تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     01-08-2016

مغرب سے نثری تراجم کا دو سو سالہ سفر

ابراہیم جلیس لکھتے ہیں کہ میں نے جاپانی جُوتا خریدا تو ابن انشا نے کہا‘ میں اس کا ترجمہ کروں گا۔ تاہم ترجمہ کرنا اگر اتنا آسان ہوتا تو ڈاکٹر مرزا حامد بیگ اس پر 744 صفحات پر مشتمل وہ طویل وبسیط کتاب نہ لکھتے جو دوست پبلی کیشنز نے چھاپی اور اس کی قیمت 1750 روپے رکھی ہے۔ فاضل مصنف نے فن ترجمہ پر جو دلچسپ اقوال زریں نقل کیے ہیں‘ ان میں سے کچھ اس طرح سے ہیں:
1۔ ''مترجم کا کام لفظ کی جگہ لفظ رکھنا نہیں بلکہ مصنف کے اسلوب اور زبان کی طاقت کو اپنی زبان میں محفوظ کرنا ہے‘‘۔ سیسرو (46 قبل مسیح)
2۔ ''شاعری ترجمہ ہو ہی نہیں سکتی‘‘۔ ڈاکٹر سیموئل جانسن (18 ویں صدی عیسوی)
3۔ ''نثر میں ترجمہ ناقابل فہم اور ناممکن ہے‘‘۔ وکٹر ہیوگو (19 ویں صدی عیسوی)
4۔ ''ترجمے کی زبان قابل التفات دکھائی نہیں دیتی‘‘۔ جے ایچ فریئر(1880ئ)
5۔ ''زندہ کُتا مُردہ شیر سے بہتر ہے‘‘۔ ایڈورڈ فٹز جیرالڈ (19 ویں صدی عیسوی)
6۔ ''ترجمہ اور تصنیف کے تجربہ کار جانتے ہیں کہ ان کی عبارت میں کسی زبان کا اصل لفظ جو اپنا مطلب بنا جاتا ہے‘ سطر سطر بھر عبارت میں ترجمہ کریں تو بھی وہ بات حاصل نہیں ہوتی جو مجموعہ خیالات کا اور اس کے صفات و لوازمات کا اس ایک لفظ کے سننے والے کے سامنے آئینہ ہو جاتا ہے‘‘ ۔محمد حسین آزاد(1881ئ) 
7۔ ''ترجمہ کرنا ایک گناہ ہے‘‘ ۔گرانٹ شاورمین کرسپلی 1916)ئ(
8۔ ''ترجمہ نام ہے ایک سعیٔ نامشکور کا جس کے صلے میں شدید مشقت کے بعد صرف حقارت ملتی ہے‘‘۔ پروفیسر البرٹ گیرارڈ 1940)ئ(
9۔ ''ترجمہ ناممکن کو ممکن بنانے کی سعیٔ ہے‘‘۔ رابرٹ فراسٹ 1955)ئ)
کتاب کا نام ہے ''اردو ترجمے کی روایات از1786ء تا حال۔
پس سرورق ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں:
ڈاکٹر مرزا حامد بیگ ترجمے کے موضوع پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے کتابیات اور ترجمے کے نظری مباحث پر ان کی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ زیر نظر کتاب میں ترجمے سے متعلق مختلف اداروں اور اصولوں کے جائزے کے ساتھ ساتھ ترجمے کی قدیم روایات اور زمانہ حال تک نثری تراجم کا جائزہ پیش کیا گیا ہے‘ نیز سو سے زائد اہم تراجم پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔
ترجمے کے میدان میں کام کو مزید آگے بڑھانے سے قبل اس نوعیت کا جائزہ جس میں اردو نثری تراجم کے نمایاں رجحانات کو موضوع بنایا گیا ہو‘ ایک اہم ضرورت کا درجہ رکھتا ہے تاکہ ان کی روشنی میں آئندہ کے لیے اصول و مبادیات وضع کرنے میں سہولت رہے اور اُن کے حُسن و قبح کی روشنی میں مترجمین اپنا لائحہ عمل مرتب کر سکیں۔
پیش لفظ مغرب سے نثری تراجم‘ اسلام آباد 1988ء
مرزا ادیب رقم طراز ہیں:
ڈاکٹر مرزا حامد بیگ ایک الگ تھلگ حیثیت سے ایسے مقام پر نظر آتے ہیں جہاں وہ فرد واحد نہیں‘ ایک ادارہ بن چکے ہیں۔ انہوں نے اتنا وسیع اور اتنی تیزرفتاری سے کام کیا ہے‘ جس کی توقع بالعموم ایک ادارے سے ہی کی جا سکتی ہے۔
ڈاکٹر مرزا حامد بیگ نے جب اس کام کی طرف توجہ کی تھی تو اُن کے سامنے بیک وقت کئی اہم سوالات آئے تھے‘ مثلاً ترجمہ ہوتا کیا ہے؟ اُردو میں ترجمے کا آغاز کب ہوا تھا؟ مترجمین نے مختلف کتابوں کو اُردو میں منتقل کرتے وقت کن مقاصد کو پیش نظر رکھا تھا؟ ترجمے کی عہد بہ عہد تاریخ کیا ہے؟ جو کتابیں منتقل ہو گئی تھیں انہوں نے ہمارے ادب پر موضوعاتی اور اسلوبیاتی کیا اثرات مرتب کیے ہیں؟
مرزا حامد بیگ نے ان سوالات کے جواب اپنی جن کتابوں میں تفصیلاً دیے ہیں‘ اُن کے نام ہیں: ''ترجمے کا فن‘ نظری مباحث‘‘ ''مغرب سے نثری تراجم‘‘ ، ''کتابیات تراجم علمی کتب‘‘، ''کتابیات تراجم نثری ادب‘‘ یہ کام اپنے دامن میں انسائیکلوپیڈیائی معلومات لیے ہوئے ہے اور میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ڈاکٹر مرزا حامد بیگ نے اس کی تخلیق‘ تعمیر میں عاشقانہ نیازمندی کا ثبوت دیا ہے۔ ان کی معروضات (Applications) انتہائی قابل تحسین ہیں۔ ایک تو انہوں نے ترجمے کے فن کا دل سے احترام کیا ہے اور دوسرا بطور محقق‘ مورخ‘ مفسر و مبصر کے انتہائی دیانتداری کا مظاہرہ کیا ہے۔
(اذکار و افکار‘ روزنامہ نوائے وقت لاہور کا ادبی ایڈیشن 8 ستمبر 1988ئ) 
اس کتاب کی اہمیت اور قدر و قیمت کا ایک اندازہ ان دو تحریروں سے بھی بخوبی ہو جاتا ہے‘ میں اس پر اپنی رائے کیا ظاہر کروں گا۔ میں نے تو زندگی بھر میں چند نظموں اور ایک آسٹرین ناول دی کنکریٹ کا ترجمہ کیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی کتابیں پڑھ چکا ہوتا تو یہ ترجمہ شاید بہتر ہوتا۔ نثر کے ترجمے کی سہولت یہ ہے کہ شاعری کے برعکس مطلب غتربود نہیں ہوتا اور بات سمجھ میں بھی آتی جاتی ہے اور یہ بھی ہے کہ بعض اوقات ترجمہ اصل سے بھی بہتر ہوتا ہے۔ اس تحفہ کتاب کا انتساب ان ہستیوں کے نام ہے یعنی مترجمین عظام: ارنسٹ فینولوسا‘ ایزرا پائونڈ‘ ایس آرتھر ویلی اور محمد حسن عسکری ۔
اس کے کچھ ابواب دیکھیے : ترجمے کا فن‘ ہندوستانی ترجمے کی قدیم روایت‘ نثری تراجم‘ فورٹ ولیم کالج تا 1857ئ،نثری تراجم 1857ء تا 1917ئ‘ نثری تراجم 1917ء تاحال‘ علمی کتب کے چند لازوال تراجم‘ ادبی تراجم کا جائزہ‘ توضیحی کتابیات‘ نئے تراجم 1986ء تاحال‘ ترجمے کا فن: نظری مباحث 467 قبل مسیح تاحال۔
پیش لفظ ڈاکٹر ظ انصاری کے قلم سے ہے اور ابتدائیہ مصنف کا بقلم خود‘ خوبصورت ٹائٹل خالد رشید کے موقلم سے ہے‘ گیٹ اپ نہایت اعلیٰ۔
آج کامطلع
اِک اور ہی طرح کی روانی میں جا رہا تھا
چراغ تھا کوئی اور پانی میں جا رہا تھا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved