تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     31-07-2016

مگر

جی نہیں، حضور، یہ ترجیحات کا معاملہ ہے، ترجیحات کا۔ یہ اندازِ فکر کی بات ہے۔ اندازِ فکر جب تک درست نہ ہو گا، خرابی اتنی ہی رہے گی بلکہ بڑھتی چلی جائے گی۔
لاہور کی برکی روڈ پر پنجاب کے ایک صوبائی سیکرٹری کی تین کینال زمین پر غنڈوں نے قبضہ کر لیا اور بھتے کا مطالبہ کیا۔ اپنے ایک دوست سے انہوں نے امداد طلب کی۔ دوست کا مشورہ یہ تھا کہ وہ ان غنڈوں سے مفاہمت کرے۔ وہ ایک اعلیٰ پولیس افسر ہے۔ راجپوت افسر نے کسی نہ کسی طرح قبضہ تو حاصل کر لیا مگر ''لفڑا‘‘ جاری ہے۔ چیف سیکرٹری کو انہوں نے خط لکھا ہے اور غالباً وزیر اعلیٰ کو بھی۔ مسئلہ یہ ہے کہ مبینہ طور پر ان لوگوں کا تعلق حکمران جماعت سے ہے۔
تکنیک ان کی شاندار تھی۔ سڑک پار کے قبرستان کی بجائے اس اراضی کے اس قطعے کو انہوں نے قبرستان قرار دیا کہ حکومت نے کچھ فنڈز گورستانوں کی چار دیواریاں بنانے کے لیے مختص کیے تھے۔ ایک صوبائی سیکرٹری اگر اس عذاب سے دوچار ہو سکتا ہے تو دوسرے لوگ کتنے محفوظ ہیں؟
براہِ راست نگرانی کر کے، وزیروں اور افسروں کی لگامیں کھینچ کر، وزیر اعظم ترقیاتی منصوبوں کی رفتار تیز کر سکتے ہیں۔ 2018ء تک بجلی کے قحط سے ملک کو نجات دلا سکتے ہیں، مگر اس کینسر کا علاج کیا ہے۔
کاروبار حکومت میں سب سے اہم ترجیح عام آدمی کی جان و مال اور عزت آبرو کی حفاظت ہوا کرتی ہے۔عام آدمی تو رہا ایک طرف، بارسوخ اور مالدار لوگ بھی اگر خوف و خطر سے دوچار رہیں تو فقط ترقیاتی منصوبوں سے کیا ہو گا؟
بتایا جاتا ہے کہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف، چیف آف آرمی سٹاف سے ملنے گئے تو خاموش وہ ان کی بات سنتے رہے۔ جواب میں چند رسمی جملوں سے زیادہ کچھ نہ کہا۔ خبر آئی تو سننے والوں کا ماتھا اسی وقت ٹھنکا تھا۔ شہباز شریف ہمیشہ چوہدری نثار علی خان کو ساتھ لے کر جایا کرتے ہیں، اب کی بار ایسا کیوں ہوا؟
فرض کیجیے، اس میں مبالغہ ہے۔ فرض کر لیجیے، محض افواہ ہے، اختراع ہے۔ وہ بات تو مگر سو فیصد درست ہے نا کہ سال گزشتہ چوہدری نثار علی خان اپوزیشن یعنی عمران خان پر برسنے کے لیے اٹھے تو وزیر اعظم نے ان سے کہا کہ فلاں ٹی وی چینل کی بات کریں۔ انہوں نے مگر سنی ان سنی کر دی۔ یہ کوئی راز نہیں کہ سول اور ملٹری قیادت میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔ بے سبب تو وزیر اعظم چھ ہفتے تک لندن میں نہ پڑے رہتے، جب کہ وزیر اطلاعات کے مطابق معجزانہ رفتار سے وہ صحت یاب ہو رہے تھے۔ لوٹ کر آئے تو لاہور میں براجمان رہے۔ افواہیں اڑتی رہیں مگر اسلام آباد جانے پر وہ آمادہ نہیں تھے۔طیور کی زبانی اڑتی سی خبر یہ تھی کہ دارالحکومت میں خود کو وہ محفوظ نہیں پاتے۔ حضرت علاّمہ طاہرالقادری نے اسی پس منظر میں آوازہ کسا ہے کہ وہ رائے ونڈ میں رہیں تا کہ ضرورت پڑنے پر سرحد پار اپنے دوستوں کے ہاں پناہ لے سکیں۔ 
مارشل لا کی نوبت تو انشاء اللہ ہرگز نہ آئے گی۔ عام تاثر مگر یہ ہے کہ ٹیکنوکریٹس کی حکومت اور ایوان کے اندر تبدیلی کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ وزیر اعظم کے طنبورے دعویٰ کرتے ہیں کہ ڈٹ کر وہ مقابلہ کریں گے۔ ان میں سے ایک، اسی چینل والا، ہفتے بھر سے ترکی کے حوالے سے آنے والی خبریں، اس طرح چھاپ رہا ہے، گویا وزیر اعظم کو شہ دے رہا ہے کہ پاک فوج اور اپنے مخالفین کے ساتھ وہ وہی سلوک کریں جو ان کے دوست طیب اردوان اپنے حریفوں سے کر رہے ہیں۔ انہی میں سے ایک نے کہا تھا کہ وزیر اعظم اپنے مخالفین کے سینے پرمونگ دلنے آ رہے ہیں۔
بجلی کوئی مسئلہ نہیں۔ ہرگز کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ بد انتظامی کا شاخسانہ ہے، بے عملی اور شاید کرپشن کا بھی۔ ایران پر عائد زیادہ تر پابندیاں ختم ہو چکیں۔ برآمدات کے لیے اب بڑی حد تک وہ آزاد ہے۔ بھارت کو اس نے 2.50 ڈالر فی یونٹ کے حساب سے گیس فروخت کرنے کی پیشکش کی ۔ یہ کہ چاہ بہار کی بندرگاہ پر وہ کھاد کے کارخانے لگائے اور دنیا بھر کو برآمد کرے۔ پاکستان کو اس نے تین ڈالر کی شرح سے یہی گیس مہیا کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ قطر سے کیے جانے والے سودے کا نرخ چھ ڈالر ہے اور یہ پائپ لائن کے ذریعے نہیں آئے گی۔ اوّل مائع میں تبدیل کی جائے گی، پھر جہازوں پر لادی جائے گی۔ پاکستان پہنچے گی تو مائع کو پھر سے گیس میں تبدیل کیا جائے گا۔ اس طرح لگ بھگ 8ڈالر فی یونٹ خرچ ہوں گے۔
معترضین یہ کہتے ہیں کہ ایران کی کھلی پیش کش کے باوجود پہلے قطر سے معاہدہ کیا گیا اور وہ بھی پندرہ برس کے لیے۔ اس الزام کی گونج ہر کہیں سنائی دے رہی ہے کہ اس سودے میں ایک سو ارب روپے کمائے گئے۔ بھارت اور پاکستان کو کی جانے والی پیش کشوں کے بارے میں ابہام اور کنفیوژن ہو سکتا ہے۔ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ عالمی منڈی میں تیل اور گیس کی قیمتیں گری ہیں۔ روایتی ممالک کے علاوہ امریکہ آسٹریلیا اور اب ایران بھی میدان میں ہے۔ کھلی مارکیٹ سے، نقد ادائیگی پر جاپان چار ڈالر پر خرید رہا ہے۔
ترک اور چینی کمپنیوں کے ساتھ کیے جانے والے سمجھوتے خفیہ ہیں۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ شاید اسی لیے یہ کہا جا رہا ہے کہ تجارتی راہداری کے معاملات میں، حکومتِ چین افواجِ پاکستان کی شراکت چاہتی ہے۔ کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ فوجی قیادت اس منصوبے کو عملاً اپنے ہاتھ میں لے چکی، جو پاکستان کی تاریخ میں، سب سے بڑی معاشی سرگرمی ہی نہیں بلکہ اس کی تقدیر کا رخ بدل سکتا ہے، معاشی ہی نہیں، سیاسی طور پربھی۔ اس خطہ ارض میں حالات کا رخ یکسر مختلف ہو سکتا ہے۔ دعویٰ تو یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم کے بعض قریبی رفقا تذبذب کا شکار ہیں۔ تجارتی راہداری سے متعلق وزیر، جنرلوں کے ساتھ رابطے میں رہتا ہے۔
افسر شاہی ان حالات میں کتنی مؤثر رہے گی۔ ارکان اسمبلی سے وفا کی کتنی امید کی جا سکتی ہے؟ جن لوگوں نے اسحق ڈار کے عشائیے میں شرکت سے انکار کیا تھا کیا ان کی ناراضی محض وزیر خزانہ کے ساتھ تھی اور وقتی و عارضی تھی؟ پنجاب کے گورنر رفیق رجوانہ کی طرف سے وزیر اعظم کو بھیجی جانے والی رپورٹ یہ کہتی ہے کہ ارکانِ اسمبلی کا عوام سے رابطہ ہے اور نہ اپنی قیادت سے۔
وزیر اعظم اپنی حکومت کو 2018ء تک کھینچ لے گئے اور اس کا بہت امکان ہے تو بجلی کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ آئندہ الیکشن بھی جیت سکتے ہیں، مگر کیا ملک کا مسئلہ حل ہو سکے گا۔ عام آدمی تو کیا فعال طبقات بھی سکھ کا سانس لے سکیں گے، خوف اور وحشت کی ایسی ہی کیفیت قائم رہے گی؟ بجلی کا قحط مصنوعی ہے۔ یہ اس وقت پیدا ہوا جب پٹرول کی قیمت 108ڈالر فی بیرل تھی۔ اب ایک تہائی کے لگ بھگ۔ پیداواری صلاحیت 22000 میگا واٹ ہے، جبکہ اس وقت زیادہ سے زیادہ 18000 میگا واٹ درکار ہے۔ 29فیصد سستی بجلی پانی اور چھ فیصد ایٹمی توانائی سے پیدا کی جاتی ہے۔ 64فیصد گیس، تیل اور کوئلے سے۔ تیل کا درآمدی بل بڑھا تو ادائیگی کرنا ممکن نہ رہا۔ گردشی قرضہ بڑھتا رہا اور 500ارب تک جا پہنچا۔ دوسرا بڑا مسئلہ سپلائی کا نظام ہے۔ ضرورت بھر بجلی پیدا کر بھی لی جائے تو ٹرانسمیشن لائنیں شاید اس کا بوجھ نہ اٹھا سکیں۔ نندی پور اور قائد اعظم پارک ناکام رہے۔ نیلم جہلم کی تکمیل میں ابھی وقت درکار ہے۔ مگر عالمی منڈی سے تیل خریدا جا سکتا ہے۔ موزوں رفتار سے کام کیا جائے تو 2017ء کے اختتام تک بحران کا خاتمہ ہو جائے گا۔ کرپشن کا مگر کیا ہو گا؟ قطر کا دھبہ کیسے دھلے گا؟ سول اور فوجی قیادت میں ہم آہنگی کیسے پیدا ہو گی؟ پولیس کی اصلاح کیسے ہو گی، جس کی تنخواہیں دوگنا کر دی گئیں مگر بچوں کا اغوا بڑھ گیا اور صوبائی سیکرٹری کی سطح کا افسر بھی غنڈوں سے محفوظ نہیں۔
جی نہیں، حضور، یہ ترجیحات کا معاملہ ہے، ترجیحات کا۔ یہ اندازِ فکر کی بات ہے۔ اندازِ فکر جب تک درست نہ ہو گا، خرابی اتنی ہی رہے گی بلکہ بڑھتی چلی جائے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved