تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     01-08-2016

کچھ تذکرے الگ نوعیت کے…3

یہ کوئی بہت بڑی لائبریری نہیں تھی تا ہم قصبے کے حجم اور آبادی کے لحاظ سے اچھی خاصی تھی۔ انگریزی کے علاوہ اردو ہندی اور عربی زبان کی کتابیں بھی موجود تھیں۔ ایک طرف قطار میں کمپیوٹر رکھے تھے۔ کچھ پر لوگ کام کر رہے تھے اور کچھ کے سامنے کرسیاں خالی تھیں۔ کائونٹر پر بیٹھی ہوئی خاتون سے کہا کہ میں غیر ملکی ہوں اور کتابیں ایشو کرانا چاہتا ہوں اُس نے کہا آپ ممبر بن سکتے ہیں۔ صرف پاسپورٹ دکھانا ہو گا۔ پاسپورٹ پاس نہیں تھا۔ شکریہ کہہ کر پلٹنے کو تھا کہ خاتون نے پوچھا۔ ''کیا آپ کے پاس کوئی ایسا کاغذ، کوئی دستاویز ہے جس سے شناخت ہو سکے؟‘‘ بٹوے میں پڑے کاغذ الٹ پلٹ کر دیکھے تو اسلام آباد کلب کا ممبرشپ کارڈ پڑا تھا۔ دکھایا۔ پانچ منٹ سے کم وقت میں لائبریری کی ممبر شپ مل گئی۔ ساتھ ہی کمپیوٹر پرانٹرنیٹ استعمال کرنے کا پاس ورڈ دیا گیا۔ ایک نشست میں ایک گھنٹہ تک انٹرنیٹ استعمال کیا جا سکتا تھا۔ ایک وقت میں تیس کتابیں گھر لے جائی جا سکتی تھیں۔ امریکہ اور آسٹریلیا کے قصبوں اور شہروں میں بھی رہنے کا موقع ملا۔ یہ عجیب بات ہے کہ ہر جگہ لائبریری اتنے فاصلے پر تھی کہ پیدل چل کر پہنچا جا سکے۔ پندرہ منٹ یا زیادہ سے زیادہ اٹھارہ بیس منٹ! اس کا مطلب ہے کہ لائبریریوں کا جال اس طرح پھیلایا گیا ہے کہ شہر یا قصبے کے ہر محلے کی دسترس میں ایک لائبریری ضرور ہو!
اسی کے عشرے تک ''پاکستان برائے قومی یک جہتی‘‘ کے نام سے ہر بڑے شہر میں لائبریری موجود تھی۔ یہ ادارہ مرکزی وزارتِ اطلاعات کا حصہ تھا۔ دارالحکومت میں یہ لائبریری سوک سنٹر (میلوڈی مارکیٹ) کے مرکزی مقام پر واقع تھی۔ راولپنڈی میں الگ لائبریری تھی۔ پھر نہ جانے کیا ہوا، وہ لائبریریاں غائب ہو گئیں۔ کچھ معلوم نہیں لاکھوں کتابیں کیا ہوئیں۔
اب لائبریریوں کے حوالے سے ملک ایک ماتم سرائے بن چکا ہے۔ لائبریری ہمارے کسی شہری، میونسپل یا ترقیاتی ادارے کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ پچاس کے عشرے میں تشکیل دیا جانے والا دارالحکومت کا ترقیاتی ادارہ عمرِ عزیز کے ساٹھ یا اس سے زیادہ، مکمل کر چکا ہے۔ اس سارے عرصہ میں ایک مرکزی لائبریری نہ بن سکی۔ اس لیے کہ کیا پالیسی ساز اور کیا پالیسیوں کو نافذ کرنے والے، کسی کے لیے اس قسم کی سرگرمی ضروری نہیں۔ جسے نیشنل لائبریری کہا جاتا ہے وہ وزیر اعظم کے ایوان کی بغل میں رہی جہاں پرندہ پر نہیں مار سکتا۔ افواہ ہے کہ کہیں اور منتقل ہوئی یا کی جا رہی ہے۔ کسی کو نہیں معلوم کے کہاں ہے یہ کہاں ہو گی! ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دارالحکومت کے ہر حصے میں ایک پبلک لائبریری ہوتی۔
فوڈ سٹریٹ ایک کے بعد دوسری بنی اور بنتی جا رہی ہیں۔ ہر سٹریٹ میں، ہر بازار میں، ہر مارکیٹ میں بریانی، پلائو اور کباب کی دکانوں کے قسم قسم کے نام نظر پڑتے ہیں۔ بعض نام تو مضحکہ خیز ہیں۔ ان میں لوگ، صدقِ دل سے، شکم کے تنور بھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ منیر نیازی نے کیا خوب کہا تھا ؎
بندے نئیں سن، جانور سَن
روٹیاں کھائی جاندے سَن
تے رَولا پائی جاندے سَن
امریکی اور برطانوی(برٹش کونسل) لائبریریاں اسلامی حمیت پر بوجھ تھیں۔ وہ ہم نے جلانا شروع کر دیں یہاں تک کے سمیٹ لی گئیں۔ہاں امریکی فاسٹ فوڈ کی دکانوں کی بھرمار ہے۔ لائبریریوں کا تعلق دماغ سے تھا۔ فاسٹ فوڈ کی دکانوں کا تعلق معدے سے ہے اس لیے وہ صرف منظور ہی نہیں، محبوب بھی ہیں۔ ایک معروف امریکی فوڈ سٹریٹ کی پہلی دکان لاہور میں جس دن کھلی، اس دن 35ہزار افراد، علم کی نہیں، تالو کے ذائقے کی پیاس بجھانے آئے۔ ابن انشا نے لکھا تھا کہ ایک شخص دعا مانگ رہا تھا اور پروردگار سے روٹی کا تقاضا کر رہا تھا۔ مولوی صاحب نے سرزنش کی کہ ایمان مانگو، بھوکے شخص نے کہا کہ جس شے کی جسے ضرورت ہو گی، وہ مانگے گا۔ تم ایمان مانگو، میں روٹی مانگوں گا۔ علم ہمارے پاس وافر ہے! اب صرف ریسورانوں کی ضرورت ہے۔ سینکڑوں میں نہیں، ہزاروں لاکھوں میں! بک شاپس کے ساتھ جو ہوا، اور ہو رہا ہے، اس پر سینہ کوبی ایک گزشتہ تحریر میں کی جا چکی ہے۔
ہمارے بزرگوں نے نصیحت کی تھی کہ ''خوردن برائی زیستن است۔ زیستن برائی خوردن نیست‘‘ کھانے کا مقصد زندہ رہنا ہے۔ زندہ رہنے کا یہ مقصد نہیں کہ ہر وقت معدے کی فکر ہو! ہم نے اس میں اپنے ذوق کے مطابق ترمیم کر لی ہے۔ اب زندگی کا مقصد ماکولات و مشروبات ہیں۔ اکثر پاکستانی گھرانوں میں گھنٹوں اِس بات پر بحث و تمحیص ہوتی ہے کہ آج کیا پکایا جائے۔ آج کون سے ریستوران میں کھانا کھایا جائے۔ دوستوں، رشتہ داروں، سہیلیوں سے ان موضوعات پر معلومات کا باقاعدہ تبادلہ کیا جاتا ہے۔
سرکاری تقریبات میں غیر ملکی مہمان موجود ہوں تو کھانوں کے انبار لگا دیئے جاتے ہیں۔ لاکھوں کروڑوں کے اخراجات وفاقی اور صوبائی خزانوں سے بھرے جاتے ہیں۔ شکم بھرنا، جن ملکوں میں ترجیح نمبر ایک نہیں، اُن کا رویہ اس ضمن میں حیران کن حد تک مختلف ہے۔ واشنگٹن ڈی سی میں ایک اعلیٰ سطحی پاکستانی وفد کو امریکی 
حکومت نے عشائیہ دینا تھا۔ ایک ریستوران کا صرف ایک حصہ مہمانوں کے لیے مخصوص کرایا گیا۔ عشائیہ کا آغاز سلاد سے ہوا۔ ہر مہمان کے سامنے سلاد کی ایک پلیٹ رکھی گئی۔ اس کے بعد دوسری پلیٹ رکھی گئی جس میں مچھلی کا گوشت تھا۔ تیسری پلیٹ کی باری آئی تو پوچھا گیا کہ میٹھے میں دو چیزیں ہیں۔ چاکلیٹ اور پنیر کا کیک۔ دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ یہ تھا اعلیٰ سطح کا عشائیہ! آخر میں ہمارے وفد کے سربراہ نے اپنی ہم مرتبہ شخصیت(کائونٹر پارٹ) کو تحائف دینے تھے۔ یہ منظر بھی عبرت ناک تھا۔ ہمارے سربراہ صاحب اپنا ذاتی معاون(پی اے) ساتھ لے کر گئے تھے۔ تحفہ پی اے صاحب ایک سینئر افسر کے ہاتھ میں پکڑاتے تھے۔ وہ سینئر افسر، سربراہ کے ہاتھ میں دیتا تھا۔ امریکی اعلیٰ شخصیت کا کوئی معاون، کوئی پی اے ساتھ نہ تھا۔ وہ تحائف خود ہی اپنی میز پر رکھتا گیا۔ تقریب کے اختتام پر اِس کالم نگار نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ امریکی اعلیٰ شخصیت، تحائٹ بغل میں اور دونوں ہاتھوں میں تھامے اکیلی اپنی گاڑی تک گئی۔ خود گاڑی کھولی، سامان خود گاڑی میں رکھا پھر خود گاڑی ڈرائیو کر کے وہاں سے رخصت ہوئی۔ گھریلو تقریبات میں بھی، کم و بیش، یہی انداز ہے۔ کئی امریکی، برطانوی، کینیڈین، اطالوی اور آسٹریلوی گھروں میں دعوت کھانے کا اتفاق ہوا۔ یہ حشر کہیں برپا ہوتے نہیں دیکھا، جس کا ہمارے ہاں رواج ہے۔ درجنوں ڈشیں، کھانے کے کئی ادوار! کئی اقسام کے سالن، مرغی، بکرے کا گوشت، گائے کا گوشت، مچھلی، پھر ہر گوشت کی کئی ڈشیں، قسم قسم کے کباب، دالیں اور سبزیاں اس کے علاوہ! میٹھے میں نصف درجن پکوان! افراط اور تنوع کے باوجود جس ''صبر‘‘ اور ''تہذیب‘‘ کا کھانا کھاتے وقت مظاہرہ ہوتا ہے، اس سے ایک ہی بات معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ کہ ہم کیا ہیں؟ اچھے بھلے تعلیم یافتہ، خوش لباس شرفائ، تقریب میں بیٹھتے وقت اس ''حکمت عملی‘‘(سٹریٹجی) کو بروئے کار لاتے ہیں کہ کہاں سے کھانا نزدیک پڑے گا تا کہ رن پڑتے ہی بھرپور حملہ کیا جائے! قیامت کا منظر ہوتا ہے۔ بھائی کو بھائی کی، دوست کو دوست کی فکر نہیں! ایک ہی دُھن ہوتی ہے کہ پلیٹ کو چوٹی تک بھر دیا جائے اور کئی بار بھرا جائے۔ اس دُھن میں حفظِ مراتب ہے نہ کسی کا لحاظ نہ آنکھ میں کوئی شرم!
ہماری عمر کے اصحاب کو اچھی طرح یاد ہو گا کہ جب ہم لڑکپن میں تھے، تو گھروں میں مہمان کے لیے عام طور پر مرغی کا گوشت، پلائو، روٹی اور ایک میٹھا کافی ہوتا تھا۔ بہت ہوتا تھا تو ساتھ شامی کباب بن جاتے تھے۔ یہ الگ بات کہ وہ مرغی آج کل کی طرح پلاسٹک کی نہیں ہوتی تھی۔ پلائو بھی پلائو ہوتا تھا۔ اُبلے ہوئے چاولوں کو مرچوں بھرے سالن میں گوندھ کر بریانی کا نامی نہیں دیا جاتا تھا! تب مہمان جتنے دن رہتا تھا، بوجھ نہیں بنتا تھا۔ مہمانوں کی تعداد سے بھی میزبان خوف زدہ نہیں ہوتے تھے۔ اب عزت کے معیار مختلف ہو گئے ہیں۔ ڈشوں کی تعداد بے تحاشا بڑھا کر، مہمان کو بلائے جان کر لیا گیا ہے۔ مارا خراب کردہ و خود مبتلا شدی! میزبان بھی تکلیف میں اور مہمان بھی نادم!
اداروں کی اپنی تو بری بھلی لائبریریاں موجود ہیں۔ جیسے قومی اسمبلی کی اپنی لائبریری ہے۔ جی ایچ کیو کی بہت بڑی لائبریری ہے۔ ادارۂ تحقیقات اسلامی(فیصل مسجد) کی اپنی لائبریری ہے۔ اسلام آباد کلب، جم خانہ لاہور و کراچی اور ڈیفنس کلبوں کی اپنی لائبریریاں ہیں۔ تعلیمی اداروں کی بھی اپنی لائبریریاں ہیں مگر عوام کے لیے کوئی لائبریری نہیں! آپ دکاندار ہیں، یا ٹیکسی چلاتے ہیں یا بہت بڑے تاجر ہیں، یا خاتونِ خانہ ہیں یا پرائیویٹ طور پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں، تو آپ کے لیے لائبریری کی سہولت مفقود ہے! یوں بھی پڑھ لکھ کر کیا حاصل ہو گا؟ آئیے! کسی اچھے سے ریستوران میں چل کر کھانا کھاتے ہیں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved