تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     31-07-2016

ناکام بغاوت کے بعد ۔۔۔۔ دوسرا رخ

مسٹر برہان کیا ترک کو اعتراف تھا کہ آج ترکی میں جمہوریت کی صورت حال مثالی نہیں۔ 15جولائی کی بغاوت اگرچہ ناکام ہوئی، لیکن اس نے جمہوریت کو متاثر کیا۔ ترکی میں غیر معمولی صورت حال کے باعث ایمرجنسی نافذ ہے، بنیادی انسانی حقوق معطل ہیں، لیکن مسٹر برہان پرُامید تھے کہ یہ کیفیت زیادہ دیر نہیں رہے گی اور ترکی معمول کی صورت حال کی طرف لوٹ آئے گا۔ تب ایک نیا آغاز ہو گا، نئی جمہوری پیش رفت کا آغاز۔
ترکی میں 15جولائی کی شب ایک فوجی دھڑے کی جانب سے ہونے والی بغاوت کی ناکامی دنیا بھر میں جمہوریت پسندوں کے لئے مسرت و اطمینان کا باعث بنی تھی۔ اپنے لیڈر کی پکار پر ترک عوام اپنی جمہوریت کو بچانے کے لئے گھروں سے نکل آئے اور ٹینکوں کے سامنے سینہ سپر ہو گئے۔ گن شپ ہیلی کاپٹروں کی فائرنگ بھی انہیں خوفزدہ نہ کر سکی۔ چار ساڑھے چار گھنٹے کے بعد باغی پسپا ہو گئے۔ اس موقع پر نہتے عوام کے ہاتھوں مسلح باغیوں پر جو بیتی، اس نے دنیا بھر میں جمہوریت پسندوںکو نیا حوصلہ دیا۔ عوام اپنی جمہوریت کے تحفظ کے لئے سینہ سپر ہوئے اور بغاوت کی پسپائی کا آغاز ہوا، تو آئین اور جمہوریت کی وفادار فوجی قیادت، فوجی جوان اور پولیس بھی یکسو ہو گئی۔ اب وہ بھی اپنے عوام کے ساتھ تھے۔ بغاوت کی ناکامی کے بعد فوج، عدلیہ، سرکاری انتظامیہ، تعلیمی اداروں اور میڈیا میں وسیع پیمانے پر کریک ڈاؤن نے بغاوت کی ناکامی پر شاداں و فرحاں جمہوری حلقوں میں تشویش اور اضطراب کی لہر دوڑا دی تھی۔ پاکستان میں بھی جمہوریت پسند اس پر مضطرب تھے۔
ایسے میں مسٹر برہان کیا ترک تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کے لئے پاکستان آئے۔ وہ چار بار ترک پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے جسے وہ اپنے لیڈر اور اپنی پارٹی کی عوامی مقبولیت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ برہان نے چار سال لاہور کی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں گزارے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد مزید چار پانچ سال یہاں بطور انجینئر خدمات انجام دیں۔ اردو سے ان کی شناسائی اچھی خاصی ہے۔ وہ روانی کے ساتھ نہیں قدرے رک رک کر اس میں اپنا نقطۂ نظر بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ 
جمعرات کی شب پلڈاٹ نے لاہور میں عشائیے پر دانشوروں کے ساتھ ان کی ملاقات کا اہتمام کیا (جس میں مسز برہان بھی شریک تھیں۔) پلڈاٹ کے احمد بلال محبوب بھی لاہور یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے فارغ التحصیل ہیں۔ وہ یونیورسٹی کی سٹوڈنٹس یونین کے صدر بھی رہے۔ تب تعلیمی اداروں (خصوصاً یونیورسٹیوں اور بڑے کالجوں) میں سٹوڈنٹس یونین کے انتخابات میں معرکے کا رن پڑتا تھا۔ 
بغاوت کی شب، ترک لیڈر اردوان نے عوام سے سڑکوں پر آنے کی اپیل کے ساتھ اپنے ارکان پارلیمنٹ کو بھی عوامی حاکمیت کے مظہر، پارلیمنٹ ہاؤس پہنچنے کی تاکید کی۔ مسٹر برہان بھی گھر سے نکل کر پارلیمنٹ ہاؤس کی طرف روانہ ہوئے۔ تب سڑکوں پر دندناتے باغی ٹینکوں کے مقابل، یہ واقعی شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنے والی بات تھی۔ یہ آئین، جمہوریت، اپنی پارٹی اور لیڈر کے ساتھ وفا کی آزمائش کا وقت تھا جس میں برہان پورا اترے۔ وفا شعار شریکِ حیات اور بھائی بھی ان کے شانہ بشانہ تھے۔ پارلیمنٹ ہاؤس کے گرد و نواح میں تصادم کی کیفیت تھی۔ منتخب نمائندے کو اپنے درمیان پا کر عوام میں مزاحمت کا جذبہ دو چند ہوگیا۔ یہ صورت حال ٹینکوں میں موجود باغیوں کا حوصلہ پست کرنے کا باعث بنی۔ مسٹر برہان بتا رہے تھے کہ انہیں پارلیمنٹ ہاؤس میں داخل ہونے میں ایک گھنٹہ بیس منٹ لگ گئے۔ اس دوران جہازوں سے پارلیمنٹ ہاؤس پر بم بھی برسائے گئے۔ گن شپ ہیلی کاپٹروں سے کی جانے والی فائرنگ اس کے علاوہ تھی۔ پارلیمنٹ کا بڑا حصہ تباہ ہوگیا۔ 
مسٹر برہان کے بقول 10 ملین سے زائد عوام کی مزاحمت نے باغیوں کے حوصلے توڑ دیے۔ تقریباً ساڑھے دس بجے شب شروع ہونے والی بغاوت 3 بجے صبح تک دم توڑ چکی تھی۔ اس میں عوام کی بہادری کے ساتھ لیڈر شپ کی جرأت اور جوانمردی نے بھی بنیادی کردار ادا کیا۔
صدر اردوان چھٹیوں پر مرمریس (ازمیر) میں تھے۔ وزیرِ اعظم بھی دارالحکومت سے استنبول آئے ہوئے تھے۔ باغیوں نے اردوان کے ہوٹل کو نشانہ بنایا لیکن وہ 15 منٹ پہلے وہاں سے نکل آئے تھے۔ استنبول کی طرف پرواز کے دوران باغی ہوائی جہازوں نے اردوان کے پائلٹ سے دریافت کیا،کیا یہ صدر کا جہاز ہے؟ پائلٹ نے اپنے حواس خطا نہ ہونے دیے۔ بغاوت کے ہنگام، استنبول کی طرف پرواز کا فیصلہ جرأت مندانہ تھا۔ صدر کی اس جرأت مندی نے پائلٹ کے حوصلے کو بھی دو چند کر دیا تھا۔۔۔''نہیں یہ صدر کا نہیں، ٹرکش ائیر لائن کا مسافر طیارہ ہے‘‘۔ پائلٹ نے پرواز کا فرضی نمبر بھی بتا دیا تھا۔ ترکی کے سرکاری ٹیلیویژن پر باغیوں کا قبضہ تھا اور یہاں سے انہوں نے انقلاب کی کامیابی کا اعلان بھی کر دیا تھا، لیکن صدر اردوان سی این این (ترک) کی خاتون اینکر کے ذریعے اپنا پیغام عوام تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ 
پلڈاٹ کے عشائیے میں مسٹر برہان، ناکام بغاوت سے پہلے اور بعد کی صورت حال (کریک ڈاؤن) کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر بیان کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا، فتح اللہ گولن (اور ان کی تحریک)کبھی ان کے حلیف تھے۔ مہر و مروت کا یہ تعلق دو طرفہ تھا۔ بارہ، تیرہ سال قبل اردوان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے اقتدار کا آغاز ہوا تو فتح اللہ گولن کی تحریک نے وزارتِ داخلہ (اور اس کے اداروں) اور عدلیہ کو اپنے نفوذ کے لئے بطور خاص منتخب کیا۔ مختلف وزارتوں کے ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹس بھی ان کا ہدف تھے۔ 1980ء کی دہائی کے اواخر میں وہ فوج میں بھی اثر و نفوذ بڑھانے لگے تھے۔ اب ون اور ٹو سٹار جرنیلوں تک ان کے اثرات موجود تھے۔ اردوان اقتدار کے بارہ تیرہ برسوں میں انہوں نے میڈیا اور تعلیمی اداروں میں بھی اپنا جال پھیلا دیا تھا۔
چار پانچ سال پہلے حکومت اور گولن تحریک میں فاصلے پیدا ہو نے لگے۔ اردوان ان کے حوالے سے کافی عرصے سے تشویش محسوس کر رہے تھے، لیکن عبداللہ گل اور داؤد اوغلو وغیرہ کو ان کی حقیقت جاننے میں کچھ عرصہ لگا۔ اب فوج اور عدلیہ سمیت مختلف شعبوں میں ہزاروں افراد کی معطلی اور گرفتاری کو مسٹر برہان تطہیر کا عمل قرار دے رہے تھے۔ ان کے بقول تفتیش و تحقیق کے دوران جو لوگ بے گناہ قرار پائے وہ واپس آجائیں گے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ بغاوت کے 5 دن بعد ترکی میں کرائے گئے ریفرنڈم میں91 فیصد عوام نے باغیوں کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا جبکہ 95 فیصد کے خیال میں فتح اللہ گولن اور ان کی تحریک امریکہ کے کنٹرول میں ہے۔ انہوں نے بغاوت کے آغاز میں امریکی وزیرِ خارجہ کے بیان کا حوالے دیا، جس میں جان کیری ترکی میں Stability, peace اور Continuity کی بات کر رہے تھے۔ برہان کے خیال میں اس کا مطلب بغاوت کی حمایت تھا۔ وہ تو جب بغاوت ناکام ہو گئی تب صدر اوباما کی طرف سے منتخب حکومت کی حمایت میں بیان آیا۔ 
ترک امریکہ تعلقات کے حوالے سے برہان کا کہنا تھا کہ اردوان ایک pragmatic لیڈر ہیں۔ امریکہ کے ساتھ معاملات میں ان کی نظر ہمیشہ اپنے قومی مفادات پر رہتی ہے اور وہ کوئی ایسا کام نہیں کرتے جس میں ترکی کا کم از کم 50 فیصد فائدہ نہ ہو۔ دونوں کے درمیان Trust Deficit موجود ہے۔ امریکہ، ترکی پر سو فیصد اعتبار کرتا ہے نہ ترک قیادت امریکہ کو سو فیصد قابلِ اعتماد سمجھتی ہے۔ 
میڈیا کے حوالے سے مسٹر برہان نے دلچسپ بات کہی۔ 60 فیصد میڈیا ہمارے خلاف ہے، اس میں سے نصف تو ہمارا جانی دشمن ہے۔ یہ روزانہ ایک نیا جھوٹ گھڑتا اور نت نئی افواہیں پھیلاتا ہے (اس پر ہمارے ایک ساتھی نے کہا ، یہ تو ہمارے پاکستان والا معاملہ ہے۔) یہاں مسٹر برہان نے بی بی سی کے دو رپورٹروں کے مکالمے کا بھی ذکر کیا جو بغاوت کی ناکامی پر افسردہ تھے۔ ان میں سے ایک کہہ رہا تھا، باغیوں سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے اردوان کو قتل نہ کیا۔ انہوں نے یہ دلچسپ انکشاف بھی کیا کہ ترک آرمی چیف کو حراست میں لئے جانے سے قبل ان کے اسٹاف کا ایک سینئر ممبر کہہ رہا تھا: سر ! آپ ہم سے تعاون کریں۔ میں اپنے لیڈر (فتح اللہ گولن) سے فون پر آپ کی بات کروا سکتا ہوں۔ آپ چاہیں تو ترکی کے دوسرے کنعان ایورن بن سکتے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved