تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     01-08-2016

وزیر اعظم کا باتھ روم اور فاٹا بجٹ

ہم 1947ء میں جبکہ عوامی جمہوریہ چین 1949ء میں آزاد ہوا۔ اس حساب سے آزادی میں چین ہم سے تقریباً دو سال ڈیڑھ مہینے جونیئر ہے۔ کوریا بھی آزادی میں ہم سے جونیئر ہے۔ اس تفصیل کا ذکر پھر سہی، فی الحال چین کی سنئے۔ ہمارے بعد آزاد ہونے والے چین کی سرکاری ایئرلائن ''جیٹ لائنر‘‘ نے چین میں تیارکئے گئے کمرشل جیٹ ہوائی جہاز کی پہلی پرواز مکمل کر لی۔ میڈ اِن چائنا طیارے میں فلائٹ کے کچھ ماہرین سوار تھے‘ جبکہ آدھے سے زیادہ مسافروں نے اس طیارے کے ٹکٹ بھی خریدے۔ 70 مسافر طیارے پر سوار تھے۔ سب کو معلوم تھا یہ اس طیارے کی پہلی کمرشل پرواز ہے۔ ایوی ایشن کے ماہرین نے چینی ساختہ اے آر جے21- طیارے کو بوئنگ اور ایئر بس جیسے عالمی برانڈز کا متبادل قرار دیا ہے۔ ARJ-21 بظاہر عجیب سا نام لگتا ہے‘ مگر درحقیقت یہ مستقبل کا نام ہے: یعنی ایڈوانس ریجنل جیٹ برائے 21ویں صدی (Advance regional jet for the 21st centuery)
تازہ بجٹ کے بعد وزارتِ سمدھی امور نے پاکستان کے طیاروں کے سیکنڈ ہینڈ سپیئر پارٹس سستے کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ اس طرح ثابت ہو گیا کہ ''ایشین ٹائیگر‘‘ ہم ہیں کوئی اور نہیں۔ جن لوگوں نے جنگل میں جا کر ٹائیگر کی کچھار دیکھ رکھی ہے‘ وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ شیر کے اڈے پر ٹوٹے ہوئے دانت، کچلی ہوئی ہڈیاں، ادھڑی ہوئی کھال اور گوشت کے لوتھڑوں جیسے سیکنڈ ہینڈ سپیئر پارٹس ہی دستیاب ہوتے ہیں۔ اس لئے شیر کے آستانے اور پاکستانی حکمرانوں کے تجارتی ٹھکانے بالکل ایک جیسے ہیں۔ جس کو یقین نہ آئے وہ سریا نکالنے کے لئے بندرگاہ پر جا کر توڑے جانے والے سیکنڈ ہینڈ جہازوں کا قبرستان دیکھ لے۔ ایسے ہی سیکنڈ ہینڈ سکریپ سے بھرپور ''جوناتھن‘‘ بحری جہاز اس کا صرف ہلکا پھلکا ٹریلر تھا۔ پس ثابت ہوا ایشیا میں ایک ہی ٹائیگر ہے‘ اور وہ ہے ہماری جمہوریت بقلم خود۔ یہ ''بقلم خود‘‘ کسی بابا کوڈے نے دریافت کیا ہے‘ جس کا 18 انچ والا پائنچہ حال ہی میں سپر ہٹ ہوا۔ 
کچھ لوگ ہمارے بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کی طرح ''مینوفیکچرنگ ڈیفیکٹ‘‘ لے کر دنیا میں آتے ہیں۔ اس پیدائشی نقص کی وجہ سے انہیں حکومت سے زیادہ اپوزیشن کرنے میں مزہ آتا ہے۔ ہر جگہ اختلافی نوٹ، بات بات پر اعتراض۔ اس طبقے کی تسلی کے لئے ہمارے ایشین ٹائیگر ہونے کا ایک اور خالص ایشین ثبوت بھی پیش خدمت ہے۔ ایشیا میں آج بھی مسلم ملکوں پر ظلِ الٰہی، صاحب ہوشیار اورنگاہ روبرو والے خاندان حکمران ہیں۔ اسی وجہ سے یورپ، امریکہ،کینیڈا اور آسٹریلیا جیسے ملکوں کو ہم نے ٹائیگر کی دوڑ سے باہر دھکیل دیا۔ جمہوریت کی ماں برطانیہ کی ہی مثال لے لیں‘ جہاں پی ایم ہاؤس یعنی پورے کا پورا 10 ڈاؤننگ سٹریٹ ہمارے شاہی حمام سے بھی چھوٹا ہے۔ اس شاہی حمام عرف پی ایم ہاؤس کے باتھ روم کے لئے تازہ تازہ مختص کیا گیا بجٹ ہمارے ایشین ٹائیگر ہونے کا اصلی تے سب سے وڈا ثبوت ہے۔ 
شاہی حمام کے تازہ بجٹ کو سمجھنے کے لئے شمالی علاقہ جات المعروف فاٹا کا تازہ بجٹ‘ جو ابھی چند ہفتے پہلے تجویز ہوا‘ دیکھنے کے قابل ہے۔ سال 2016-17ء کے لئے فاٹا کا میزانیہ کے پی کے والے گورنر انجینئر جھگڑا صاحب نے منظور کیا۔ آئین کا آرٹیکل 247 کہتا ہے کہ فاٹا پر آئین پاکستان کے تحت صدرِ مملکت کی عمل داری ہو گی۔ فاٹا کا کل رقبہ 27,220 کلومیٹر ہے اور کل آبادی 4.453 لاکھ۔ اس اعتبار سے پی ایم ہاؤس کی آبادی اور فاٹا کے سارے عوام میں بجٹ کا تناسب اندازاً ایک سو کلومیٹر برابر ہے ایک انچ والا بنتا ہے۔ یہ بہترین حکمرانی کا بہترین نمونہ ہے۔ جسے یقین نہ آئے وہ وزیر اعظم کی ''لانگری‘‘ بٹالین سے پوچھ لے۔ ان کے کلومیٹروں تک پھیلے ہوئے پیٹ وسائل کی منصفانہ تقسیم کا ''ہلتا جلتا‘‘ ثبوت ہیں۔ آپ پوچھیں گے‘ میں نے چلتا پھرتا کیوں نہیں کہا۔ انہیں چلنے پھرنے کی کیا ضرورت ہے۔ سرکاری خرچ پر جہاز، سرکاری پٹرول پر گاڑیاں چھِن جانے کے بعد ان لانگریوں کو ''چلتا پھرتا‘‘ کہا جا سکے گا۔
فاٹا ہمارا وہ سرحدی علاقہ ہے جو آئین کے آرٹیکل نمبر1 کے مطابق علیحدہ یونٹ ہے۔ اس کے باوجود فاٹا کے عوامی مسائل کے حوالے سے کبھی سپریم کورٹ آف پاکستان نے مؤثر سووموٹو نوٹس نہیں لیا۔ اکثر سووموٹو نوٹس لاہور، کراچی اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں کے مسائل پر ہی سامنے آئے۔ گزشتہ دورِ حکومت میں اگرچہ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ فاٹا میں نافذ ہو گیاتھا‘ لیکن فاٹا کو ابھی تک بلدیاتی ادارے ہی نہیں مل سکے‘ حالانکہ ملک بھر میں بلدیاتی اداروں کا قیام وفاق کی دستوری ذمہ داری ہے۔ فاٹا میں اسلحہ سازی کی صنعت کو ریگولرائز کرکے روزگار کے مزید مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ آغازِ حقوقِ بلوچستان کی طرز پر فاٹا کو خصوصی پیکیج ملے۔ فاٹا کے طلبہ و طالبات کو ترجیحی بنیاد پر نوکریاں دی جائیں۔
اعلیٰ ملازمتوں میں فاٹا سے دستوری بدسلوکی کی ایک محض مثال ہی موجودہ نظام کی ذہنیت آشکار کرنے کے لئے کافی ہو گی۔ میں نے وفاقی وزیر قانون و انصاف کی حیثیت سے بھرپور پارلیمانی لابنگ اور مذاکرات کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ ایکٹ 2010ء منظور کرایا۔ اس قانون کے تحت اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اور ججز حضرات کی تعیناتی ہوئی۔ اس پہلی تعیناتی کے وقت‘ میں ججز تعیناتی کے جوڈیشل کمیشن کا ممبر بھی تھا۔ اس ایکٹ میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ وفاق سمیت چاروں صوبوں سے وفاقی دارالحکومت کے اس ہائی کورٹ میں ایک ایک جج لگایا جائے گا‘ جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا ایک جج فاٹا سے بھی لگے گا۔ ابتدا میں فاٹا سے جسٹس آفریدی کو لایا گیا۔ جسٹس آفریدی کے بقول سابق سیاسی چیف جسٹس اور اس کے حواریوں نے فاٹا کے خلاف منظم سازش کی۔ سازشیوں کا دور ختم ہوئے بھی اب کئی سال بیت چکے‘ لیکن اب بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں فاٹا سے کوئی جج تعینات نہیں ہوا۔ فاٹا کے ساتھ اس معاملے میں بالکل ویسا ہی امتیازی سلوک ہو رہا ہے‘ جیسا سپریم کورٹ میں خواتین ججوں کی تعیناتی نہ کرنے کے بارے میں امتیازی سلوک جاری ہے۔
ہاں البتہ جمعہ کے دن آزادیء اظہار رائے پر جمہوریت نے امتیازی سلوک کے خاتمے کا متفقہ اعلان کر دیا‘ الیکٹرانک کرائم بل منظور کرکے۔ اگرچہ یہ سعادت مجھے حاصل نہ ہوئی۔ نئے قانون کے تحت منتخب جمہوریت کی شان میں گستاخی بذریعہ کارٹون، تحریر، ویڈیو وغیرہ قابل دست اندازیء پولیس جرم بن گیا۔ لہٰذا ایسی تحریر یا علامت (Visual) پاکستان دشمنی اور جمہور دشمن تصور ہو گی‘ جسے لانگری بٹالین، طعنہ، تنقید، لعنت یا تبرّا قرار دے۔
ان حالات میں آئیے وزیر اعظم کے باتھ روم کا بجٹ دوگنا کرنے کا مطالبہ کریں۔ متفقہ مطالبہ۔ مل جل کر جمہوریت بچانے کا یہی بہترین طریقہ ہے۔
آپ جو کچھ بھی کہیں رات ابھی باقی ہے
دن کے بے روک اجالوں میں کمی باقی ہے
ڈس رہا ہے گل و لالہ کو خزاں کا موسم
طائروں میں ابھی بے بال و پری باقی ہے
قوم کے ساتھ ضروری ہے کوئی کھیل کرو
کہ یہاں رسم و رہِ شیشہ گری باقی ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved