تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     03-08-2016

بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں!

پوری دنیا میں موسم اب بے تاب ہو رہے ہیں۔ قابو سے باہر ہو رہے ہیں۔ لندن میں جولائی گرم گزرا۔ لندن والوں کی چیخیں نکل گئیں‘ لیکن کہا جا رہا تھا اگست میں بارش ہو گی... اور اب یکم اگست کو ہی بارش نے موسم بدل دیا ہے۔ لندن میں بارش نہ ہو تو مزہ نہیں آتا۔ کل صبح رم جھم شروع ہوئی جو رات تک چلتی رہی۔
منصور آفاق کے اعزاز ایک ادبی میلہ پانچ اگست کو مانچسٹر میں ہو رہا ہے۔ وہ اپنی خوبصورت شاعری کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ اب کالم نگاری میں بھی اپنا سکہ جما چکے ہیں۔ انہیں پتہ چلا‘ میں لندن میں ہوں تو برمنگھم سے دعوت دینے تشریف لائے اور کہا کہ ہر صورت اس میلے میں شرکت کروں۔ اگرچہ میری لندن سے واشنگٹن کے لئے پانچ اگست کی سیٹیں بک تھیں‘ لیکن منصور آفاق کو انکار نہ کر سکا۔ اب سات اگست کی سیٹ کرائی ہے۔ ٹریولر ایجنٹ نے کہا: فلائٹ کی تاریخ تبدیل کرانے پر کافی پیسے لگ جائیں گے۔ میں نے کہا: خیر ہے پیسے لے لینا لیکن منصور کو ناں کرنا مشکل ہے۔ اوپر سے تنویر ملک کا حکم تھا اب اگر لندن میں ہوں تو اس کے میلے میں شرکت کر ہی لوں۔
منصور آفاق سے طے ہوا کہ الفریڈ میں ملتے ہیں۔ وہاں کافی پینے ریسٹورنٹ میں بیٹھے تو پتہ چلا اس کے مالک ساجد عطا خان کا تعلق ملتان سے ہے۔ تیس سال سے لندن میں رہتے ہیں۔ میں ان کی سرائیکی سن کر حیران ہوا۔ روایتی انداز برقرار تھا۔ پوچھا تو بولے: ملتان سے اماں کو ساتھ لے آیا ہوں۔ انہی سے سرائیکی بولتا رہتا ہوں۔
ہماری اپنی الگ بیٹھک سج گئی تھی۔ اتنی دیر میں چوہدری سعید صاحب تشریف لائے۔ صحافی آصف سلیم مٹھا اور شعیب بٹھل بھی تھے۔ یوں کورم پورا ہو گیا۔ منصور آفاق نے بتایا کہ انہوں نے سلطان باہو کی شاعری کا ترجمہ فارسی زبان میں کیا ہے۔ یقینا یہ منصور آفاق کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ 
ساجد کو کچھ اور نہ سوجھا تو گھر سے ملتانی سوہن حلوہ منگوا لیا۔ میں نے کہا: یار لندن میں بھی ملتانی سوہن حلوہ ہی کھانا ہے تو یہاں آنے کا کیا فائدہ؟ وہ بھاگ کر اندر سے ایرانی اور ترکش مٹھائی لے آیا۔ ہر پانچ منٹ بعد سبز چائے کا دور چلتا رہا۔ اگرچہ وہاں سب پاکستانی سیاست میں دلچسپی رکھتے تھے‘ لیکن میری دل چسپی ساجد عطا خان کی گفتگو میں تھی۔ ان کے بارے میں پوچھا تو بتایا کہ وہ ایک کاتب تھے۔ کوئٹہ میں کافی عرصہ کاتب کا کام سیکھا لیکن اماں ملتان میں تھیں اور اجازت نہیں دیتی تھیں کہ ملتان سے باہر جائوں۔ میں مسکرا دیا کیونکہ مجھے علم ہے کہ ہم سرائیکی بہت جلدی مونجھ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہم گھر سے تھوڑا سا بھی دور جائیں تو پردیسی ہو جاتے ہیں۔
تو پھر لندن کیسے پہنچ گئے؟ 
ساجد عطا خان کی کہانی بھی بیرون ملک رہنے والے دوسرے پاکستانیوں سے مختلف نہیں۔ تیس سال پہلے جب ساجد عطا خان لندن ایئرپورٹ پر اترا تو اسے کچھ علم نہ تھا کہ کہاں جانا ہے۔ اچھے دن تھے۔ ابھی پاکستانیوں پر دہشت گردی کا لیبل نہیں لگا تھا۔ لہٰذا ایئرپورٹ پر زیادہ پوچھ گچھ نہیں ہوتی تھی۔ رات ایک مسجد میںگزاری۔ کسی مہربان نے دیکھا تو اپنے گھر کمرا دے دیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ وہ کیا کام کرے۔ ساجد کو یاد آیا وہ تو کاتب ہے۔ وہ پینٹ بھی کر سکتا ہے۔ ساجد عطا خان نے پاکستانیوں کی دکانوں پر خوبصورت خطاطی شروع کر دی۔ کہیں لکھ دیا: ''حلال گوشت دستیاب ہے‘‘ تو کہیں کچھ اور۔ ساجد خوددار ملتانی ہے‘ اس لیے خود سے پیسے نہ مانگتا۔ جب اس سے پوچھا جاتا تو کہتا: آپ کی مرضی؛ تاہم ساجد کو کبھی کسی نے کم پیسے نہیں دیے‘ بلکہ ہمیشہ کچھ زیادہ ہی دیے۔ یوں پینٹ اور کتاب یا خطاطی سے ساجد عطا خان کا کام کچھ ایسا چلا کہ آج اس کا لندن میں اپنا گھر ہے، اور اپنا کاروبار ہے۔ اس نے اپنے بھائیوں کو لندن بلوا لیا ہے۔ چینی کھانے کا ایک ریسٹورنٹ بھی اس کی ملکیت ہے۔ لیکن جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ساجد کا اپنے کافی ریسٹورنٹ میں ملازمین ہونے کے باوجود بھاگ بھاگ کر خود جا کر ہمارے لیے چائے‘ کافی لانا، ہماری میز سے خود پیالیاں اٹھانا، میز صاف کرنا اور پھر ہمارے سامنے نئی پیالیاں رکھنا تھا۔ کوئی اور ہوتا تو ہمیں زیادہ متاثر کرنے کے لیے وہ ہر ایک منٹ بعد اپنے ریسٹورنٹ کے ملازم کو آواز لگاتا‘ لیکن ساجد عطا خان تیس برس بھی خود کو ورکر سمجھتا ہے اور انکساری کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ ایک روایتی ملتانی۔ مجھے احساس ہوا کہ گھر آئے ہوئے مہمان کو اگر میزبان اپنے گھریلو ملازمین کی بجائے خود سرو کرے‘ تو اس سے کتنا فرق پڑتا ہے۔ گھر کا مالک خود برتن اٹھائے اور میز صاف کرے تو مہمان کو کیسا محسوس ہوتا ہے۔ 
اس شام شعیب بٹھل نے عطااللہ عیسیٰ خیلوی کو دعوت دے رکھی تھی۔ لندن کے مشہور سولسٹر رضوان سلہریا اور فیصل خواجہ بھی وہیں موجود تھے۔ عطااللہ عیسیٰ خیلوی سے میری پہلی ملاقات پچھلے برس شعیب کے میانوالی کے گائوں بالا میں ہوئی تھی۔ عطااللہ کی گائیگی ایک طرف رہی‘ ان کی انکساری نے مجھے فتح کر لیا تھا۔ تیس چالیس برسوں میں جو نام عطااللہ عیسیٰ خیلوی نے کمایا ہے‘ وہ ہمارے سرائیکی علاقے کے کسی اور گلوکار کے حصے میں شاید ہی آیا ہو۔ عطااللہ عیسی خیلوی کا ہونہار بیٹا سانول عیسیٰ خیلوی بھی باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے گلوکاری کے میدان میں قدم رکھ چکا ہے۔ اس نے ابھی دو گانے سرائیکی اور پنجابی میںگائے ہیں۔ عطااللہ کی بیٹی لاریب عطا ہالی ووڈ میں اپنا قدم جما چکی ہے‘ آسکر ایوارڈ جیتنے والی ٹیم کا حصہ ہے اور لندن میں ہی ان کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ 
پٹھانے خان ایک اور نام ہے جو کوٹ ادو کی سرائیکی دھرتی سے اٹھا اور نام بنایا۔ مجھے پٹھانے خان سے بھی ملنے کا اتفاق ہوا تھا۔ ان جیسا ملنگ اور مٹا ہوا بندہ بھی شاید ہی میں نے زندگی میں دیکھا ہو۔ بڑا ہونا کوئی کمال نہیں۔ ہاں بڑا آدمی ہو کر انکساری کے ساتھ رہنا کمال ہے۔ اس پر مجھے باکسر محمد علی کا انٹرویو یاد آ گیا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کی زندگی میں سب سے مشکل کام کیا تھا تو وہ بولے: انسان کے پاس دولت ہو، شہرت ہو، طاقت ہو، لوگ آپ کو پوجتے ہوں لیکن پھر بھی آپ انکساری کا مظاہرہ کریں‘ یہ بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ ان (محمد علی) کے پاس یہ سب کچھ تھا‘ اس کے باوجود انہوں نے ساری عمر انکساری اختیار کیے رکھی۔ 
میں پٹھانے خان سے 1993ء میں پہلی دفعہ ملتان میں ملا اور اپنے اخبار کے لیے ان کا انٹرویو کیا تھا۔ رات کا وقت تھا۔ وہ ریڈیو 
پاکستان ملتان کے فنکشن میں آئے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ ہر وقت ایک فقیر منش یاسین رہتا تھا۔ یاسین ایک ملنگ تھا۔ یاسین کے بغیر پٹھانے خان ادھورا تھا۔ وہ اپنی زندگی پٹھانے خان کو سونپ چکا تھا۔ پٹھانے خان کے جاگنے سونے کا خیال رکھنا‘ رات کو پٹھانے خان کے پائوں دبانا‘ اس کے جوتی‘ کپڑے اٹھا کر ساتھ چلنا اس کا کام تھا۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں جانا ہوتا، یاسین ملنگ ہمیشہ پٹھانے خان کے ساتھ تیار ملتا۔
میں جب ہوٹل کے کمرے میں پہنچا تو دونوں نے اس وقت کھانا منگوایا ہوا تھا۔ سادہ سی دال۔ پٹھانے خان کو شاید اپنے مہمان کے لیے علیحدہ کھانا منگوانے کی اجازت نہ تھی‘ اس لیے اس نے مجھے اپنی پلیٹ میں سے کھلایا۔ میں لاکھ کہتا رہا لیکن وہ نہ مانے اور سرائیکی میں کہا: نہ پتر توں میڈے نال کھا۔ پٹھانے خان نے بتایا کہ بھٹو صاحب ان کے بہت شیدائی تھے۔ ایک دفعہ گورنر ہاوس لاہور میں پوری رات ان کو سنتے رہے۔ رات گئے محفل ختم ہوئی تو بھٹو نے پوچھا: مانگ خاناں کیا مانگتے ہو؟ پٹھانے خان نے کہا: سائیں عوام دی پارت ہووی۔ (عوام کا خیال رکھنا)
میں نے حیران ہو کر پٹھانے خان سے کہا: آپ غریب آدمی ہیں‘ بھٹو سے کچھ مانگ لیا ہوتا۔ پٹھانے خان اچانک اپنی غنودگی کے عالم سے ابھرے اور کہا: سائیں بھٹو بادشاہ تھا۔ میں ایک فقیر بادشاہ سے مانگتا اچھا لگتا؟ بھٹو سائیں سے کچھ نہ مانگا گیا۔ یہ تو مصطفیٰ کھر (جو اس وقت گورنر تھے) کو چاہیے تھا وہ بھٹو سائیں کو بتاتا کہ پٹھانے خان ہمارے علاقے کا غریب کمہار ہے۔ اسے ایک مربع زمین دے دو۔ پھر پٹھانے خان خود ہی کہنے لگا: لیکن مصطفیٰ کھر اپنے علاقے کے غریب کمہار گلوکار کے لیے کیوں بھٹو کو کہتا۔ 
جب میں یہ واقعہ سنا چکا تو عطااللہ عیسیٰ خیلوی بولے: یاسین واقعی ایک کردار تھا۔ ملنگ تھا۔ فقیر تھا۔ عطااللہ نے بتایا کہ ایک دفعہ پی ٹی وی نے اسلام آباد میں جشن میلے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ لیاقت جمنیزیم میں ریہرسل ہو رہی تھی۔ یاسین ہر روز کچھ افیم لیتا تھا اور عالم غنودگی میں رہتا۔ اس شام اس نے کچھ زیادہ لے لی تھی۔ اسے دیکھ کر کسی نے مذاقاً جملہ کسا: یاسین سائیں لگتا ہو آج رات تم مر جائو گے۔ اس نے جھومتے ہوئے بند آنکھوں کے ساتھ عالم غنودگی میں ہی اپنے اوپر ہنسنے والوں کو جواب دیا: بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں،گور پیا کوئی ہور۔ سب نے ہنس کر ٹال دیا۔ ریہرسل کے بعد عطااللہ عیسی خیلوی دیگر گلوکاروں کے ساتھ رات گئے ابھی ہوٹل پہنچے ہی تھے کہ کسی نے بتایا کہ پٹھانے خان کے فقیر یاسین کا دل وہیں بیٹھے بیٹھے بند ہو گیا تھا۔ وہ مرگیا ہے۔
کچھ دن بعد بوڑھا پٹھانے خان بھی اپنے ملنگ کے ساتھ قبر میں جا سویا۔ اپنے فقیر، اپنے ملنگ اور ساری عمر کے خدمت گزار یاسین کے بغیر بھلا پٹھانے خان بھی کیوں اور کب تک اکیلے جی سکتا تھا؟
بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں، گور پیا کوئی ہور!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved