لندن جہاں دیگر بہت سارے حوالوں سے مشہور ہے‘ وہاں اس میں کتابوں کی دکانیں بھی کمال کی ہیں۔ میں ہر سال یہاں سے درجن بھر کتابیں خرید لیتا ہوں‘ جو پورا سال چل جاتی ہیں۔ لندن سے خصوصاً دوسری زبانوں میں لکھے گئے ناولز کے ترجمے باآسانی مل جاتے ہیں۔ جرمن، فرنچ، لاطینی امریکہ کی زبانوں اور روسی فکشن کے تراجم یہاں وافر دستیاب ہیں۔میں نے کچھ عرصہ پہلے لندن ہی سے جرمن ناول The Reader کا ترجمہ خریدا تھا۔ اب اسی ناول نگار کے باقی ناول بھی خرید لیے ہیں۔ دی ریڈر جنگ عظیم دوم کے پس منظر میں لکھا گیا ایک بہترین ناول ہے۔ یہ ایک ان پڑھ خاتون کی محبت اور ٹرائل کی کہانی پر مبنی ہے‘ جس پر الزام تھا کہ اس نے جرمن نازیوں کے کیمپ میں یہودیوں پر ہونے والے ظلم و تشدد میں حصہ لیا۔ اس ٹرائل کی کہانی اور اس کا انجام آپ کو رُلا دے گا۔ اس ناول پر ایک خوبصورت فلم بھی بنی ہے‘ جس میں ٹائی ٹینک فلم کی ہیروئین کیٹ ونسٹن نے مرکزی کردار ادا کیا۔ اگر آپ نے اس ناول کی خوبصورت کہانی کو انجوائے کرنا ہے تو پھر ناول پڑھیے گا‘ یا کم از کم ناول پہلے پڑھئے گا اور فلم بعد میں دیکھئے گا۔
یہ بات بڑی غورطلب ہے کہ ای بکس کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے اب کتابوں کی دکانیں بڑی تیزی سے کم ہو رہی ہیں۔ پہلے آکسفورڈ سٹریٹ میں باڈر کے نام سے کتابوں کی بہت بڑی دکان ہوتی تھی۔ کافی عرصہ بعد لندن آیا اور اسے ڈھونڈا تو نہ ملی۔ ادھر ادھر سے پوچھا تو پتہ چلا وہ بند ہو گئی ہے۔ وہ دکان دو تین منزلہ تھی اور لگتا تھا اس میں کتابوں کا ایک جہاں بسا ہوا ہے۔ اب بچ بچا کے ایک واٹر سٹون رہ گئی ہے‘ جہاں سے کچھ کام کی کتابیں مل جاتی ہیں۔ دن رات دعائیں مانگتا ہوں کہ یہ بھی بند نہ ہو جائے۔ ای بکس کے تصور سے ہی میں ڈر جاتا ہوں۔ کتاب کو ہاتھ میں پکڑ کر پڑھنے اور اسے محسوس کرنے کا جو مزہ ہے‘ وہ بھلا ایک چھوٹے سے ٹیبلٹ یا موبائل فون پر پڑھنے میں کہاں؟
صفدر عباس بھائی نے بتایا تھا کہ وہ اپنی نوکری سے تین بجے فارغ ہو جائیں گے اور طے ہوا تھا کہ میں اگر ٹرالفگر سکوائر پہنچ جائوں تو وہاں کی واٹر سٹون پر کتابیں ڈھونڈی جا سکتی ہیں۔ پکڈلی سرکس پر بھی واٹر سٹون کی بڑی دکان ہے؛ تاہم ٹرالفگر سکوائر مجھے زیادہ پسند رہا ہے۔
لندن آنے سے پہلے اسلام آباد میں عامر متین کے گھر رات گئے ان سے ملنے گیا تو وہاں انور عزیز چوہدری بھی موجود تھے۔ عامر متین بھی کتابوں کا رسیا ہے۔ ان کے گھر بھی اعلیٰ سے اعلیٰ کتابیں ملتی ہیں۔ ان کی تمام تر کوشش کے باوجود میں نے ان کی کبھی کوئی کتاب نہیں اٹھائی‘ نہ ہی کبھی ادھار مانگی۔ مجھے علم ہے کہ کتابوں کے شوقین کو کتاب اپنے بچے اور محبوبہ کی طرح عزیز ہوتی ہے‘ اس لیے ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ کسی کی کتاب نہ لوں‘ لیکن پچھلے سال اپنا یہ اصول اس وقت توڑنا پڑ گیا‘ جب امریکہ کی ریاست ڈیلیور میں زیبر بھائی کے گھر ان کے بیٹے کی لائبریری میں ایسی شاندار کتابیں دیکھیں کہ منہ میں پانی بھر آیا اور آنکھوں میں ہوس اتر آئی۔ اس پر زبیر بھائی کی مسز کہنے لگیں: بھائی آپ لے لیں‘ ہمارا بیٹا اور خرید لے گا۔ زبیر بھائی نے بتایا کہ وہ ہفتے میں ایک روز بارنز اور نوبل بک سٹور پر ضرور گزارتے ہیں۔ میں نے کہا: اس نے بڑی محنت سے تلاش کرکے خریدی ہوں گی‘ اچھا نہیں لگتا۔ وہ بولیں: بھائی! آپ لے جائیں‘ کوئی مسئلہ نہیں۔ اس اجازت کو میں نے غنیمت جانا اور چند کتابیں اٹھا لیں۔ عامر متین کے گھر پر عظیم مورخ ایڈورڈ گبن کی معرکۃ الآرا تصنیف The Decline and Fall of the Roman Empire کی تین جلدیں موجود تھیں۔ ویسے تو گبن نے گیارہ جلدوں میں یہ تاریخ لکھی تھی‘ لیکن اسے ڈی ایم لو نے تین جلدوں میں مختصر کرکے لکھ دیا تھا۔ انور عزیز چوہدری نے بتایا کہ اس حوالے سے اس سے بہتر کام کسی نے نہیں کیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ دنیا کے ہر بڑے مورخ نے ہمارے رسول پاکﷺ پر لکھا ہے‘ لیکن جو گبن نے گیارہ بارہ صفحات میں ان کی ذات پر لکھ دیا ہے‘ اس سے بہتر تحریر حضورﷺ کی زندگی پر انہوں نے نہیں پڑھی۔ عامر متین نے مشورہ دیا کہ اس کی فوٹو کاپی کرا لینا‘ کیونکہ اب یہ مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے۔ خود گبن نے بھی ڈی ایم لو کی ان تین جلدوں میں ان کی گیارہ جلدوں کو سمونے کے کام کی تعریف کی تھی۔ میں نے کہا کہ لندن جا رہا ہوں‘ وہاں چیک کروں گا‘ نہ ملی تو پھر آپ سے لے کر کاپی کرا لوں گا۔ اب اسی کتاب کی تلاش میں واٹر سٹون پہنچا تھا۔ پتہ کیا تو کتاب دستیاب نہ تھی۔ انہوں نے ایک اور پینگوئین ایڈیشن دکھایا؛ لیکن عامر متین اور انور عزیز چوہدری نے ڈی ایم لو کے ایڈیشن کی اتنی تعریف کی تھی کہ اس کے علاوہ اور کچھ نہ خرید سکا۔
کتابوں کے درمیان پھرتے پھراتے اور نئے تراجم دیکھتے ہوئے میری آنکھ جیفری آرچر کی افسانوں پر مشتمل نئی کتاب پر پڑی۔ بعض کتابیں ایسی ہوتی ہیں جو آپ کو پہلی نظر اور پہلی لائن کے ساتھ ہی اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔ اس کتاب نے بھی مجھ پر جادو کر دیا۔ جیفری آرچر معروف مصنف ہے اور اب تک اس کے لکھے ہوئے ناول دو کروڑ ستر لاکھ کی تعداد میں بک کر بیسٹ سیلر قرار پا چکے ہیں۔ اپنی اس کتاب میں اس نے جو افسانے لکھے ہیں‘ مصنف کے مطابق وہ زیادہ تر سچی کہانیاں ہیں‘ جنہیں اس نے افسانے کا رنگ دیا ہے۔ کمال کی کہانیاں ہیں۔ مختصر اور خوبصورت انداز میں لکھی گئی ہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ وہ جب دنیا کے مختلف خطوں میں گھومنے جاتا ہے تو وہاں کی کہانیاں اکٹھی کرتا رہتا ہے۔ وہ لوگوں سے قصے سنتا ہے اور انہیں کہانی کا رنگ دیتا ہے۔
جیفری آرچر کی ساڑھے آٹھ سو صفحات پر مشتمل افسانوں کی اس کتاب میں سب سے پہلی کہانی صرف ایک صفحے کی ہے۔ اس کا عنوان اس نے Death Speaks رکھا ہے۔ یہ کہانی عربی سے ترجمہ کی گئی ہے۔ آرچر کہتا ہے کہ اس سے بہتر کہانی اب تک کوئی نہیں لکھی گئی۔ اس کہانی کا ذکر سمرسٹ ماہم کے ایک ڈرامے میں ملتا ہے۔ ایک اور ادیب نے بھی اپنی کسی تحریر میں اس کہانی کا ذکر کیا ہے۔
کہانی کچھ اس طرح ہے: بغداد میں ایک تاجر رہتا تھا۔ ایک دن اس نے اپنے ملازم کو بازار بھیجا کہ وہ کچھ چیزیں خرید لائے۔ کچھ دیر بعد وہ ملازم واپس لوٹا تو حواس باختہ تھا۔ خوف سے کانپ رہا تھا۔ مالک کے استفسار پر ملازم بولا: میرے آقا! جب میں ابھی بازار میں داخل ہی ہوا تھا تو مجمع میں سے ایک خاتون مجھ سے بری طرح ٹکرائی‘ خاتون نے مڑ کر دیکھا تو ایک لمحے میں‘ میں سمجھ گیا کہ ٹکرانے والی دراصل میری موت ہے۔ نوکر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: میرے آقا اس عورت نے ٹکرانے کے بعد میری طرف دیکھا اور پھر دھمکی آمیز انداز میں اشارے کئے‘ اب آپ مجھے اپنا گھوڑا دے دیں‘ میں اس شہر سے فوراً فرار ہونا چاہتا ہوں‘ میں موت سے بھاگنا چاہتا ہوں‘ دور چلا جانا چاہتا ہوں۔ نوکر بولا کہ وہ گھوڑا لے کر سامرا چلا جائے گا‘ وہاں اسے موت نہیں ڈھونڈ سکے گی (سامرا بغداد سے ایک سو پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک عراقی شہر ہے) یہ باتیں سن کر مالک نے موت سے خوفزدہ ہو کر فرار ہونے والے نوکر کو اپنا گھوڑا دے دیا۔ نوکر گھوڑے پر بیٹھا اور اسے جتنا تیزی سے دوڑا سکتا تھا‘ دوڑایا اور شہر سے باہر نکل گیا۔
نوکر کے چلے جانے کے بعد مالک خود بازار گیا۔ اس نے ہجوم میں اسی موت کو کھڑے ہوئے دیکھا۔ مالک سیدھا اس کے پاس گیا اور بولا: اس صبح تم نے میرے نوکر کو کیوں دھمکی آمیز اشارے کیے تھے؟ موت بولی: میں نے تو کوئی دھمکی آمیز اشارے نہیں کیے‘ دراصل میں تو اسے دیکھ کر حیران رہ گئی تھی کہ وہ بغداد کے بازار میں کیا کر رہا ہے۔ میری تو اس کے ساتھ ملاقات آج رات سامرا میں طے تھی!