریوں کا دل اب بھی پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتا اور پاکستان آنے کو مچلتا ہے۔ لاہور‘ اسلام آباد اور کراچی کے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھنے والوں کو بھلا کیا معلوم کہ سرینگر‘ پلوامہ اور شوپیاں کے کشمیریوں کو اسلام‘ پاکستان اور بھارت سے آزادی کا تصّور کس قدر عزیز ہے۔
گزشتہ سال اگست میں مقبوضہ کشمیر کے نوجوان صحافیوں کا ایک وفد پاکستان آیا۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران نے سید شجاعت بخاری کی سربراہی میں لاہور آنے والے وفد کے اعزاز میں عصرانے کا اہتمام کیا‘ جو عشائیے تک جاری رہا۔ وفد کے ایک رکن طارق میر نے فخریہ انداز میں بتایا کہ میں نے صرف پاکستان آنے کے شوق میں بھارتی پاسپورٹ بنوایا جو اسلامیان برصغیر کے سیاسی قبلہ پاکستان سے میری محبت ‘ عقیدت اور یہاں کے لوگوں سے ملنے کی تڑپ کا ثبوت ہے۔ طارق میر نے کہا کہ وفد کے ایک رکن راشد مقبول کی دس دن قبل شادی ہوئی اور عاشق پیرزادہ کی چند دن بعد ہونے والی ہے مگر دونوں یہاں بیٹھے ہیں ۔
شجاعت بخاری نے دورہ مظفر آباد کے تاثرات بیان کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سرینگر اور آزاد کشمیر کے دارالحکومت کا موازنہ کیا اور کہا کہ قیام پاکستان سے قبل مظفر آباد ‘جموں و کشمیر کے لوگوں کے لیے کالا پانی تھا‘ دور دراز اور سہولتوں سے محروم جبکہ سرینگر ہزاروں سال پرانا شہر ہے مگر آج مظفر آباد دیکھ کر ہر کشمیری کے دل سے پاکستان کے لیے دعائیں نکلتی ہیں۔ روزنامہ دنیا کے کالم نگار اور نئی دہلی میں کئی مقامی اور عالمی اخبارات و جرائد سے وابستہ صحافی افتخار گیلانی نے گلہ کیا کہ جو دانشور پاکستان سے نئی دہلی آتے ہیں پاکستان پر اُن کے اعتماد کی سطح پست اور قومی موقف سے وابستگی کمزور ہوتی ہے اور انہیں مل کر کشمیری صحافیوں اور دانشوروں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان آ کر پتا چلتا ہے کہ یہ ملک اس قدر کمزور اور معاشرہ اتنا زیادہ ہزیمت خوردہ نہیں جتنا یہ نام نہاد دانشور ظاہر کرتے ہیں۔ افتخار گیلانی نے کہا کہ پاک بھارت کرکٹ میچ کشمیریوں کے لیے قیامت سے کم نہیں ہوتا۔ بھارتی انٹیلی جنس اہلکار سونگھتے پھرتے ہیں کہ کشمیریوں کا ردعمل کیا ہے؟ وہ بھارت کی جیت پر خوش ہوتے ہیں یا ہار پر؟ ظاہر ہے ہار پر ...
خاتون صحافی شاہانہ بشیر نے مظفر آباد ‘ لاہور اور سرینگر میں کچھ الگ محسوس نہیں کیا‘ وہی اپنائیت اور خوش اخلاقی جو کشمیریوں اور مسلمانوں کا طرۂ امتیاز ہے ‘یہاں دیکھنے کو اور برتنے کو ملی۔ وہ حیران تھیں کہ بھارتی میڈیا پاکستانیوں کے بارے میں اس قدر غلط بیانی سے کام کیوں لیتا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ نئی دہلی میں ہر کشمیری دس سال رہ کر بھی اجنبی لگتا ہے جبکہ پاکستان میں دس روز کے بعد یوں لگتا ہے جیسے ہم یہاں پیدا ہوئے‘ پلے بڑھے اور جوان ہوئے۔
پاکستان اور پاکستانیوں کے بارے میں کشمیریوں کی اس سوچ کو نظرانداز کر کے یہ سمجھنا اور کہنا کہ کشمیری بیک وقت پاکستان اور بھارت دونوں سے بیزار ہیں‘ مظلوموں کے زخموں پر نمک پاشی ہے‘ بے حسّی یا بے خبری؟ شاید تینوں۔