تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     03-08-2016

سرخیاں ‘متن اور ٹوٹے

پیپلز پارٹی میں صرف ابن الوقت لیڈر بدلتے ہیں۔گیلانی
سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ''پیپلز پارٹی میں صرف ابن الوقت لیڈر بدلتے ہیں‘‘ جن کے ہاتھ بالعموم کچھ نہیں آتا اور جنہوں نے اپنی عاقبت اچھی طرح سنوارنی ہو‘ انہیں پارٹی تبدیل کرنے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ عاقبت تو جتنی زیادہ سنورے‘ اتنا ہی اچھا ہے‘ اس لیے اسے سنورتے ہی رہنا چاہیے جبکہ الحمد للہ خاکسار کی عاقبت تو پہلے ہی کچھ ضرورت سے زیادہ ہی سنور چکی ہے تاہم میں سمجھتا ہوں کہ اللہ سے لو لگائے ہی رکھنی چاہیے جو بڑا بے نیاز ہے اور اپنے برگزیدہ بندوں کو بھی بے نیاز کر دیتا ہے لیکن کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ لوگ اس عبادت پر بھی طرح طرح کی پوچھ گچھ کرنے پر تل جاتے ہیں حالانکہ یہ اللہ اور اس کے بندے کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے‘ آخر اس ملک کا کیا بنے گا اور اس کے عاجز و مسکین بندے کدھر جائیں‘ اگرچہ انہیں اب کہیں بھی جانے کی ضرورت نہیں ہے اور سارا کچھ یہیں پر میّسر ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
عمران‘ زرداری اور نواز شریف میں کوئی فرق نہیں۔جمشید دستی
عوامی راج پارٹی کے سربراہ جمشید دستی نے کہا ہے کہ ''عمران‘ زرداری اور نواز شریف میں کوئی فرق نہیں ہے‘‘ جبکہ صرف خاکسار میں ہی کوئی انفرادیت نظر آتی ہے کیونکہ ہماری بھی شیخ رشید کی طرح ایک آدمی کی ہی پارٹی ہے جو ماشاء اللہ ایک ہی سوا لاکھ کے برابر ہے اس لیے عوام کو میری طرف بھی کوئی توجہ کرنی چاہیے۔ پیشتر اس کے کہ میں 
کسی طرف کو مُنہ کر جائوں۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران کے ساتھ اب کوئی سڑک پر آنے کو تیار نہیں‘‘ جبکہ سڑک سوار ہونے کی وجہ سے میں تو ہمیشہ سڑکوں پر ہی رہتا ہوں اور میں اکیلا ہی کافی ہوں‘ اس لیے میں نے لوگوں کو سڑکوں پر آنے کی دعوت نہیں دی۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومت کے غیر دانشمندانہ فیصلوں نے حکومت کو مضبوط کیا''جسے صرف میرے دانشمندانہ فیصلے ہی کمزور کر سکتے ہیں‘ اور میں وہ فیصلے بہت جلد کرنے والا ہوں اور حکومت کو ان کا شدت سے انتظار کرنا چاہیے۔ آپ اگلے روز دبئی میں پارٹی دفتر کے افتتاح کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
بالآخر
بالآخر شریک چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی نے نئے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو ہدایت کر دی ہے کہ رینجرز کو فوری طور پر اختیارات دے دیے جائیں۔ افسوس کہ یہ بکری اگر دودھ دیتی بھی ہے تو مینگنیاں ڈال کر حالانکہ یہ بھی چہرہ بچائو ہی کی کارروائی تھی کیونکہ وفاقی وزیر داخلہ نے رینجرز کو اپنا کام جاری رکھنے کی ہدایت پہلے ہی جاری کر دی تھی اور وہ پہلے ہی کی طرح اپنی کارروائیوں میں مصروف ہیں‘ گویا اگر آصف زرداری حاتم کی قبر پر لات مارتے ہوئے یہ سخاوت نہ بھی کرتے تو بھی کوئی فرق نہ پڑتا۔ ظاہر ہے کہ سندھ حکومت اب تک یہ اجازت دینے سے زرداری صاحب کی ہدایات کے مطابق ہی رکی ہوئی تھی ورنہ یہ فیصلہ بہت پہلے ہو جاتا جو پیپلز پارٹی کے لیے ایک گناہِ بے لذت ہو کر ہی رہ گیا ہے ع
