تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     03-08-2016

پھر وہی پرانا قصہ

ملتان میں میٹرو کو زمین پر بنانے میں کئی قباحتیں تھیں۔ پہلی تو یہ کہ سڑک کے درمیان میں لگنے والے بلند و بالا جنگلے سے شہر باقاعدہ طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا۔ ایک طرف کھڑا آدمی دوسری طرف جانے کے عمل کو پل صراط سے گزرنے جیسا مرحلہ سمجھتا۔ دوسری یہ کہ سڑک کو چوڑا کرنا پڑتا اور اس کے لیے دونوں اطراف سے زمین حاصل کی جاتی۔ شہری علاقے میں زمین خریدنا جہاں ایک بہت بڑی رقم کا متقاضی تھا، وہیں دونوں اطراف لوگوں کے برسوں سے چلتے ہوئے کاروبار برباد ہو جاتے۔ خاص طور پر بوسن روڈ پر بڑی عجیب صورتحال پیش آتی کہ اس طویل سڑک پر تقریباً دو سال تک جاری رہنے والی توسیع و تعمیر ابھی گزشتہ سال ہی مکمل ہوئی تھی اور عشروں سے جمے جمائے کاروبار دو سال کی خرابی کے بعد بمشکل دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوئے تھے۔ اسی دوران سڑک کو کشادہ کرنے کے عمل کی تکمیل کے بعد لوگوں نے سڑک کے کنارے پلازے، عمارتیں، دوکانیں اور دفاتر وغیرہ مکمل ہی کئے تھے کہ سر پر میٹرو کا بم آن گرا۔
میں نے اس سلسلے میں پہلی ملاقات اس پراجیکٹ کے انچارج کمشنر ملتان سے کی اور انہیں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ اگر ملتان میں میٹرو بنانا نا گزیر ہے اور خادم اعلیٰ اپنی اس خواہش کی تکمیل میں ازحد یکسو ہیں (ویسے میں نے دل میں سوچا کہ وزیراعلیٰ اپنی اس ضد کی جس آخری حد پر پہنچ چکے ہیں) تو براہ کرم اس کو زمین کے بجائے ایلی ویٹڈ بنالیں، کم از کم شہریوں پر جو مستقل عذاب نے نازل ہونا ہے، اس عذاب میں کسی حد تک کمی ہو سکے۔ میرا خیال ہے کہ جتنی رقم آپ نے زمین کی خریداری پر لگانی ہے، اس سے پانچ سات فیصد اضافے کے ساتھ آپ معلق میٹرو بنا سکتے ہیں۔ اس سے شہر دو حصوں میں تقسیم ہونے سے، کاروبار ایک بار پھر برباد ہونے سے اور سڑک کے دونوں طرف آر پار جانے میں رکاوٹ سے نجات مل جائے گی۔ کمشنر صاحب معقول آدمی تھے اور غالباً وہ بھی ذہن میں اسی قسم کا منصوبہ رکھتے تھے، فوراً میری بات سے متفق ہو گئے اور اپنی تجویز لے کر لاہور چلے گئے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ خادم اعلیٰ صرف میٹرو کے سلسلے میں ہی بضد تھے اور زمین پر یا ایلی ویٹڈ بنانے میں ان کی کوئی خاص ترجیح نہ تھی، لہٰذا اس تجویز پر تخمینہ لگوایا گیا۔ کُل فرق وہی سات آٹھ فیصد کا نکلا اور شہر کے بیشتر روٹ پر ایلی ویٹڈ میٹرو کا نقشہ بنایا گیا اور اس طرح یہ منصوبہ جنگلا بس بننے سے بچ گیا۔
مجھے علم تھا کہ میٹرو روٹ پر دو چار جگہوں پر مسئلہ کھڑا ہو گا اور اس میں سے ایک جگہ بوسن روڈ پر چونگی نمبر چھ والا چوک ہے۔ اس جگہ پر برسوں سے صبح اور دوپہر ٹریفک پھنستی ہے۔ اسی کے ساتھ سو گز آگے زکریا ٹاؤن کے داخلے کی جگہ ہے جو تقریباً ہمہ وقت ٹریفک کے مسائل کا شکار رہتی ہے۔ میں اس سڑک پر گزشتہ سینتیس سال سے تو مسلسل روزانہ گزرتا ہوں۔ 1979ء میں بہاء الدین زکریا یونیورسٹی میں داخلہ ہوا اور اس چوک سے گزرنا شروع کیا۔ اسی دوران والدہ ریٹائر ہوئیں تو سرکاری گھر سے بوسن روڈ پر اپنے گھر میں شفٹ ہو گئے۔ بعدازاں میں زکریا ٹاؤن آ گیا اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا۔ مجھے اس سڑک کے ہر موڑ، ہر جگہ حتیٰ کہ سڑک میں موجود گڑھوں تک سے بھرپور آشنائی ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ کس جگہ کس وقت ٹریفک کے پھنسنے کے امکانات کیا ہیں۔
جب میٹرو کا نقشہ بننے لگا تو مجھے بڑی فکر یہ تھی کہ بوسن روڈ پر اس منصوبے کو کس طرح ڈیزائن کیا جائے گا۔ اسے آپ میری خود غرضی سمجھیں تو آپ کی مرضی، مگر مجھے اس کی فکر اپنی ذات سے زیادہ ان تعلیمی اداروں میں صبح ہی صبح جانے والے طلبہ وطالبات کی تھی جنہوں نے اس ساری مصیبت زدہ صورتحال سے گزرنا تھا۔ بوسن روڈ ملتان کا تعلیمی مرکز ہے۔ بہائو الدین زکریا یونیورسٹی، ملتان پبلک سکول اور دیگر بے شمار تعلیمی ادارے اسی سڑک پر واقع ہیں اور صبح کے وقت اور دوپہر کو اس پر ان اداروں کی بسوں اور دیگر گاڑیوں کا وہ رش ہوتا ہے کہ الامان۔
چھ نمبر چونگی چوک پر ایک فلائی اوور ایسا ہے جو نہ بن رہا ہے اور نہ ہی جان چھوڑ رہا ہے۔ اس ایک ایسے فلائی اوور کی خاطر جو حقیقتاً نہ تو ابھی معرض وجود میں ہی آیا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی دور دور تک امکان ہے یہ نقشہ اس طرح بنایا جاتا ہے کہ اس فلائی اوور کے لیے جگہ تو چھوڑ دی گئی ہے مگر اس بے تکے اور غیر پیشہ ورانہ انداز میں چھوڑی ہے کہ اس کا نقشہ تصور میں لانے والوں کی انجینئرنگ اور پیشہ ورانہ تعلیم پر باقاعدہ شک ہونے لگتا ہے۔ میری اس فلائی اوور کے مسئلے پر میٹرو انتظامیہ سے بات ہوئی تو ان کو اس بات پر یکسو پایا کہ یہاں ایک عدد فلائی اوور ازحد ضروری ہے۔ تا ہم یہ بحث کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی کہ یہ فلائی اوور میٹرو کے فلائی اوور کے دائیں طرف بنے گا یا بائیں طرف۔ انجینئر صاحب کا فرمانا تھا کہ یہ فلائی اوور شہر سے یونیورسٹی کی طرف جاتے ہوئے میٹرو کے فلائی اوور کے بائیں طرف بننا چاہیئے، جبکہ میرا خیال تھا کہ دائیں طرف بننا چاہیئے۔ اب اس پر میٹرو کے پراجیکٹ ڈائریکٹر وغیرہ سے میٹنگ ہوئی تو وہ یہ مان گئے کہ اس کے بائیں طرف تعمیر سے اس فلائی اوور کا وہ مقصد پورا ہی نہیں ہوتا جس کے لیے یہ بنایا جانا مقصود ہے۔ دائیں طرف بننے والا فلائی اوور اس ضرورت کے نزدیک تر ہے جو مقصود ہے مگر اسی دوران میٹرو والوں نے بائیں طرف والے فلائی اوور کے نقشے کے مطابق کھدائی مکمل کر لی اور پلرز کی بھرائی شروع کر دی۔ اب سب چیزیں بے معنی ہو کر رہ گئیں کہ بڑے انجینئر صاحب نے درستی کی گنجائش ہی نہ رہنے دی تھی۔ لہٰذا اسی غلط نقشے کے مطابق میٹرو کی تعمیر شروع ہو گئی اور اب تکمیل کے قریب ہے۔
اسی دوران میں نے کمشنر ملتان کو بارہا بتایا کہ بوسن روڈ پر بعض جگہوں پر سڑک اتنی تنگ ہو گئی ہے کہ یہاں ہر روز اور ہر وقت ٹریفک جام رہا کرے گی اور اس کا حل یہ ہے کہ سڑک کے بیچو بیچ بننے والے میٹرو اسٹیشنز کو سائیڈ سے زمین لے کر بنایا جائے نہ کہ عین سڑک کے درمیان انہیں بنایا جائے جس سے تین رویہ سڑک بمشکل دو رویہ باقی بچتی ہے اور بوسن روڈ پر عشروں سے آہستہ چلنے والی ٹریفک از قسم بیل ریڑھی وغیرہ ہر وقت چلتی ہے اور اس کی وجہ سے ایک لین تو کم از کم باقی ٹریفک کے لیے استعمال ہی نہیں ہو سکتی، لہٰذا اس غلط تعمیر کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ پل کے اوپر صرف میٹرو کی بس فراٹے بھرے گی اور نیچے مخلوق خدا اس پراجیکٹ کے خالق کی شان میں ''قصیدے‘‘ پڑھے گی۔ اس سڑک پر نیچے کی طرف چلنے والی ٹریفک کی تعداد میٹرو کی بسوں کی تعداد سے سو گنا سے بھی زیادہ ہے اور اس کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔
پہلے چھ سات ماہ تو پراجیکٹ کے انچارج انجینئر صاحب مجھے اس طرح دیکھتے تھے کہ جیسے میں ہر بات غلط کہہ رہا ہوں اور مجھے انجینئرنگ کی الف بے کا بھی پتہ نہیں۔ ان کا یہ شبہ بلکہ یقین بالکل درست تھا کہ مجھے انجینئرنگ کی بالکل شدبد نہیں ہے اور ٹریفک انجینئرنگ کی تو بالکل بھی نہیں۔ تا ہم ان تکنیکی اور نقشے کی غلطیوں کو محسوس کرنے کے لیے انجینئرنگ کی تعلیم کی کوئی ضرورت بھی نہیں تھی۔ اس کے لیے کامن سینس ہونا اور اس سے بھی بڑھ کر صرف آنکھوں کا ہونا ہی کافی تھا کہ یہ ایسی فاش غلطیاں تھیں جو کسی نا بینا کے علاوہ ہر شخص دیکھ اور محسوس کر سکتا تھا۔ اسی دوران میٹرو کے اسٹیشنز کا ڈھانچہ مکمل ہو گیا۔ اب ٹریفک روزانہ پھنسنے لگ گئی۔ ابھی میٹرو کی تکمیل تو دور تھی مگر خرابیاں واضح ہونی شروع ہو گئیں۔
جب بہاولپور میں سولر پاور پلانٹ لگا تو اس عاجز نے ایک کالم لکھا جس میں بتایا کہ سو میگاواٹ کی پیداواری صلاحیت کے نام پر لگنے والا یہ سولر پاور پلانٹ دراصل مجموعی طور پر چوبیس گھنٹے کی پیداواری صلاحیت کے اعتبار سے سو میگاواٹ کا نہیں، بلکہ محض اٹھارہ میگا واٹ کی پیداواری صلاحیت کا حامل ہے۔ اس پر میرے خوب لتے لیے گئے اور مذاق اُڑایا گیا، تا ہم چار ماہ بعد خود خادم اعلیٰ نے فخر سے بتایا کہ اس پلانٹ کی بجلی کی پیداوار دس میگاواٹ کہنے والے جھوٹ بولتے ہیں، اس کی حقیقی پیداوار اٹھارہ میگا واٹ ہے۔ جس طرح جناب خادم اعلیٰ نے سو میگاواٹ والے اپنے سولر پاور پلانٹ کی پیداواری استعداد چار ماہ بعد اٹھارہ میگاواٹ تسلیم کر لی تھی، اسی طرح ان میٹرو اسٹیشنز کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد میٹرو کے منصوبے کے انچارج انجینئر صاحب نے مان لیا کہ یہ اسٹیشنز غلط بنے ہیں۔ اب ہم ان کی باہر والی جانب مزید زمین خرید کر ایک سلپ روڈ نکالیں گے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ نقشہ بنا کر ثابت کریں کہ یہ سلپ روڈ ٹریفک کی بحالی میں کوئی مدد دے گی تو ان کے پاس اس کا بھی کوئی جواب نہ تھا کہ اب چیزیں ٹھیک ہونے کی حد سے آگے گذر چکی تھیں اور اب کوئی بھی حل محض اس غلطی کی کالک کو دھونے کے مترادف تھا مگر کالک اڑنے کے بجائے مزید پھیل رہی ہے۔
بوسن روڈ کم از کم تین چار مقامات پر ایسے ہے کہ وہاں ہر حال میں ٹریفک پھنسے گی اور اس بری طرح پھنسے گی کہ اس کو کھلنے میں گھنٹوں بھی لگ سکتے ہیں اور یہ کبھی کبھار نہیں، روزانہ کی بنیاد پر ہو گا کہ ڈیزائن کی غلطیاں ہی اتنی فاش ہیں۔ سو سو فٹ لمبے اسٹیشنز اس طرح بنے ہیں کہ اس کے آگے پیچھے والی دوکانوں کے داخلے کا راستہ ہی تقریباً مسدود ہو گیا ہے۔ سارے بوسن روڈ پر سروس لین تقریباً ختم اور برباد ہو گئی ہے۔ سب مانتے ہیں کہ کافی کچھ غلط بن چکا ہے مگر اس کی درستی پر کوئی تیار نہیں کہ اس سے ایک تو غلطی سامنے آئے گی اور دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے اس سے پراجیکٹ کی تکمیل میں تاخیر ہو جائے گی اور میاں شہباز شریف اس پراجیکٹ کی تکمیل مقررہ وقت میں چاہتے ہیں جو ممکن ہی نہیں۔ اس کا جعلی طریقے سے شاید اسی طرح افتتاح بھی کروا لیا جائے جس طرح ملتان خانیوال موٹروے سیکشن کا افتتاح میاں نواز شریف سے کروا لیا گیا اور موٹروے اس افتتاح کے ایک ماہ بعد فنکشنل ہوئی۔
حال یہ ہے کہ میٹرو پر چڑھ کر اوپر والے پل سے گزرنے والوں کا تو پتہ نہیں کہ کیا رد عمل ہو گا مگر نیچے والے روزانہ کی بنیاد پر میٹرو کے خالق کو جھولیاں اٹھا کر ''دعائیں‘‘ دیں گے۔ ہم ملتانیوں کا مقدر ہی خراب ہے کہ کبھی کوئی پراجیکٹ ایسا نصیب نہیں ہوا جس پر سمجھوتہ یعنی compromise نہ کیا گیا ہو۔ ہمیں ہمیشہ ایسا دودھ ملا ہے جس میں ڈھیر ساری مینگنیاں ڈلی ہوتی ہیں۔(ختم)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved