کتنی خوشی کی بات ہے کہ جہاں بار بار ادب میں جمود کی دہائی دی جاتی تھی وہاں اب ہم گویا ادب کے سنہری زمانے میں جی رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک کا ہر شخص ماشاء اللہ شاعر‘ ادیب ہو گیا ہے اور دن رات دھڑا دھڑ ادب تخلیق کرنے میں مصروف ہے۔ نظم‘ غزل‘ افسانہ‘ ناول‘ ڈرامہ‘ رپور تاژ‘ سفر نامہ ہر چیز کی ریل پیل ہے اور کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ جو دوست ڈیکلیریشن حاصل نہیں کر سکے‘ انہوں نے کتابی سلسلے نکال نکال کر ادب کی خدمت کا بیڑہ اٹھالیا ہے اور رسالوں سے آگے بھی نکلتے دکھائی دیتے ہیں۔ غرض ہر طرف خوب رونق لگی ہوئی ہے اور جوں جوں ادب کی پیداوار میں ترقی ہوتی جاتی ہے توتوں رسالوں اور کتابی سلسلوں کی ضخامت پر بھی خوشگوار اثر پڑا ہے۔ کبھی رسالہ ماہ نامہ ہوا کرتا تھا اور سو سوا سو صفحوں میں اس کا کام تمام ہو جاتا تھا۔ قیمت بھی واجبی ہی ہوا کرتی اور ہر کہ و مہ اسے خرید بھی سکتا تھا۔ پھر جو کچھ پچھلے ماہ چھپا تھا اس کا بیشتر حصہ قاری کو یاد بھی ہوا کرتا تھا، لیکن یا تو ادب کی سپلائی میں حیرت انگیز اضافہ ہو چکا ہے یا ان پرچوں کی گرانڈیل ضخامت نے ادب کی ڈیمانڈ ہی اس قدر بڑھا دی ہے کہ میرے جیسوں کو بسیار نویس ہونے کا طعنہ سُننا پڑ رہا ہے کہ ان رسالوں کی فرمائشیں پوری نہ کریں تو ویسے بھی نکّو بنتے ہیں اور یہ کیفیت ہو جاتی ہے کہ ع
گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل
چنانچہ اب صورت حال یہ ہے کہ کوئی بھی رسالہ پانچ سات سو صفحات سے کم پر مشتمل نہیں ہوتا۔ احمد ندیم قاسمی صاحب نے ''فنون‘‘ کا دس سالہ نمبر نکالا تھا اور اب غالباً تقاضائے عمر کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے پرانے رسالے ''ادب لطیف‘‘ نے 50 سالہ نمبر نکال دیا ہے جو 808 صفحات کو محیط ہے اور جس کی قیمت 700 روپے رکھی گئی ہے۔ اسے لاہور سے صدیقہ بیگم نکالتی ہیں جنہیں مظہر سلیم مجوکہ اور شاہد بخاری کا تعاون حاصل ہے۔ اکثر و بیشتر علیل رہنے کے باوجود اتنے صحت مند پرچے کی اشاعت پر موصوفہ بجا طور پر مبارکباد کی مستحق ہیں۔ اس کے بعد ''ماہ نو‘‘ کا تازہ شمارہ ہے جو احمد ندیم قاسمی نمبر ہے۔ اسے محمد سلیم‘ شبیہ عباس ‘ صائمہ بٹ اور مریم شاہین لاہور سے مل کر نکال رہے ہیں۔ موجودہ شمارہ بھی تنومندی میں کسی سے کم نہیں‘ ضخامت اس کی 372 صفحات ہے لیکن چونکہ سارے کا سارا آرٹ پیپر پر چھپا ہے اس لیے بہت سے پرچوں پر اپنے وزن کی وجہ سے بھی بھاری ہے۔ ان میں سے کوئی بھی پرچہ آپ کے ہاتھ بلکہ ہاتھوں میں ہو تو آپ اپنے آپ کو نہتا نہ سمجھیں کہ یہ بطور آلۂ ضرب بھی استعمال ہو سکتا ہے، آزمائش شرط ہے۔ یہ پرچہ بھی کافی پرانا ہے۔ اسے ہم بچپن سے پڑھتے آئے ہیں جب اس کی ایڈیٹر کشور ناہید ہوا کرتی تھیں۔ قیمت400 روپے ہے۔
اس کے بعد نمبر آتا ہے اکادمی ادبیات کے پرچے''ادبیات ‘‘ کا۔ اسے اسلام آباد سے نگہت سلیم‘ اور اختر رضا سلیمی نکالتے ہیں جبکہ اس کے نگران اکادمی کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو (تمغۂ امتیاز) اور مدیرِمنتظم راشد حمید ہیں۔ قیمت100روپے ہے جو سب سب سی ڈائزڈ ہے۔ اچھے پرچوں کی طرح اس کی اشاعت بھی بے قاعدگی کا شکار رہتی ہے جس کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں۔
کراچی سے شائع ہونے والے کتابی سلسلے''مکالمہ‘‘ کے مدیر شاعر‘ نقاد اور افسانہ نگار مُبین مرزا ہیں‘ اس کے صفحات 350 ہیں اور قیمت 500روپے۔ پچھلے دنوں انہوں نے اعلان کیا تھا کہ سال سال اور دو دو سال کے بعد چھپنے والے اس پرچے کو ہر ماہ نکالا کریں گے، لیکن شاید ضخیم پرچہ نکالنے کی عادت سے مجبور ہیں‘ نیز یہ کہ زیر نظر شمارے کو بھی اب چھ ماہ تو ہونے ہی والے ہیں۔
کتابی سلسلہ''دنیا زاد‘‘ جسے آصف فرخی کراچی سے نکالتے ہیں، اس کی موجودہ اشاعت بھی معمول سے قدرے زیادہ صفحات پر مشتمل ہے یعنی تین سو ساٹھ صفحے ہیں اور چونکہ اس کے ہر سال تین شمارے چھپتے ہیں اس لیے تینوں کی قیمت 1200روپے اور اس حساب سے موجودہ شمارہ 400 روپے کا ہے۔ پرچے میں اس دفعہ تاخیر اس لیے ہو گئی کہ پہلے تو ایڈیٹر انتظار حسین پر کتاب لکھ رہے تھے اور بعد میں ان کے والدگرامی ڈاکٹر اسلم فرخی کا انتقال ہو گیا۔
اس کے بعد کتابی سلسلہ''لوح‘‘ کا نمبر آتا ہے جسے راولپنڈی سے ممتاز احمد شیخ نکالتے ہیں۔ یہ اس پرچے کا تیسرا شمارہ ہے جس کے صفحات 664 اور قیمت 675روپے ہے۔ یہ پرچہ شاہد شیخ صاحب اکیلے ہی نکالتے ہیں اس لیے بعض اوقات گڑ بڑ ہو جاتی ہے۔ مثلاً موجودہ شمارے کے لیے اقتدار جاوید نے دو نظمیں بھجوائی تھیں جو ان کے بقول ایڈیٹر نے دونوں کو اکٹھا کر کے ایک ہی نظم کے طور پر چھاپ دیا۔ البتہ جو پرچہ ہمیں موصول ہوا ہے اس کی فہرست کے مطابق یہ نظمیں صفحہ 145اور 149پر ہونی چاہئیں تھیں لیکن یہ صفحات ہی غائب ہیں۔
اب آخر میں سہ ماہی''ادب عالیہ‘‘ جسے کراچی سے حجاب عباسی نے نکالا ہے اور زیر نظر شمارہ اس کا نقش اول ہے۔ اس کے صفحات 424 اور قیمت 500 روپے ہے۔ یہ بھی کتابی سلسلہ ہے۔ موصوفہ کی کوئی تخلیق موجودہ شمارے میں شامل نہیں ہے ماسوائے آخری دو صفحات کے جو انہوں نے اظہاریہ کے عنوان سے لکھے ہیں جس میں موجودہ ادبی فضا سے بحث کی گئی ہے۔
ان پرچوں پر تبصرے یا خیال آرائی کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ سبھی ایک سے بڑھ کر ایک اور چندے آفتاب چندے ماہتاب سے کم نہیں ہیں کیونکہ انہیں ملک کے چوٹی کے لکھنے والوں کا تعاون حاصل ہے۔ ان کا خصوصی تذکرہ بھی اس لیے ضروری تھا کہ اپنی حیران کن ضخامت کے لحاظ سے انہیں ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جبکہ نہ ہی معیار کے سلسلے میں کہیں کمپرو مائز نظر آتا ہے اور میں بھی زیادہ دیر ان کے خوشگوار بوجھ تلے دبے رہنا افورڈ نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ یہ اطلاع دینا ہی کافی تھا کہ یہ اشاعت پذیر ہو چکے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ میں اس سے سرخرو ہونے میں کامیاب ہوا ع
شادم از زندگیٔ خویش کہ کارے کردم
سٹاپ پریس: لیجیے ابھی ابھی ''رنگ ادب‘‘ بھی آ دھمکا ہے‘ کاندھے پر گُرز جمائے‘ جُھومتا جھامتا ہوا۔ یہ لحیم و شحیم پرچہ کراچی سے ہمارے دوست شاعر علی شاعر نکالتے ہیں۔ وہی ضخامت ‘ وہی قیمت‘ وہی چال‘ وہی چلن‘ ہم تو اسے دیکھتے ہی چاروں شانے چت ہیں اور خود سے کہہ رہے ہیں‘ ہور چُوپو!
آج کا مطلع
بندھی ہے بھینس کھونٹے سے نہ کوئی گائے رکھتے ہیں
مگر ہم دودھ کے بارے میں اپنی رائے رکھتے ہیں