تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     31-07-2016

اربوں کا سوال ہے!

پیسے مانگنے ہوں تو پاکستان ہمیشہ چین یا سعودی عرب کا رخ کرتا ہے۔ زرداری صاحب جب صدر تھے تو انہوں نے بھی چین کے متعدد دورے کئے۔ اس کے لئے جواز وہ یہ پیش کرتے تھے کہ چینیوں سے کچھ سیکھنے وہاں جاتے ہیں۔ تو کیا انہوں نے واقعی ان سے کچھ سیکھا؟ اگر ایسا ہے تو انہیں بتانا چاہئے کہ آخر ریاستی خرچوں پر ہونے والے ان دوروں میں انہوں نے کیا کچھ ''سیکھ‘‘ لیا ہے؟ ان دوروں میں تو عیاشیوں کے لئے جانے والے مفت خوروں کی ایک بڑی تعداد بھی ان کے ہمراہ ہوتی تھی۔ ان کے بعد 2013ء میں جب نواز شریف صاحب وزارت عظمیٰ پر متمکن ہوئے تو اپنے اولین بیرونی دور ے کے لئے ان کی نظر انتخاب بھی چین ہی پہ ٹھہری تھی۔ اس سے انہیں محض اس امر کا اظہار مقصود تھا کہ چین کے ساتھ ہماری دوستی ''ہمالیہ سے بلند تر، شہد سے شیریں تر، سمندروں سے زیادہ گہری اور سٹیل سے زیادہ مضبوط ہے‘‘۔ امسال جب چینی صدر پاکستان کے دورے پر آئے تو جواباً انہوں نے بھی ایسے ہی شاندار جذبات کا اظہار کیا۔ ان کی پاکستان آمد سے قبل یہاں کے اخباروں میں ان کا ایک مضمون شائع ہوا‘ جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ ''یہ میرا پاکستان کا پہلا دورہ ہو گا لیکن مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے گویا میں اپنے سگے بھائی کے گھر جا رہا ہوں‘‘۔ اپنی اس تحریر کے ذریعے انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان کسی ''گھنے اونچے پیڑ کی مانند پروان چڑھنے والے مضبوط تعلقات‘‘ کو ایک نیا استعارہ بخش دیا۔ اس سے ہمیں ایک انگریزی نظم کی وہ سطر یاد آ گئی کہ
"Sugar and spice and all things nice,
That's what little girls are made of"
کیا یہی سطور پاک چین تعلقات پر بھی صادق نہیں ٹھہرتی ہیں؟ اس دورے کے بارے میں امریکی روزنامہ واشنگٹن پوسٹ نے یہ لکھا کہ ''خجل کر دینے والی اس قسم کی جذباتی باتوں کو آسانی سے وہ دکھاوا سمجھا جا سکتا ہے جو سفارتی تعلقات کی ایک مجبوری ہوتی ہے۔ چین اور پاکستان میں صرف سرحد ہی مشترک ہے۔ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان ثقافتی روابط نہایت بودے ہیں‘‘۔ امریکی میڈیا کی جانب سے ہونے والے اس قسم کے تبصروں کو ''حسد و رشک‘‘ سمجھ کر مسترد کیا جا سکتا ہے۔ چینی صدر خالی ہاتھ نہیں آئے بلکہ چھیالیس بلین ڈالرز کی لاگت کے ''حقیقی تحائف‘‘ بھی ساتھ لے کر آئے۔ پاکستان کی گرتی معیشت کو سہارا دینے کے لئے توانائی کی پیداوار اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کے شعبوں میں چھیالیس بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ کوئلے اور جوہری توانائی سے متعلقہ منصوبوںکے ذریعے دس ہزار چار سو میگاواٹ کی مقدار میں اضافی بجلی کی پیداوار بھی اسی میں شامل ہے۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ چھیالیس بلین ڈالر کا یہ پیکج عملی صورت اختیار کرے گا یا نہیں، یا پھر ہمارے مالی معاونین کے طور پر صرف سعودی ہی نواز شریف صاحب کے کشکول میں خیرات کے ٹکڑے ڈالتے رہیں گے!
یہاں امریکہ میں سیاستدانوں کا ایک مستقل شکوہ یہ ہے کہ چین امریکہ پہ غالب ہو گیا ہے۔ اس کے لئے الزام وہ صدر اوباما کو دیتے ہیں۔ ماضی میں جب امریکہ والے چائنہ سینڈروم جیسی سائنس فکشن طرز کی فلمیں بنا رہے تھے تو کرہ ارض پر امریکی تسلط کا تصور ہمارے لئے ہیجان خیز ہوا کرتا تھا۔ یہ سبھی کا آقا تھا اور جب اس کی مرضی ہوتی تو کسی کا بھی مذاق اڑا سکتا تھا۔ کون جانتا تھا کہ انتقام کے طور پر ایک دن چین بڑے بڑے امریکی شاپنگ مالوں پر دھاوا بول دے گا‘ اور اپنی مصنوعات کے استعمال کے متعلق ہدایات سے امریکیوں کو چکرا کر رکھ دے گا۔ یہ کس قدر انوکھا انتقام ہے۔ بیچارے امریکی بچے تک اس کا شکار ہو چکے ہیں۔ ایک سات سالہ بچہ لیگو سے ٹرک بنانے بیٹھے گا اور ماں کو پکارنے لگے گا کہ یہ ٹکڑا کہاں جمے گا؟ بیچاری ماں بھی اپنی چھٹی کا لطف اٹھانے کی بجائے اسی پہیلی کو بوجھنے میں مصروف ہو جاتی ہے لیکن افسوس کہ قسمت اس کا بھی ساتھ نہیں دیتی! اور تب تک پھر بچہ بھی اس کھیل میں اپنی دل چسپی کھو چکا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ امریکی خلال کی تیلیوں سے لے کر سمارٹ فونوں تک ان تمام مصنوعات کو کس طرح جھیلتے ہیں جن پر بڑے فخر سے ''میڈ اِن چائنہ‘‘ لکھا ہوتا ہے۔ دراصل امریکی چیزیں بنانا پسند نہیں کرتے۔ انہیں صرف بیچنا پسند ہے، یا پھر بکوانا! یعنی امریکہ سیکنڈ ہینڈ گاڑیوںکے اس سیلزمین کی طرح ہے جو غیر معیاری چیزیںہی ہمیں بیچتا ہے۔
ہم نے ایک دفعہ کم قیمت پر ایک میز خریدی تھی۔ کافی مشکلوں سے بڑے بڑے ڈبوں کو سیڑھیوں سے چڑھا کر ہم اپنے اپارٹمنٹ تک لائے۔ پھر میز بنانے کے لئے اس کے ٹکڑوں کو ہم نے جوڑنا شروع کیا۔ جو تحریری ہدایات اس کے ساتھ دی گئی تھیں انہوں نے ہمیں چکرا کر رکھ دیا تھا۔ ہمارے سامنے جو نٹ بولٹ اور پیچ پڑ ے تھے وہ کسی طور اس کاغذ پر دی گئی تصاویرکے مطابق فٹ نہیں ہو رہے تھے۔ اس میز کو جوڑنے میں ہمیں کئی دن لگ گئے۔ اور آخرکار جب جڑ کر کھڑی ہو گئی تو ہمیں سکاچ ٹیپ کا ایک ٹکڑا اس پہ چپکا ہوا دکھائی دیا۔ بے خیالی میں ہم نے اسے کھینچا تو اس کے ساتھ ہی میز کی سطح سے کاغذ کی ایک تہہ بھی اتر گئی اور کارڈ بورڈ کا ایک پیوند میز پر نظر آنے لگا۔ خود کو ہم نے یہی کہا کہ یہ ہمیں سستی خریداری کی سزا ملی ہے!
فرنیچر، برقی مصنوعات، کھلونوں اور کپڑوں یعنی جو کچھ بھی امریکیوں کے پاس ہے، ان سب چیزوں پر کنٹرول چین کا ہے، اور اب تو دنیا کی غذائی پیداوار پر بھی چین قبضے کی سوچ رہا ہے۔ فرٹیلائزرز کے کاروبار میں تو وہ پہلے ہی سے موجود ہیں۔ اپنی روزمرہ کی خوراک پر بھی چینیوں کے قبضے کا تصور امریکیوںکے لئے پریشان کن ہے۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ دنیا میں نایاب زمینی دھاتوں اور معدنیات کی سپلائی ستانوے فی صد چین سے ہوتی ہے۔ یہ معدنیات اور دھاتیں فوجی ساز و سامان سمیت اعلیٰ تکنیکی مصنوعات کی تیاری میں ایک بنیادی کردار رکھتی ہیں۔ چین کے اقتصادی انقلاب کے مرکزی خالق ڈینگ جیاؤ پینگ نے تو 1992ء میں ہی کہہ دیا تھا کہ اگر مشرق وسطیٰ میں تیل ہے تو چین میں نایاب امریکی دھاتیں ہیں۔
چند سال پہلے ہم فلوریڈا میں کیپ کانورال گئے تھے تاکہ وہ جگہ دیکھ سکیں جہاں سے 20 جولائی1969ء کو امریکہ نے پہلی بار چاند پر انسانوں کو بھیجا تھا۔ ہم نے ناسا کے کمپیوٹرز بھی دیکھے۔ یہ بڑی بڑی بے ڈھنگی سی مشینیں تھیں۔ اپالو11 کی ساری پرواز یعنی شروع سے لے کر چاند پر اترنے اور پھر زمین پہ واپسی تک‘ انہی کے ذریعے کنٹرول کی گئی تھی۔ ہم نے کینیڈی سپیس سینٹر سے اپالو11 کی پرواز کی ریکارڈنگ بھی دیکھی اور نیل آرمسٹرانگ کے وہ مشہور الفاظ بھی سنے کہ ایک انسان کا یہ چھوٹا سا قدم بنی نوع انسان کے لئے ایک بہت بڑی جست ہے! اس روز وہاں ہزاروں لوگ آئے تھے لیکن دو اقوام نمایاں تھیں: چینی اور ہندوستانی! یہ لوگ اپنے بچوں سمیت وہاں موجود تھے۔ اگلے چند برسوں میں یہی بچے دنیا کی قیادت کر رہے ہوں گے کیونکہ ہمیں لگتا ہے کہ چین اور ہندوستان ہی اگلی دو سپر پاورز ہیں۔
پانچ سال قبل کی بات ہے کہ کراچی میں رہنے والے اسد وائیں‘ جن کی عمر اس وقت تیئس برس تھی، چین سے واپس لوٹے تھے اور ہمیں بتا رہے تھے کہ مشرقی ایشیا ہم سے سو سال آگے ہے، بھارت ہم سے تیس برس آگے ہے اور مغرب والے تو مزید ایک دو صدیاں آگے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان سے غلطی کہاں اور کیوں ہوئی؟ یہ ایک بہت گھسا پٹا سوال ہے جو ہم لکھنے والے عموماً اسٹیبلشمنٹ اور کرپٹ سیاستدانوں سے پوچھتے رہتے ہیں؛ تاہم ان سے کوئی جواب ہمیں کبھی نہیں ملتا!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved