ٹکٹوں کی تقسیم
یادش بخیر‘ ہمارے دیرینہ کرم فرما چوہدری شجاعت حسین کا کہنا ہے کہ وہ آئندہ الیکشن میں صرف نوجوانوں کو ٹکٹ دیں گے۔ یہ بھی عمران خان کے ٹھوٹھے پر ڈانگ مارنے والی بات ہے کیونکہ اس سے پی ٹی آئی کے ووٹ بھی تقسیم ہو جائیں گے۔ حق تو یہ ہے کہ چوہدری صاحب اس عظیم اکثریت کی طرف راغب ہوں جو ان کی ہم عمر ہے اور ان کی بات سمجھ بھی سکتی ہے بلکہ نوجوانوں کو ٹکٹ دینے کا اصل حق بلاول بھٹو زرداری کا ہے کہ خود نوجوان ہیں اور انہی کو زیب بھی دیتا ہے کہ وہ اپنے اردگرد نوجوانوں کو اکٹھا کر سکیں جبکہ عمران خاں کو چاہیے کہ بیوہ، طلاق یافتہ خواتین و حضرات کو اپنا ووٹر بنائیں اور تیسری شادی کو جہاں تک ہو سکے مؤخر کر دیں کیونکہ پہلے بھی انہیں اس حرکت پر نقصان اٹھانا پڑا تھا جبکہ کنواروں کے سارے ووٹ شیخ رشید سمیٹ سکتے ہیں اور اگر یہ سارا کچھ ہو جائے تو ن لیگ 'ویہلی‘ ہے اور کسی اور کام کی طرف توجہ دے ۔ ہیں جی؟
بارہ ارب روزانہ
پی ٹی آئی کے چوہدری محمد سرور نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت بارہ ارب روزانہ کی کرپشن کا حساب دے حالانکہ یہ حساب ان لوگوں سے مانگنا چاہیے جو یہ کام کرتے ہیں کیونکہ میاں صاحبان تو بار بار اعلان کر چکے ہیں کہ ایک دھیلے کی بھی کرپشن کوئی ثابت کر کے دکھا دے۔ اور پوری قوم کے ساتھ وہ بھی حیران ہیں کہ اتنی ساری یہ کرپشن ہر روز کون کر جاتا ہے اور انہیں خبر تک نہیں ہوتی۔ ہماری ناقص رائے میں‘ جو ہمیشہ ناقص ہوتی ہے‘ ایک کمشن مقرر
کیا جانا چاہیے جو مقررہ مدت تک اس کا کھوج لگانے کی کوشش کرے کہ آخر کون سلیمانی ٹوپی پہن کر یہ کام کر جاتا ہے اور کسی کو نظر تک نہیں آتا جبکہ اس سلسلے میں اپوزیشن کے ساتھ حکومت کو تعاون کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں سب سے پہلے حکومت اور اپوزیشن مل کر اور اتفاق رائے سے اس کمیشن میں پیش کرنے کے لیے ٹی او آرز طے کریں، جس ضمن میں ان کا ریکارڈ پہلے ہی قابل رشک چلا آ رہا ہے‘ کیونکہ یہ زعماء اگر ایک بار کوئی ارادہ کر لیں تو کامیابی یقینی ہو جاتی ہے۔
تا قیامت حمایت
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کا اعلان ہے کہ جب تک کشمیریوں کو آزادی نہیں ملی جاتی‘ حکومت ان کی حمایت جاری رکھے گی۔ جیسا کہ قرائن سے ظاہر ہے اہل کشمیر قیامت کے بعد ہی آزاد ہو سکیں گے؛ چنانچہ حکومت بھی اس وقت تک اپنی حمایت پورے شدو مد سے جاری رکھے گی کیونکہ قیامت تک تو ن لیگ کی حکومت رہنی ہی ہے۔ اس لیے کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلے گی تو حکومت کو خطرہ کہاں سے لاحق ہو گا۔ صاحب موصوف نے یہ بھی کہا ہے کہ آزادیٔ کشمیر کو قریب تر لانے کے جرم میں نواز شریف کو ہتھکڑیاں لگائی گئیں اور ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی نہیں چاہتا کہ ہمارے محبوب وزیر اعظم کو ہتھکڑیاں لگی ہوں۔ ہاں اگر حالیہ مقدمات اور ریفرنسز کے سلسلے میں اس طرح کی گستاخی کا ارتکاب ہو جائے تو وہ الگ بات ہے ورنہ آج کل کے خالی خولی بیانات سے یہ نوبت ہرگز نہیں آ سکتی اور مودی صاحب کو بھی سمجھا دیا گیا ہے کہ یہ سب کچھ عوامی کھپت کے لیے ہے اور اسے زیادہ سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں۔
کرائے کے گھر میں منتقل
اطلاعات کے مطابق برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون مستعفی ہونے کے بعد کرائے کے گھر میں منتقل ہو گئے ہیں۔ انہیں مستعفی ہو ہی جانا چاہیے تھا کیونکہ اس قدر نااہل شخص ایسے اہم ملک کا وزیر اعظم کب تک رہ سکتا ہے جو اپنے اقتدار کے دوران ذاتی گھر بھی نہ بنا سکے۔ اگر ہمارے وزیر اعظم نے برطانیہ میں گھر بنا رکھے ہیں تو برطانوی وزیر اعظم کو کم از پاکستان میں ہی کوئی چھوٹا موٹا مکان کھڑا کر لینا چاہیے تھا۔ حیف ہے ان لوگوں پر جو اپنے بچوں کے مستقبل کو بھی آسودہ نہیں بنا سکتے۔ انہیں عزیزی حسین نواز سے ہی کوئی سبق حاصل کر لینا چاہیے تھا جنہوں نے عین عہدِ طفلی میں اربوں کی جائیداد قائم کر کے دکھا دی اور لگتا ہے کہ موصوف کی انہیں نااہلیوں کی وجہ سے برطانیہ کو یورپی یونین سے بھی علیحدہ ہوناپڑا ع
اے کمال افسوس ہے تجھ پر کمال افسوس ہے
خوراک کا بحران
اخباری اطلاع کے مطابق وینزویلامیں خوراک کا زبردست بحران پیدا ہو گیا ہے جس کے نتیجے میں شیر اور چیتے آم اور کدّو کھانے پرمجبور ہیں جبکہ وینزویلا کے چڑیا گھروں میں موجود لگ بھگ 50 جانور گزشتہ چھ ماہ کے عرصے میں خوراک کی کمی کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں اور شیر اور چیتے بھی گوشت کی بجائے آم اور کدّو کھانے پر مجبور ہیں۔ تشویش انگیز ہونے کی بجائے یہ تو ایک اچھی خبر ہے کہ شیر اور چیتے جیسے خوفناک درندے ویجیٹیرین ہو جائیں اور چڑیا گھر کے جنگلوں میں ڈھکے ہونے کے بجائے کھلے پھرا کریں تاکہ تماشائی لطف اندوز ہونے کے لیے ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بھی کر سکیں، بلکہ خرمستی دکھانے پر انہیں تھپڑ وغیرہ بھی رسید کر سکیں۔ ادھر پاکستان میں بھی حالات کچھ اس سے زیادہ مختلف نہیں ہیں اور چیف جسٹس صاحب کے بقول ملک میں عمدہ خوراک اور پینے کا پانی تک اس قدر نایاب ہے کہ اگلے چند برسوں میں ہر شخص ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہو جائے گا۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ یہاں تو لوگوں کو آم چھوڑ کدّو بھی میسر نہیں ہیں۔
عام کیا جائے؟
چیئرمین سینیٹ نے اگلے روز مطالبہ کیا ہے کہ سی پیک منصوبہ گیم چینجر ہے تو اس کو پبلک کیا جائے اور اسے چھوٹے صوبوں سے چھپا کر کیوں رکھا گیا ہے، جس کے جواب میں متعلقہ وفاقی وزیر چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ یہ منصوبہ صرف چیئرمین کو پیش کیا جا سکتا ہے جبکہ سینیٹ ارکان اسے دیکھ بھی سکتے ہیں۔ حقائق تو یہ ہیں کہ کے پی کے والوں نے اس کے خلاف باقاعدہ محاذ قائم کر لیا ہے جبکہ بلوچستان حکومت کے بھی بالخصوص گوادر پورٹ کے حقوق کے حوالے سے شدید تحفظات اور مطالبات ہیں جبکہ حکومت یہ بھی نہیں بتاتی کہ اسے اس قدر پراسرار کیوں بنا کر رکھ دیا گیا ہے اور اگر حکومت کی نیت صاف ہے اور وہ چھوٹے صوبوں کی حق تلفی نہیں کرنا چاہتی تو اسے ساری دنیا سے چھپا کر کیوں رکھا جا رہا ہے جبکہ بھارت ہر قیمت پر اس کی مخالفت پر تُلا ہُوا ہے جبکہ ملک پر حکومت بڑے صوبے پنجاب کی ہے اور اس پر چھوٹے صوبوں کو نظر انداز کرنے کے الزامات ہمیشہ سے ہی لگتے رہے ہیں۔
آج کا مقطع
ظفر، مرے خواب وقتِ آخر بھی تازہ دم تھے
یہ لگ رہا تھا کہ میں جوانی میں جا رہا تھا