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
نقشِ اوّل
نئے وزیر اعلیٰ سندھ نے قائد اعظم کے مزار پر حاضری تو دی لیکن دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے سے پرہیز کیا جبکہ بعد میں بھٹوز کے مزاروں پر نہ صرف پھول چڑھائے بلکہ دُعا بھی مانگی جہاں وہ پروٹوکول کے خلاف بیان دینے کے باوجود پورے لائو لشکر کے ساتھ پہنچے تھے ۔ شاید انہوں نے یہ سمجھا ہو کہ دعائوں کی ضرورت صرف بھٹوز کو ہے۔ اس صورت میں تو انہیں مزار قائد پر جانے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ کہتے ہیں کہ آدمی کا فرسٹ اِمپریشن ہی اس کا آخری اِمپریشن ہوتا ہے جو تا عمر اس کے ساتھ ساتھ رہتا ہے‘ سو‘ چھوٹے شاہ جی نے پروٹوکول کے ساتھ ساتھ اپنے اوّلین تاثر پر بھی سیاہی پھیر دی۔ البتہ بعد میں یہ کہا کہ میں پروٹوکول کا تو ہرگز شوقین نہیں ہوں لیکن سکیورٹی کا مسئلہ تھا۔ اگر یہ درست ہے تو کیا آپ کو پہلا بیان دیتے وقت یہ مسئلہ یاد نہیں تھا؟
تبدیلی ؟
یہ بات تو طے ہے کہ آج بھی اور مستقبل قریب میں بھی نواز شریف کی اپوزیشن صرف اور صرف عمران خان ہیں۔ حکمران پارٹی اس بات پر بغلیں بجا رہی ہے کہ عمران خان نے مایوس ہو کر دھرنے کا پروگرام منسوخ کر دیا ہے کیونکہ وہ اکیلا رہ گیا ہے حالانکہ اس کا موقف واضح ہے کہ اس کی یہ تحریک کرپشن کے خلاف ہے جبکہ عرف عام میں نواز شریف ہی پرسانی فائیڈ کرپشن ہیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے نواز شریف کی نااہلی کے لیے الیکشن کمیشن میں بھی کارروائی کا آغاز کر رکھا ہے جو اب پوری طرح فعال ہو چکا ہے اور اس نے فریقین کے نام نوٹس بھی جاری کر دیے ہیں اور دوسرے اس کی اور دیگران کی طرف سے سپریم کورٹ میں بھی کارروائی جاری ہے۔ چنانچہ حکمران اور کرپشن چونکہ لازم و ملزوم ہیں اس لیے ایک کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو دوسرا منظر پر موجود نہیں 
رہے گا۔ سو‘ عمران خان کے پہلے دھرنے کے نتیجے میں بھی سریے میں خاطر خواہ نرمی دیکھنے میں آئی تھی اور اس کے اثرات اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں کہ موصوف نے سب سے پہلے آرمی چیف کے ساتھ ملاقات کر کے سریے میں نرمی کا ثبوت پہلے ہی دے دیا ہے‘ جبکہ عمران کا واضح بیان بھی ہے کہ جمہوریت نہیں‘ کرپشن کے خلاف تحریک شروع کریں گے۔ علاوہ ازیں آنجناب کی ہدایت پر ٹی او آرز پر منجمد مذاکرات بھی شروع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کے بارے میں بیرسٹر اعتزاز احسن نے صاف کہہ دیا ہے کہ حکومت صرف چکّر دینے میں مصروف ہے اور اپوزیشن کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ مزید برآں‘ اس بات کے اشارے بھی ملنے لگے ہیں کہ شروع شروع میں شاید یہ تحریک عمران خاں کی تنہا پرواز ہی ہو لیکن پیپلز پارٹی سمیت دیگر کئی پارٹیاں بھی اس میں شامل ہو سکتی ہیں بصورت دیگر جو خود تنہا رہ جائیں گی۔ اور‘ اگر مثلاً پیپلز پارٹی الگ الگ ہی رہتی ہے تو پنجاب میں اپنا صفایا سمجھے جبکہ سندھ میں بھی اس کے حالات مخدوش ہو چکے ہیں‘ یعنی سانپ کے منہ میں چھچھوندر ہو گی جسے سانپ کو نگلے بنے گی نہ اُگلے ! یعنی‘ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔
آج کا مطلع
مصروفِ کار تو نظر آتا بھی چور ہے
یہ ہاتھ پائوں توڑ کے بیٹھا بھی چور ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved