تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     31-07-2016

انسان اورظلم

دنیا کے مختلف حصوں میں بسنے والے مسلمان ایک عرصے سے ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ فلسطین ، برما اور کشمیر میں طویل عرصے سے ریاستی سطح پر ظلم اور تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔ اس ظلم و جور پر غور و فکر کرنے کی وجہ سے مجھے بعض معاشرتی اور نفسیاتی حقیقتوں کا تجزیہ کرنے کا موقع میسر آیا۔ اس تجزیے کو میں قارئین کی نذرکرنا چاہتا ہوں: 
انسان ایک عرصے سے زمین پر آباد ہے۔ انسان مذاہب، نظریات اور قومیتوں کے اعتبار سے مختلف گروہوں میں تقسیم ہے۔ اس وسیع تقسیم کے باوجود بہت سی باتوں پر انسانیت کا اتفاق ہے۔ مذہبی اور نظریاتی اختلاف کے باوجود انسان موت پر یقین رکھنے کے حوالے سے یکساں سوچ رکھتے ہیں۔ ہر انسان اس بات کو سمجھتا ہے کہ ہر ذی روح کو مرنا ہے۔ اسی طرح کھانے اور پینے کی ضروریات انسانوں کے درمیان مشترک ہیں اور کوئی بھی انسان زندگی کی بقاء کے حوالے سے ان کی افادیت اور اہمیت کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ جس طرح موت کی حقیقت، بھوک اور لباس کی ضرورت کے حوالے سے انسانوں کی سوچ مشترک ہے اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ظلم سے کراہت اور مذمت کے حوالے سے بھی صحت مند انسانوں کی سوچ مشترک ہے۔ تمام سلیم الطبع لوگ خواہ ان کا تعلق کسی بھی قوم یا مذہب سے ہو، وہ ظلم کو فطری اعتبار سے نا پسند کرتے ہیں اور ہر انسان ظلم کے مقابلے میں عدل و انصاف کا طبعی اور نفسیاتی اعتبار سے حامی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے طول و عرض میں بہت سے مقامات پر ظلم ہو رہا ہے اور بہت سے لوگ دیدہ دانستہ ظلم کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ انسان طبعی اور نفسیاتی طور پر ظلم کے خلاف کراہت رکھنے کے باوجود ظلم پر خاموش کیوں رہتا ہے؟ برما کا مسئلہ ہو یا بنگلہ دیش کا، فلسطین کا مسئلہ ہو یا کشمیر کا، انسانوں کی ایک بڑی تعداد یا تو ان مسائل سے لاتعلق ہے یا ظالموں کا ساتھ دے رہی ہے۔ ظلم پر انسانوں کی لاتعلقی کا جب ٹھنڈے دل سے تجزیہ کیا جاتا ہے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کم ازکم پانچ نفسیاتی اسباب ایسے ہیں جو انسان کو ظلم دیکھنے کے باوجود ظلم کا ہاتھ پکڑنے سے اور مظلوم کا ساتھ دینے سے روکتے ہیں۔ مطالعہ اور مشاہدہ کرنے کے بعد جن نفسیاتی اسباب کو میں نے ظالم کا معاون اور مظلوم کی حمایت کے راستے میں حائل پایا ان کو میں قارئین کی نذرکرنا چاہتا ہوں:
1۔ تعصب : انسان طبعی اعتبار سے ظلم کا مخالف ہونے کے باوجود کئی مرتبہ ظلم کی مخالفت پر اس لیے آمادہ نہیں ہوتا کہ اس کو مظلوم سے تعصب ہوتا ہے۔ تعصب انسان کی فطرت سلیمہ کو مسخ کر دیتا ہے اور انسان اپنے نظریاتی اور مذہبی مخالف پر ہونے والے ظلم پر طمانیت محسوس کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں جانوروں، درختوں اور مجسموں کے حقوق کی بات کرنے والی مغربی اقوام فلسطین، کشمیر اور برما میں رہنے والے لوگوں کے قتل عام پر اس لیے خاموش رہتی ہیں کہ وہ مذہبی اعتبار سے ان سے جداگانہ شناخت رکھتے ہیں۔ اگر سیاسی اعتبار سے ان کے ہم مذہب لوگوں کے حقوق تلف ہو رہے ہوں یا ان کو تلف ہوتے ہوئے محسوس ہو رہے ہوں تو وہ ان کی معاونت اور حمایت کے لیے فوراً سے پہلے کمر بستہ ہو جاتے ہیں۔ماضی قریب میں مشرقی تیمور اورسوڈان میں ہونے والی جغرافیائی تبدیلیوں کے پس منظر میں یہی تعصبات کار فرما تھے۔
2۔ غفلت: انسانوںکی بہت بڑی تعداد اپنے معاملات اور مصروفیات میں پوری طرح الجھی ہوئی ہے۔ اس الجھاؤ اور شمولیت کی وجہ سے کئی مرتبہ انسان اپنے گرد و پیش یا کچھ فاصلے پر ہونے والے ظلم کی شدت کو محسوس کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ غفلت کی وجہ سے انسان کئی مرتبہ ظلم و بربریت کی شدت اور سنگینی کوصحیح طریقے سے محسوس نہیں کرتا، جس حد تک ظلم کیا جا رہا ہوتا ہے۔ غفلت کی ایک بہت بڑی وجہ موثر ابلاغ کا نہ ہونا ہے۔کئی مرتبہ مجروح اور متاثرہ فریق کے احوال دوسروں تک صحیح طرح منتقل نہیں ہوتے۔ کشمیر کے حوالے سے اقوام عالم کی خاموشی جہاں تعصب کی وجہ سے ہے وہاں بہت سے مسلمان ممالک کی خاموشی کی وجہ ان کا معاملے کی سنگینی سے غافل ہونا بھی ہے۔ اگر غافل اقوام کو ظلم کی سنگینی سے آگاہ کر دیا جائے تو اس بات کے قوی امکانات پیدا ہو جاتے ہیں کہ وہ ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے یا ظلم کا تدارک کرنے کے لیے اپنا حصہ ڈالنے پر آمادہ ہو جائیں۔
3۔ بے حسی: تعصب اور غفلت کے ساتھ ساتھ ظلم سے لاتعلقی کی ایک بڑی وجہ بے حسی بھی ہے۔ کئی مرتبہ انسان ظلم کی سنگینی سے بھی آگاہ ہوتا ہے اور اس کا مظلوم سے تعصب بھی نہیں ہوتا لیکن خود غرضی اور مفاد پرستی کی وجہ سے اس میں بے حسی پیدا ہو جاتی ہے اور مظلوم اور متاثرہ فریق کی حمایت کرنے سے قبل اس بات پر غور و خوض کرتا ہے کہ میری اس کی حمایت کے نتیجے میں اس کے کسی مفاد میں نقصان پہنچنے کا اندیشہ تو نہیں۔ اگر انسان ذاتی اور گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر سوچنا شروع ہو جائیں تو یقیناً بے حسی کی کیفیت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ 
4۔ مصلحت: بہت سی اقوام مظلوم لوگوں سے تعصب بھی نہیں رکھتیں ‘ غافل بھی نہیں ہوتیں اور بے حسی کا شکار بھی نہیں ہوتیں، لیکن کسی بڑی مصلحت کی وجہ سے مظلوم کا ساتھ دینے یا اس کی حمایت کرنے سے وقتی طور پر احتراز کرتی ہیں۔ ذہین، فطین اور درد دل رکھنے والے لوگ اور اقوام مناسب موقع ملتے ہی مظلوم کی حمایت پر آمادہ اور تیار ہو جاتے ہیں اور مصلحت کو ترک کر کے مظلوم کی اخلاقی اور قانونی مدد کے راستوں کو تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ 
بے حسی اور مصلحت میں بنیادی فرق یہ ہے کہ بے حسی کا دورانیہ بہت طویل اور مصلحت کا دورانیہ اس کے مقابلے میں بہت مختصر ہوتا ہے۔ بے حسی انسان کو ظلم کے تدارک کے لیے اقدامات پر آمادہ نہیں کرتی جبکہ مصلحت کے تحت خاموشی اختیار کرنے والا گروہ مظلوم فریق کی حمایت کے لیے کبھی نہ کبھی کردار ادا کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ 
5۔ بزدلی: اقوام اور افراد کی ظلم پر خاموشی کی ایک بہت بڑی وجہ بزدلی بھی ہوتی ہے۔ ظالم کا جبر اور دباؤ بہت سے لوگوں کو حق گوئی اور مظلوم کی حـمایت کرنے سے باز رکھتا ہے۔ آج کی دنیا میں بہت سے علاقوں میں ہونے والے ظلم و بربریت پرکئی ممالک کی خاموشی کی وجہ بزدلی بھی ہے۔ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ریاست میں بسنے والے افراد بزدلی اور مفاہمت کے راستے کو اختیار نہیں کرنا چاہتے لیکن حکومت اور ریاست کو چلانے والے افراد مصلحت کی حدوں کو عبور کرتے ہوئے بزدلی کی حدود میں قدم رکھ لیتے ہیں۔ کشمیر میں ہونے والے حالیہ مظالم کے حوالے سے پاکستان نہ تو کشمیریوں کی حمایت سے اس لیے پیچھے ہے کہ وہ کشمیریوں سے تعصب رکھتا ہے، نہ ہی اس لیے پیچھے ہے کہ وہ ان پر ہونے والے ظلم سے غافل ہے؛ تاہم اس کی خاموشی کی ایک بہت بڑی وجہ ریاستی اور حکومتی دائروں میں پائے جانے والے بے حس اور بزدل عناصر ہیں۔ اگر حکومت پاکستان اور ملک کے سیاسی اور مذہبی رہنما قومی اور مذہبی تعلق کا پاس کرتے ہوئے بے حسی اور بزدلی کی چادر اتار پھینکیں تو کشمیر اور دنیا کے مختلف مقامات پر ہونے والے ظلم کا مداوا ہو سکتا ہے اور دنیا میں مختلف مقامات پر ہونے والے مظالم کا سدباب ہو سکتا ہے۔ انسانیت کو ظلم سے نجات دلوانے کے لیے انسانوںکو عدل وانصاف، خبرگیری اور بہادری کے راستے کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ان سنہری اصولوں اور راستوں کو اختیار کرکے انسان مظلوم افراد اور اقوام کی کھلے دل سے حمایت کر سکتا ہے۔ ان اوصاف کی عدم موجودگی میں کوئی بھی انسان کسی بھی مظلوم کی حمایت میں کبھی کوئی کلیدی اور فیصلہ کن کردار ادا نہیںکر سکتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved