تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     04-08-2016

خوش کلامی‘ آداب اور دعائیں

سورۃ البقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ''قولواللناس حُسناً‘‘ یعنی لوگوں سے بات کرتے وقت اچھے سے اچھے الفاظ استعمال کرو ۔خوش کلامی کو شعار بنائو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بدکلامی اور تند و تیز لہجے میں بات اللہ تعالیٰ کو مرغوب نہیں۔ اور ہم ہیں کہ اللہ کے فرمان کی روز مرہ زندگی سے لے کر ٹی وی ٹاک شوز تک روزانہ خلاف ورزی کرتے ہیں۔ عربی کا محاورہ ہے کہ زبان کا لگایا ہوا زخم تلوار کے زخم سے زیادہ کاری ہوتا ہے اور ہماری زبانی تلواریں‘روزانہ سب پر وار کرتی ہیں۔ 
رویوں میں جارحیت تب تک درست ہے جب تک یہ اچھے مقصد کے لیے استعمال ہو‘ اس سے کوئی مثبت نتیجہ نکلے‘ سوسائٹی کا بھلا ہو‘ عامتہ الناس کو فائدہ پہنچے‘ مگر اکثر ایسا ہوتا نہیں ہے۔ اپنی دو بڑی پارٹیوں کو دیکھیے۔ ایک کا انتخابی نشان شیر ہے جو خطرناک درندہ ہے‘ کمزور جانور اس سے تب ہی بچ سکتے ہیں جب یہ شکم سیر ہو‘ ورنہ یہ جنگل کا بادشاہ ہے‘ اپنے قوانین خود بناتا ہے۔ کسی پارلیمنٹ سے مشورہ نہیں کرتا۔ ہمارے ہاں اس درندے کو بڑی توقیر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ دوسری پارٹی کا نشان تیر ہے جو بارود دریافت ہونے سے پہلے جنگی ہتھیار تھا۔ دشمن کے سینے کے آر پار ہو جاتا ہے۔ اسے زیادہ کارآمد بنانے کے لیے نوک پر زہر بھی لگایا جاتا تھا۔ شیر اور تیر دونوں دشمن کو شکار کرتے ہیں۔ کمزور کو چاروں شانے چت کر دیتے ہیں اور آپ پاکستان میں غور فرمائیں کہ شیر اور تیر دونوں نے مل کر عوام کا کیا خوب شکار کیا ہے۔
بات ذرا دور نکل گئی۔ کالم کا اصل مقصد خوش کلامی یا شیریں سخنی کو اجاگر کرنا ہے۔ مشرقی معاشروں میں مجلسی ادب آداب اور رکھ رکھائو زیادہ نظر آتا ہے۔ جاپانی بات کرنے سے پہلے ہمیشہ تھوڑا سا جھکتا ہے۔ افغانستان اور سنٹرل ایشیا کے لوگ سلام خواہ کتنی ہی دور سے کریں سینہ پر ہاتھ ضرور رکھتے ہیں۔ یعنی یہ بتانا چاہتے ہیں کہ میں آپ کو دل کی گہرائیوں سے سلام پیش کر رہا ہوں۔ میں نے ایرانی اور عرب معاشروں کو قریب سے دیکھا ہے۔ عربی اور فارسی میں قدم قدم پر دعائیں ہی دعائیں ہیں۔ ہماری اردو میں شیریں زبانی کو ایک زمانہ میں شرفاء باعث افتخار سمجھتے تھے۔ سرائیکی اور سندھی تو میٹھے الفاظ سے بھری ہوئی ہیں۔ ایک زمانے میں پنجابی بھی کچھ کم نہ تھی مگر یہ تب کی بات جب پنجابی اشرافیہ کو ہنس کی چال چلنے کا شوق نہیں چرایا تھا۔
میں نے عرب ممالک میں ایک عمر گزاری ہے۔ مصر ‘شام اور سعودی عرب میں بے شمار دعائیہ کلمات سنے۔ دمشق کو میں عرب دنیا کا لکھنؤ کہا کرتا ہوں۔ شامی بات چیت کا آغاز اللہ یعطیک العافیۃ سے کرتے ہیں‘ یعنی اللہ تمہیں اپنی عافیت میں رکھے جب جانے کا وقت آئے تو رخصت ہونے والا خاطرک ضرور کہے گا‘ یعنی مجھے بھول نہ جانا جبکہ رخصت کرنے والا مع السلامۃ کہے گا‘ یعنی تم سلامتی سے رہو۔ خلیجی ممالک کے لوگ اکثر حیاّک اللہ یعنی اللہ تمہیں زندہ و سلامت رکھے کی دعا دیتے ہیں۔ بادشاہ یا اشرافیہ سے بات کا آغاز طال عمرک کہہ کر کرتے ہیں‘ یعنی آپ کی عمر طویل ہو۔ آپ کسی مصری کو کھانے پر بلائیں تو وہ جاتے ہوئے سُفرہ دائمہ ضرور کہے گا‘ یعنی آپ کا دستر خوان اسی طرح ہمیشہ چلتا رہے۔ لبنانی دعوت سے جاتے ہوئے بیت عامر ضرور کہتے ہیں‘ یعنی آپ کا گھر ہمیشہ آباد رہے۔
فارسی تو شیریں زبانی میں اور بھی آگے ہے۔ ایران میں آپ جگہ جگہ 'قربان شما‘ سنیں گے‘ بالکل اسی طرح جیسے ہمارے ہاں سرائیکی میں صدقے تھیواں کہا جاتا ہے۔ ایران میں اگر خاتون خانہ آپ کو چائے یا شربت بنا کر پیش کرے تو آپ پر فرض ہے کہ اسے 'دست شما درد نہ کند‘ کہیں‘ یعنی آپ کا ہاتھ کبھی درد نہ کرے۔ دوشنبے میں پوسٹنگ کے دوران میں نے 'خستہ نہ باشید ‘کی دعا بارہا سنی ۔لفظی معنی ہے کہ آپ کبھی تھکاوٹ محسوس نہ کریں ۔آپ کار کھڑی کر کے کسی سے راستہ دریافت کرتے ہیں تو راستہ بتانے کے بعد وہ کہے گا 'راہِ سفید برار کار‘ یعنی آپ کا راستہ آسان ہو اور آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہوں۔ ان دعائوں سے انسان کو بڑی ذہنی تقویت ملتی ہے۔
مجھے اپنے بچپن کا واقعہ یاد ہے ۔ایک بزرگ خاتون ہمارے گھر کام کرنے آتی تھی۔ تعلق اس کا میراثی خاندان سے تھا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی ہمیں بآواز بلند کہتی جوانیاں مانو یعنی اللہ کرے آپ سب بچے اپنی اپنی جوانی مان اور افتخار سے گزاریں ۔اب یہ جملہ پنجاب سے تقریباً غائب ہو گیا ہے‘ لیکن میرے مشاہدے کے مطابق ملتان اور جھنگ دو ایسے قدیم شہر ہیں جہاں شیریں زبانی کی روایت اب بھی قائم ہے۔ میرا پلمبر اختر جھنگ سے ہے۔ وہ جب بھی آئے تو میں اس سے جھنگ کے لہجے میں پوچھتا ہوں اختر کیہہ حال اے۔ جواب ملتا ہے شکر اے رب داتے تہاڈیاں دعاواں نیں۔ اس جواب کے دوسرے حصے میں وہ مجھے باور کرا رہا ہے کہ اس کا اچھا حال میری دعائوں کی وجہ سے بھی ہے ۔کیا جامع جواب ہے ۔کیا خوش کلامی ہے اور ملتان کو میں پنجاب کا لکھنؤ سمجھتا ہوں۔ شاہ محمود قریشی سرائیکی میں بات کریں یا اردو میں دونوں میں شیرینی ہو گی۔ مہمان کی توقیر و اکرام ‘بڑوں کا ادب ‘چھوٹوں سے شفقت ہمارے کلچر کا حصہ تھا۔ گائوں میں چارپائی پر بیٹھنے کا بھی ایک پروٹوکول ہوتا تھا۔ کوئی بڑا بات کر رہا ہو تو دوسرے قطع کلامی نہیں کرتے تھے۔ بات غور سے سنتے تھے ۔ مسقط میں پوسٹنگ کے دوران میں نے سلطنت عمان میں بڑوں کے ادب کی مضبوط روایت دیکھی۔ آپ کسی کے گھر جائیں تو بچے سر ڈھانپ کر خاموشی سے بیٹھتے ہیں۔ بڑوں کی باتیں غور سے سنتے ہیں۔ اور ہمارے کنفیوزڈ کلچر میں آپ کسی بھی انگلش میڈیم برگر فیملی کے گھر جائیں۔ دوران گفتگو میزبان ریموٹ کنٹرول سے ٹی وی چینل بدلتا رہے گا۔ بچے اور نوجوان اپنے اپنے سمارٹ فون سے کھیلتے رہیں گے ۔میرے نزدیک یہ عمل مہمان کی توہین ہے ۔ مہمان کی موجودگی میں میزبان اور اس کے اہل خانہ کی تمام توجہ مہمان پر مرکوز ہونی چاہیے۔
کوئی قوم کتنی مہذب اور ڈسپلنڈ ہے‘ اس کا اندازہ آپ سڑکوں پر ڈرائیونگ کے انداز سے لگا سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں رائٹ آف وے کا کوئی تصور ہی نہیں ۔کوئی دائیں سے اوورٹیک کر رہا ہے تو کوئی بائیں سے۔ سڑک پر کار والوں کا راج ہے۔ پیدل چلنے والے یا سائیکل سوار اپنی جان کی حفاظت خود کرتے ہیں۔ اس کے برعکس یورپ اور امریکہ میں پیدل چلنے والے جب سڑک کراس کرنا چاہیں تو بٹن دبا کر ٹریفک کھڑی کر سکتے ہیں۔
ایک دفعہ میں اپنے رامپوری دوست کے ہاں گیا۔ یہ کنیڈا کی بات ہے۔ دوست کی والدہ پاکستان سے آئی ہوئی تھیں اور وہ اسی روز واپس جا رہی تھیں۔ مجھے کہا گیا کہ چھٹی کا دن ہے آپ گھر آ کر والدہ کو خدا حافظ کہہ لیں اور اگر وقت ہو تو ساتھ ایئر پورٹ بھی چلیں۔ باتیں ہو رہی تھیں کہ اماں جی کے گھر سے چلنے کا وقت ہو گیا۔ ان کی بہو اور ہماری بھابھی جلدی سے اٹھیں اور قرآن کریم اٹھا لائیں ۔اب میں ٹھہرا سیدھا سادا پنجابی۔ میں نے بھابھی سے پوچھا کیا آپ تلاوت کرنے لگی ہیں ؟وہ میری سادگی اور یو پی کی اشرافیہ کے کلچر سے ناواقفیت کو بھانپ گئیں اور کہنے لگیں کہ ہمارے ہاں مہمان کو رخصت کرتے وقت قرآن کا سایہ فراہم کیا جاتا ہے‘ تاکہ وہ اللہ کے حفظ و امان میں رہے ۔خوش کلامی ہمارے اللہ کو مرغوب ہے۔ اچھے آداب ہمارے روایتی کلچر کا حصہ ہیں۔ ہماری اردو اور علاقائی زبانیں دعائیہ کلمات سے بھر پور ہیں۔ خوش کلامی ‘ برداشت ‘حفظ مراتب اور اچھے آداب واپس لانے کے لیے ہمیں اپنے ہی ماضی سے رجوع کرنا ہو گا۔ میر انیس نے بہت پہلے دوستوں کے احساسات کا خیال رکھنے کا درس ان خوبصورت الفاظ میں دیا تھا ؎
خیال خاطرِاحباب چاہیے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved