تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     31-07-2016

تاریخ سازوں کے ساز

ترکی ہر پاکستانی کے دِل میں رہتا ہے۔ یہ دُنیا کا ایک ایسا مُلک ہے، جہاں پاکستان کا نام آتے ہی لوگ محبت کا اظہار شروع کر دیتے ہیں اور پاکستان کا شہری ہونا ہی وی آئی پی سٹیٹس کا حامل بنا دیتا ہے۔ ترکوں اور پاکستانیوں کے درمیان یہ تعلق عشروں سے قائم ہے۔ پاکستان چونکہ اپنے آپ کو غیر منقسم ہندوستان کے مسلمانوں کے روحانی، ثقافتی اور تاریخی ورثے کا محافظ اور وارث سمجھتا ہے، اِس لیے تحریک خلافت کے دوران اسلامیان ہند نے اپنے ترک بھائیوں کے ساتھ یگانگت اور تعلق کا جو مظاہرہ کیا، اسے اپنی تاریخ کے ایک سنہرے باب کے طور پر یاد رکھتا ہے۔ ترک بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں اور ان سے ہماری دوستی کا تسلسل نسل در نسل برقرار ہے۔دونوں ملکوں کے تجربات نے انہیں مختلف مکاتب فکر میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان اسلام کا قلعہ کہلاتا اور یہاں ''جدا ہودیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘ کا راگ الاپا جاتا ہے۔ یہ ایک اسلامی جمہوریہ ہے اور یہاں صدر مملکت کے لیے مسلمان ہونا ضروری ہے۔ ریاست دستوری طور پر اسلامی اقدار کے فروغ کی پابند ہے اور کوئی قانون اس بنا پر کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے کہ یہ اسلامی اصولوں کے مطابق نہیں ہے، لیکن ترکی میں اس طرح کا سیکولرازم رائج رہا ہے، جس میں عورتوں کو سر ڈھانپ کر سرکاری دفتروں یا تعلیمی اداروں میں داخلے تک کی اجازت نہیں تھی۔ عربوں سے مخاصمت کے نتیجے میں عربی زبان کو تج دیا گیا، یہاں تک کہ اس میں اذان تک دینا ممنوع قرار پایا۔ ہمارے ہاں کئی حلقے اسے سیکولرازم قرار دیتے ہیں، حالانکہ یہ ''سیکولر فاشزم‘‘ تھا۔امریکہ اور برطانیہ تک میں سیکولرازم کے نام پر وہ کچھ نہیں ہو سکتا ،جو ترکی میں روا رکھا جاتا رہا ہے۔ اس کی فوج میں (ڈیوٹی کے اوقات میں) نماز ادا کرنے، روزہ رکھنے اور دوسرے مذہبی شعائرکی پابندی کی اجازت نہیں تھی۔ یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ (آج کے صدر مملکت) رجب طیب اردوان کی دونوں صاحبزادیوں نے ترکی میں نہیں، امریکہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ترکی میں انہیں سکارف اُوڑھ کر یونیورسٹی جانے کی اجازت نہیں تھی،جبکہ امریکہ میں اس طرح کی کسی پابندی کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ طیب اردوان اور ان کی فیملی کے لئے سکارف کی اہمیت اتنی زیادہ تھی (اور ہے) کہ انہوں نے مُلک چھوڑنا گوارا کر لیا، سر کو ننگا کرنا گوارا نہیں کیا۔اس سب کے باوجود پاکستان اور ترکی کے عوام نے ایک دوسرے سے دوری کبھی محسوس نہیں کی۔ جب یہاں جنرل ضیاء الحق برسرِ اقتدار تھے تو ترکی میں جنرل کنعان ایورن نے حکومت سنبھال لی تھی۔ اس کی پاداش میں انہیں اردوان دور میں عمر قید کی سزا ہوئی، اور وہ قید ہی میں قید ِ زندگی سے آزاد ہو گئے۔ دونوں صدور کے درمیان گہرے ذاتی تعلقات قائم رہے۔جنرل ضیاء الحق ''مولوی‘‘ سمجھے جاتے تھے جبکہ کنعان ایورن کمالسٹ روایت کے علمبردار تھے، اس کے باوجود دونوں میں کوئی بعد یا غیریت نہیں تھی۔ ترک معاشرہ تہذیبی اور ثقافتی طور پر اپنی اسلامی شناخت کو ترک نہیں کر سکا اور وہاں کے اکثریتی (دیہی) علاقے پریکٹسنگ مسلمان رہے۔ آج بھی اسلامی اقدار پر عمل کے اعتبار سے ترک پاکستانیوں سے آگے ہی ہوں گے پیچھے نہیں۔
پاکستانیوں کا اسلام زیادہ تر سیاسی ہے، اسی نے پاکستان کو تخلیق کیا اور یہی ان کی اجتماعی پہچان ہے لیکن یہاں عمل کے اعتبار سے کمزوریاں بے شمار ہیں۔ یہاں نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے کو تقوے کی علامت سمجھا جاتا ہے یعنی ہر شخص اپنے آپ کو یہ فرائض ادا کرنے کا پابند نہیں سمجھتا۔ اسلام پر لچھے دار تقریریں کرنے والے اور اس کے نام پر ووٹ حاصل کرنے والے بھی فرائض کی ادائیگی سے لاپروا نظر آتے ہیں اور ان کی پس پردہ حرکتیں دیکھ کر تو کانوں کو ہاتھ ہی لگائے جا سکتے ہیں، جبکہ ترکوں میں فرائض کی ادائیگی کا اہتمام غیر معمولی ہے۔ یہاں کے اسلام پسند سیکولر ریاست کے اندر رہتے ہوئے او امر ونواہی کا خیال رکھتے اور فرائض کی ادائیگی سے غفلت برتنے کا تصور نہیں کرتے۔ طیب اردوان اور ان کی جماعت کی توجہ کا مرکزمعاشرہ ہے۔ حکومت کے لئے '' جبّہ و قبہ‘‘ان کا مقصود نہیں ہے۔ مصر کی جامعہ ازہر میں تقریر کرتے ہوئے طیب اردوان نے برملا کہا تھا کہ وہ ریاست کو سیکولر رکھنے پر یقین رکھتے ہیں، گویا مذہب حکمرانوں کے لئے تو اہم ہے لیکن حکومت کو اس غلاف میں لپیٹنے کی ضرورت نہیں۔
اس تفصیل میں جانے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ فکری اور عملی بعد کے باوجود ترکوں اور پاکستانیوں کو ایک دوسرے کے معاملات میں اتنی دلچسپی ہے کہ شاید ہی کسی دو دوسرے ممالک کے رہنے والوں کو ہو۔ دماغ جو بھی کہے، دونوں کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔ طیب اردوان اور ان کی جماعت اے کے پارٹی نے جس طرح گزشتہ پندرہ سال میں رہنمائی کا فریضہ ادا کیا اور جمہوریت کے ذریعے ترکوں کو خوشحالی و شادمانی عطا کی، اس نے انہیں دنیا بھر کی توجہ کا مرکز تو بنایا ہی تھا، پاکستانیوں کا محبوب تر بھی بنا دیا۔انہوں نے جہاں ترکوں کے سیکولرازم کو فاشزم سے الگ کیا، اسلام کی تہذیبی اقدار کو فروغ دیا، لباس اور نشست و برخواست کو شخصی آزادیوں سے وابستہ کیا، وہیں عالم اسلام کے سامنے جمہوری معاشرے کو ''رول ماڈل‘‘ کے طور پر پیش کیا۔ یقین دلایا کہ جمہوریت کے ذریعے مسلمان بھی ترقی کر سکتے ہیں۔ عالمی سیاست میں وہ ایک جرأت مند آواز بن کر ابھرے اور عالم اسلام کے ہر مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھا۔ فلسطین سے لے کرمصر اور کشمیر سے لے کر بنگلہ دیش تک انہوں نے منہ میں کبھی گھنگھنیاں نہیں ڈالیں۔وہ عالم اسلام کے سب سے قدآور رہنما سمجھے جانے لگے۔ ترکی میں بار بار فوجی مداخلت ہوتی رہی، اس لئے وہاں بھی فوج اور سیاست دانوں کے درمیان پاکستان ہی کی طرح اعتماد کا فقدان ہے۔ پاکستانی فوج اور سیاست بھی ایک دوسرے سے خائف رہتے، چونکتے اور چونکاتے رہتے ہیں۔ دونوں افواج کی تاریخ اور اجتماعی زندگی میں کنٹری بیوش کو اگرچہ ایک دوسرے سے مشابہت نہیں ہے لیکن مارشل لا نافذ کرنے کے حوالے سے دونوں کو جڑواں بہنیں(یا بھائی) قرار دیا جا سکتا ہے۔ طیب اردوان ترکوں کے مسیحا بنے تو فوج سے سیاست کے اخراج کے لئے بھی سرگرم ہوئے۔ تفصیل سے قطع نظر، ان اقدامات ہی کا نتیجہ تھا کہ 15جولائی کی بغاوت ناکام ہوئی، اور عوام نے سڑکوں پر نکل کر ٹینکوں ہی کا نہیں تاریخ کا رخ بھی بدل دیا۔ پاکستان میں بھی اس پر اظہارِ مسرت ہُوا، اور اہل ِ پاکستان نے اپنے ترک بھائیوں کے حق میں پُرجوش نعرے لگائے، مٹھائیاں کھائیں اور کھلائیں...کہوں بیٹی کو، سنائوں بہو کو ۔
یہاں تک تو سب درست تھا، لیکن جب ترک قیادت نے فتح اللہ گولن، اور ان کی خدمت تحریک کوا س بغاوت کا ذمہ دار قرار دے کر کارروائیاں شروع کیں، تو اہل ِ پاکستان تشویش میں مبتلا ہو گئے۔اب تک کی اطلاعات کے مطابق18 ہزار افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں۔1700 فوجی اہلکار برطرف کیے گئے ہیں، جن میں ایک سو سے زیادہ جنرل شامل ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ40فیصد جنرل فوج سے الگ کیے جا چکے ہیں۔66ہزار سرکاری ملازمین کو نوکریوں سے نکالا جا چکا ہے۔ 30ہزار باشندوں کے پاسپورٹ منسوخ کر دیئے گئے ہیں۔142میڈیا اداروں کو بند کر کے درجنوں اخبار نویس حوالہ ٔ زنداں کئے جا چکے ہیں۔عدلیہ، پولیس اور تعلیمی اداروں سے اخراج ہزاروں میں ہے۔ اگرچہ صدر کی توہین کے الزام میں جن دو ہزار افراد پر پہلے سے مقدمات چل رہے تھے، ان کو آزاد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے، یعنی صدر نے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ ذاتی مخاصمت پر کسی کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے لیکن ''اجتماعی مجرموں‘‘ کے لیے معافی نہیں ہے۔ فتح اللہ گولن جو کہ ایک ممتاز ترک دانشور اور مذہبی رہنما ہیں، اور ایک زمانے میں طیب اردوان کے حلیف بھی رہے ہیں،1999ء میں وہ امریکہ جا بسے تھے۔ ان کی واپسی کا تقاضہ کیا جا رہا ہے، انہیں اور ان کی تحریک کو او آئی سی سے دہشت گرد قرار دلوانے کی کوشش زوروں پر ہے۔ ہم پاکستان کے رہنے والے فتح اللہ گولن کو ایک امن پسند سکالر کے طور پر جانتے ہیں، جنہوں نے پوری دُنیا میں تعلیمی اداروں کا جال بچھا دیا ہے۔ پاکستان میں بھی ان سے فکری تعلق رکھنے والے کئی ''پاک ترک سکول‘‘ کام کر رہے ہیں۔ ترکی میں ان سکولوں کو بند کیا جا رہا ہے، یا ان کی انتظامیہ تبدیل ہو رہی ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق ترک حکومت پاکستان سے بھی یہی توقع رکھتی ہے۔پاکستان کے لوگوں کو یہ سمجھنے میں دشواری ہو رہی ہے کہ فتح اللہ گولن یا اُن کی جماعت دہشت گرد ہیں۔ یہ بات تو سمجھ میں آ سکتی ہے کہ ان سے متاثر افراد بغاوت میں ملوث ہوں، لیکن ان کا ہر پیروکار گردن زدنی ہے، اور دہشت گرد، اسے تسلیم کرنا آسان نہیں ہے۔ ہم اہل ِ پاکستان ترک حکومت سے یہ توقع کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ وہ اپنے نقطہ نظر کے حق میں دستاویزی مواد سے ہمیں آگاہ کرے۔ چند روز پہلے ایک رکن پارلیمنٹ برہان اکا ترک پاکستان آئے تھے،انہوں نے لاہور میں تعلیم حاصل کی ہے، اور یہیں کام بھی کرتے رہے ہیں۔وہ اے کے پارٹی کے بانی ارکان میں سے ہیں، ان کے ساتھ تفصیلی تبادلہ ٔ خیال ہوا، لیکن ناکام بغاوت کے بعد کی جانے والی کارروائیوں کی وسعت اور شدت کے حوالے سے ان کے جوابات ناکافی محسوس ہوئے... پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں (خصوصاً مسلم لیگ(ن) اور جماعت اسلامی) سے یہ گزارش بے جا نہیں ہو گی کہ وہ اظہارِ مسرت کے ساتھ ساتھ ایسی تفصیلات بھی جلد از جلد لوگوں تک پہنچائیں، جن سے اطمینان کی کوئی صورت نکل سکے۔ بصورت دیگر تو دھڑکا لگا رہے گا کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ایسا نہ ہو جائے۔ ایک کامیابی کا مطلب دائمی کامیابی نہیں ہے۔ہمیں تسلیم کہ طیب اردوان کوئی معمولی شخصیت نہیں ہیں۔ اتاترک کے بعد ان جیسا طاقتور رہنما ترکی کو نصیب نہیں ہوا۔ نامور دانشور اور کالم نگار حفیظ اللہ نیازی صاحب تو اُن کو اِس سے بھی بڑا درجہ دیتے ہیں۔ وہ اِس وقت مقبولیت کی معراج پر ہیں۔گولن موومنٹ کے متعلقین اکثریت کے ردعمل سے ہراساں ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں اپنے صدرِ مملکت کے پیچھے کھڑی ہیں۔ ان کے نظریاتی مخالف بھی اُن کو امام تسلیم کر رہے ہیں۔ اُن کی بے پناہ مقبولیت، صلاحیت اور تاریخ ساز اقدامات سے انکار ممکن نہیں، لیکن یہ بھی یاد رکھا جائے کہ بڑے لوگوں کی غلطیاں بھی بڑی ہوتی ہیں۔ تاریخ میں تاریخ سازوں کے ساز کئی بار ٹوٹے ہوئے پائے گئے ہیں۔
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved