تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     01-08-2016

آدمی اپنا جج خود نہیں ہوتا

اصول اللہ کی آخری کتاب میں بیان کیا گیا ہے۔ ولکم فی القصاصِ حیاۃ یا اولی الالباب۔ زندگی قصاص میں ہے، انتقام میں نہیں۔ اور آدمی اپنا جج خود نہیں ہوتا۔
ترکیہ کی حکمران پارٹی کا ایک لیڈر لاہور پہنچا۔ تھنک ٹینک ''پلڈاٹ‘‘ کے اہتمام سے اس نے اخبار نویسوں اور بعض دوسری ممتاز شخصیات کے سامنے، اپنا مؤقف پیش کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صدر طیب اردوان سے جو اور جتنا حسنِ ظن موجود تھا، اس میں بھی چھید ہو گئے۔
سب جانتے ہیں کہ فتح اللہ گولن اور طیب اردوان حلیف تھے۔ اختلاف کی ابتدا پہلے اس وقت ہوئی، جب چار عدد وزراء کے فرزندان ارجمند گرفتار ہوئے۔ پولیس نے جو عالم اسلام میں شایدبہترین ہے، تفتیش کی۔ مقدمہ چلا اور سزا سنا دی گئی۔ صدر ذی وقار کی ایک وڈیو ٹیپ منظرِ عام پر آئی، جس میں اپنے صاحبزادے سے وہ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں، اگر یہ سب کچھ تمہیں کرنا ہے تو آمدن چھپانے کا بندوبست بھی کرو۔حکمران پارٹی کا کہنا تھا کہ یہ ٹیپ ٹکڑے جوڑ کر بنائی گئی۔ جیسا کہ پنجاب کے ایک صوبائی وزیر کا مؤقف ہے۔
اہلِ پاکستان طیب اردوان سے ہمدردی رکھتے ہیں، مگر فتح اللہ گولن سے بھی۔ آرزو ان کی یہ ہے کہ پاکستان کے بہترین دوست کو تتّی ہوا بھی نہ لگے۔گولن کے حامیوں نے پاکستان میں بیس عدد سکول قائم کر رکھے ہیں، پاکستان میں ترکیہ کے سفیر نے اعلانیہ طور پر جنہیں بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ دس ہزار طالب علم ان میں تعلیم پا رہے ہیں۔ پندرہ سو پاکستانی اساتذہ ان سے وابستہ ہیں۔ اتوار کے اخبارات میں ان میں سے ایک سکول کا اشتہار چھپا ہے۔ اوّل اوّل ان اداروں کے پاکستانی وابستگان خوف زدہ تھے۔ ان میں سے ایک سے رابطے کی خواہش ظاہر کی تو کچھ دیر میں پیغام ملا کہ اس کا نام نہ آنے پائے۔ خوف کی لہر استنبول سے اسلام آباد، لاہور، کراچی، خیر پور اور کراچی تک آ پہنچی ہے۔
ناکام بغاوت کے بعد ترکیہ میں انتقامی اقدامات سے متاثر ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہو چکی۔ افواج ہی نہیں، میڈیا، پولیس، عدالتوں اور تعلیمی اداروں میں بھی اکھاڑ پچھاڑ جاری ہے۔ طیب اردوان کے کارنامے بہت ہیں۔ یورپ کے مرد بیمار نے اگرچہ ان سے پہلے ہی سنبھلنے کی ابتدا کر دی تھی، مگر میچ انہوں نے جیتا۔ 
پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹو سے وہ زیادہ مقبول ہیں۔ معاشی ترقی اور نظریاتی میدان میں ان کا کردار بھی زیادہ ہے۔ ان کے طرزِ عمل سے، ایسا لگتا ہے کہ بین الاقوامی سیاست کے سب تیوروں سے باخبر، بے پناہ متحرک اور جوش و ولولے سے بھرے بھٹو سے منتقم مزاج بھی زیادہ ہیں۔ لگ بھگ ایک ہزار جن کے پانچ سالہ اقتدار میں جان سے گزر گئے تھے۔ 1977ء کی انتخابی دھاندلی کے بعد بھٹو کے خلاف احتجاجی تحریک کا آغاز ہوا تو 329افراد قتل کر دیئے گئے۔ صرف کالونی ٹیکسٹائل ملز میں 200 احتجاجی مزدور، جس پر بھٹو کے ''جانشین‘‘معراج محمد خان احتجاجاً مستعفی ہو گئے تھے۔ جولائی 1977ء میں مارشل لا نافذ ہوا تو مخالف سیاسی تحریکوں کے پچاس ہزار کارکن جیلوں میں پڑے تھے۔
پاکستان میں بھٹو کے حامی آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے مقبول مگر متلوّن مزاج ہیرو کے خلاف، امریکہ کے ایما پر ہنگامہ برپا ہوا تھا۔ اگرچہ دونوں رہنمائوں کے نظریات میں بعد المشرقین ہے۔ بھٹو سوشلزم کا راگ الاپتے تھے۔ اسلامی سوشلزم کا چولا پہننے کے بعد آخر آخر جو ''مساوات محمدی‘‘ ہو گیا تھا۔ اردوان اسلام کی بات کرتے ہیں اور ترکیہ کے اجتماعی لاشعور کے نمائندہ ہیں۔ بھٹو سے وہ بہت بڑھ کر ہیں؛ اگرچہ بھارت کو بھٹو للکارتے رہے، ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا اور امریکہ کو ٹھکانے پر رکھا۔ نرگسیت کے مگر مارے ہوئے تھے۔ مائوزے تنگ اور کم ال سنگ ایسے لیڈروں سے متاثر تھے۔ اپنے وزراء کو، چین کی طرح وردی تک انہوں نے پہنا دی تھی ۔آخر اپنی ذات کے بھنور میں ڈوب گئے۔ 
افتادگان خاک کو بھٹو نے آواز بخشی تھی۔ سیاست میں عام آدمی کا کردار بڑھ گیا۔ آج بھی مگر یہ پیپلزپارٹی ہی میں ممکن ہے کہ سعید غنی ایسا آدمی سینیٹر ہو جاتا ہے، جس کا اعزاز یہ ہے کہ وہ ایک ٹریڈ یونین لیڈر کا فرزند ہے۔بھٹو کا بس نہ چلتا تھا کہ خود اپنے آپ کو سجدہ کریں۔ یہی آدمی کی سب سے بڑی کمزوری ہوا کرتی ہے، غلبے کی ہولناک جبلت جو چنگیز خان، امیر تیمور،ہٹلر،مسولینی اور مائوزے تنگ ایسے کردار جنم لیتی ہے۔ یوں ہر گلی میں ایک حجاج بن یوسف پایا جاتا ہے۔ زندگی مگر اسے مواقع فراہم نہیں کرتی۔ 
طیب اردوان اور ان کے حامی یہ کہتے ہیں کہ فتح اللہ گولن فوجی بغاوت کے ذمہ دار ہیں۔ مگر کچھ سوالات ہیں، جن کا جواب نہیں ملتا۔ امریکہ میں مقیم گولن نے اسی شام بغاوت کی مذمت کی۔ اگر حکومت کے چند ہزار حامی گلیوں میں شور شرابا کر کے بغاوت کی ناکامی میں مددگار ہو سکتے ہیں تو مذمت کی بجائے، گولن نے اپنے حامیوں کو میدان میں کیوں نہ اتارا؟ الزام ہے کہ امریکہ ان کا پشت پناہ ہے۔ اگر وہ ایسا کرتے تو امریکہ اور مغرب کس قدر شاد ہوتا؟ ان کی کتابیں ان کی سب تحریریں، ان کے تمام لیکچر، ان کی مختلف تنظیموں کے تیور تو کچھ اور کہتے ہیں۔ اگر تشدّد کا راستہ انہیں اختیار کرنا ہوتا تو کیا 75 سال کی عمر میں کرتے۔اس وقت کیوں نہیں جب وہ فوج کے عتاب کا شکار تھے؟ تنظیم سازی کا مرحلہ تو بہت پہلے وہ طے کر چکے تھے۔ فوج، پولیس، میڈیا اور عدالتوں میں ان کا رسوخ بہت پہلے پھیل چکا تھا۔
ترکیہ حکومت کے برعکس جس پر داعش کی امداد کا الزام ہے، گولن نے ہمیشہ اس کی مذمت اور مخالفت کی۔ القاعدہ اور طالبان کی بھی۔ ان کی شخصیت اور فکر میں کتنے ہی خلا ہوں، یہ بات کسی طرح سمجھ میں نہیں آتی کہ عمر بھر تعلیم اور تبلیغ کا راستہ اختیار کرنے والا مفکر، ایک شب اچانک دہشت گرد کیسے بن گیا۔ استعمار کا کارندہ کیسے بن گیا!
بغاوت سے آٹھ ہفتے قبل 7اپریل 2016ء کو، واشنگٹن ٹائمز نے کمال مسرت سے اطلاع دی تھی کہ ترکیہ میں بغاوت کا امکان ہے۔ سعودی عرب سے بے وفائی، تمام تراعتدال کے باوجود مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت ختم ، شام، لیبیا اور مراکش میں بغاوت کی آگ بھڑکا کر ہولناک عدم استحکام پید ا کرنے والے امریکہ کو ترکیہ کا قرار یقینا ناپسند ہو گا۔ انتشار پھیلانے میں اس کا ہاتھ ہوسکتا ہے، جس طرح پاکستان میں1977ء کی احتجاجی تحریک کے آخری مرحلے پر، ایک پارٹی کی اس نے مدد کی تھی۔ شہنشاہ ایران آریا مہر رضا شاہ پہلوی سے اس پارٹی کے سربراہ کی ملاقات کا بندوبست کیا تھا۔ تب ایک عشرے کے بعد تھری پیس سوٹ انہوں نے زیب تن کیا تھا اور ریشمی نکٹائی باندھی تھی۔ ملاقات کی اگلی صبح راولپنڈی میں، یہ ناچیز ان سے ملا سرخوشی کے عالم میں انہوں نے اطلاع دی کہ سفارتی آداب کو پس پشت ڈال کر پاکستانی سفیر کو اس ملاقات سے دور رکھا گیا تھا۔
امریکہ کیا، بھارت، افغانستان، ایران اور عرب ممالک بھی پاکستان کے بعض سیاسی لیڈروں کی سرپرستی فرماتے ہیں۔ ساری دنیا میں یہی ہوتا ہے۔ تمام کمزور قوموں کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔ اس مداخلت کا اخلاقی جواز کوئی نہیں، مگر سیاست ، بالخصوص عالمی سیاست میں اخلاقیات کا کیا عمل دخل؟کسی بھی ملک میں خارجی مداخلت کی حمایت کی جا سکتی ہے اور نہ فوجی بغاوت کی، اب یہ آشکار ہونے لگا ہے کہ ترکیہ میں بغاوت کے اسباب اصلاً داخلی ہیں۔ یہ بھی کہ جناب اردوان کا روّیہ انتقامی ہے۔ جن لوگوں نے اردوان پر ''سلطان‘‘ کی پھبتی کسی تھی، وہ ایسے بھی غلط نہ تھے۔
ترکیہ میں جاری کشمکش کے انجام کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔ انتقام تو ذاتی زندگی تک کو بے ثمر کر دیتا ہے۔ اجتماعی حیات میں بربادی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اصول اللہ کی آخری کتاب میں بیان کیا گیا ہے۔ ولکم فی القصاصِ حیاۃ یا اولی الالباب۔ زندگی قصاص میں ہے، انتقام میں نہیں...اور آدمی اپنا جج خود نہیں ہوتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved