عجیب منطق ہے اس نظام زر کی 'رائے عامہ‘ اور ذرائع ابلاغ کے آقائوں کی۔ کہیں ایک معمولی سا دھماکہ پوری دنیا کے میڈیا پر شہ سرخیاں بن کر ایک واویلا مچا دیتا ہے تو کہیں پوری کی پوری آبادیاں ریاستی و سامراجی جارحیتوں، دہشت گردیوں، معاشی قتل عام اور ذلت و بربادی کا شکار ہو کر بھی کارپوریٹ میڈیا پر سے بے معنی اور ''ریٹنگ‘‘ سے محروم ہونے کے ناتے غائب کر دی جاتی ہیں۔ جہاں دنیا بھر میں معاشی اور سماجی بحران نے عوام کے لیے روزمرہ زندگی اجیرن کر رکھی ہے وہاں ریاستی و غیر ریاستی دہشت گردی کا دور دورہ ہے‘ جس میں ان گنت معصوم انسان لقمہ اجل بن رہے ہیں، محنت کش طبقات اس عفریت کے خوف سے نہ صرف ہراساں ہیں بلکہ اس کی وحشت کے سامنے خود کو کمزور اور بے یارومددگار محسوس کر رہے ہیں۔ حکمرانوں کے لیے ایسی کیفیات میں اپنی منافع خوری کے لیے اقتصادی جارحیت نسبتاً آسان ہو جاتی ہے لیکن لمبے عرصے تک انہی مظالم کے خلاف مجتمع ہونے والاغم و غصہ ایک وقت میں پھٹ کر اس نظام کے خلاف بغاوت بھی بن جاتا ہے۔
جہاں دنیا بھر میں اتنی تباہ کاریوں کا دور دورہ ہے وہاں فلسطینیوں کی حالتِ زار کوئی بہتر نہیں ہوئی بلکہ بد سے بدتر ہوتی چلی گئی ہے۔ لیکن ایسے محسوس ہوتا ہے کہ دنیا فلسطین کو فراموش کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ عالمی سرمایہ دارانہ ریاستوں اور طاقتوں کی سفارتکاری اور سودے بازی میں شاید اس سلگتے ہوئے مسئلے کو فراموش کرنا ہی اس نظام کے پالیسی سازوں اور منصوبہ کاروں کا تقاضا ہے۔ کل جو مسئلہ فلسطین کے سب سے بڑے چیمپئن بنے ہوئے تھے آج اسرائیلی صہیونیت سے مصالحت کی پالیسی پر چل پڑے ہیں کیونکہ ان کے اپنے مفادات، جو دراصل مال و دولت سمیٹنے اور جبر کی طاقت کو پروان چڑھانے پر مبنی ہیں، کے سامنے مسئلہ فلسطین کا سفارتی یا اسلامی پروپیگنڈے کے اوزار کے طور پر استعمال فی الوقت اہمیت کھو چکا ہے۔ کرب میں مبتلا فلسطینی عوام جابر اور رجعتی اسرائیلی ریاست کے براہِ راست یا بالواسطہ مقبوضہ ''وطن‘‘ میں محکومی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ وہ اب اس استرداد پر مزید بیگانگی کے احساس سے دوچار ہو رہے ہیں۔ ایک طرف غزہ کی پٹی میں بنیاد پرستوں کے داخلی اور اسرائیل کے خارجی ظلم و جبر کا شکار ہیں تو دوسری جانب مغربی کنارے پر سامراج کی کٹھ پتلی محمود عباس حاکمیت کی بے نیازی اور لاتعلقی سے مجروح ہو رہے ہیں، اپنے آپ کو بے یارومددگار محسوس کر رہے ہیں۔ اس سے فلسطینی عوام میں بے چینی اور اضطراب بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔
کچھ فلسطینی دانشوروں کا خیال ہے کہ یہ عرب ریاستیں اس تنازعے کے لیے پہلے کی پالیسی (یعنی اسرائیلی ریاست مقبوضہ علاقوں سے دستبردار ہو کر واپس 67ء کی سرحدوں پر چلی جائے) سے منحرف ہو رہی ہیں۔ پی ایل او کے ایک سینئر عہدیدار الیاس زناناری نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ''اسرائیل عرب ریاستوں سے سیاسی تعلقات معمول کے مطابق بحال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے لیکن وہ یہ بحالی اسرائیل فلسطین تنازعے کو حل کیے بغیر ہی کرنا چاہتا ہے‘‘۔ یہ احساس کہ عرب ریاستیں اس بنیاد پر تعلقات بحال کرنے میں سرگرم ہیں فلسطینیوں میں غداری کے زخموں کا درد مزید اذیت ناک بنا رہا ہے۔ عرب حکمران اور ریاستوں کے اعلیٰ اہل کار اب شام، عراق، یمن وغیرہ کے مسائل پر زیادہ دھیان دینے لگے ہیں اور اپنے اقتدار کو ان بحرانوں کے خلفشار سے بچانے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ مصر کے فوجی آمر عبدالفتح السیسی کی حکومت نے مصر اور غزہ کی سرحد بند کر دی ہے۔ اس سے فلسطینیوں کی معاشی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اب یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ جلد ہی اسرائیل کا وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو مصر کا سرکاری دورہ کرنے والا ہے۔ نیتن یاہو نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ عرب حکمران اب اسرائیلی ریاست کو اپنے حلیف کے طور پر دیکھنے لگے ہیں۔
اوباما کی صدارت میں امریکی سامراج نے اپنی موضوعی کمزوری کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ سے فرار کی جو پالیسی شروع کی ہے اس میں ایران سے ہونے والا جوہری معاہدہ اسرائیلی اور عرب (بالخصوص خلیجی) حکمرانوں کے لیے سنگین تشویش کا باعث بنا ہے۔ عراق، شام اور یمن میں یہ طاقتیں ایران اور اس کی حمایت یافتہ قوتوں کے ساتھ برسر پیکار ہیں۔ اسرائیل کی سابقہ وزیر خارجہ زیپی لیونی نے اپنے بیان میں خلیجی ریاستوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ''اس خطے کے بارے میں ہمارا نقطہ نظراور ادراک ایک جیسا ہوگیا ہے‘‘۔ یعنی خلیجی طاقتیں اور اسرائیل ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔ اسی طرح اردن اور ترکی کے ساتھ اسرائیل کے سفارتی تعلقات بھی قائم ہیں اور کچھ عرصے سے ان کی فوجی حکمت ِعملی اور انٹیلی جینس بھی باہمی طور پر مرتب کی جا رہی ہے۔ جنرل سیسی حکومت نے نہ صرف غزہ کا باڈر بند کیا ہے کہ بلکہ وہاں سے اسلحہ سمگلنگ کو روکنے کے بہانے عام ضروریات کی ترسیل کرنے والی سرنگوں میں بھی سیوریج کا پانی چھوڑ کر ان کو بند کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب اس مصری آمریت نے اسرائیلی حکمرانوں کے ساتھ فلسطین کے ''امن‘‘ کے لیے اپنا ایک 'پلان‘ شروع کیا ہے جس کو عرب حکمرانوں کی بھی حمایت حاصل ہے۔ اس میں فلسطینیوں کے حقوق اس حد تک نظر انداز ہیں کہ ایک اسرائیلی سفارتکار بھی یہ کہہ اٹھا کہ ''سنجیدہ مذاکرات کے اجرا کے امکانات مخدوش ہو گئے ہیں‘‘۔
27 جون کو روس اور اسرائیل کی طرف پالیسی میں طیب اردگان کے یو ٹرن کے بعد ترکی اور اسرائیلی وزرائے اعظم نے باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کی ڈیل کا اعلان کیا ہے۔ اس ساری سفارتکاری سے بہت واضح ہوتا ہے کہ حکمران کہیں کے بھی ہوں، ان کی پالیسیاں کشمیری، فلسطینی یا دوسری مظلوم قومیتوں اور عوام کے حق میں نہیں بلکہ اپنے مالی مفادات کے تحت استوار کی جاتی ہیں۔ فلسطینی اس صورتحال کا بہتر ادراک رکھتے ہیں۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق 78 فیصد فلسطینیوں نے یہ رائے ظاہر کی کہ فلسطین عرب حکمرانوں کا اب مسئلہ ہی نہیں رہا، 59 فیصد نے ان عرب حکمرانوں پر اسرائیل کے ساتھ الحاق کا الزام لگایا۔ عرب ممالک سے فلسطینیوں کو ملنے والی امداد میں بھی سخت کٹوتیاں کر دی گئی ہیں اور مغربی ممالک نے بھی ان کی مالی مدد بند کرنا شروع کر دی ہے۔ دوسری جانب عرب حکمران درمیانے اور بالادست طبقات کے صرف 18 فیصد افراد اب اسرائیل کو اپنے ملک کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں! لیکن عرب محنت کشوں اور نوجوانوں میں اسرائیلی ظلم و بربریت کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے۔ مصر میں اس ممبر پارلیمنٹ کو جوتے مار ے گئے ہیں جو اسرائیلی سفیر سے ملاقات کے لیے گیا تھا۔
پچھلے سال ایک ڈیڑھ درجن اسرائیلی مارے گئے جبکہ 200 سے زائد فلسطینیوں کو اس صہیونی ریاست کے کارندوں نے قتل کیا۔ سامراج کا 'دو ریاستی فارمولا‘ ناکام ہو کر کوڑے دان میں گر چکا ہے۔ سرمایہ داری کی سیاست، سفارت اور معیشت میں مسئلہ فلسطین کا کوئی حل موجود ہی نہیں ہے۔ آج سے 50 سال قبل جنگ سویز میں کامیابی کے پہلے عشرے کے موقع پر 27 جولائی 1966ء کو مصر کے صدر اور انقلابی رہنما جمال عبدالناصر نے ایک وسیع عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ''ہم عرب حکمرانوں پر فلسطین کی آزادی کے لیے قطعاً اعتماد اور اعتبار نہیں کر سکتے۔ پہلے عرب حکمرانوں کو اپنی سرزمین سے برطانوی اور امریکی فوجی اڈوں کو ختم کرنا ہو گا۔ 1948ء میں جب ہم فلسطین کے لیے ہاتھوں میں اسلحہ اٹھائے جدوجہد کر رہے تھے تو عرب حکمرانوں نے غداری کی تھی۔ ہم اس المیے کو دہرانے نہیں دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے پچھلے سال اعلان کیا تھا کہ آزادی فلسطین صرف ایک انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے‘‘۔ آج بھی صورتحال ظاہری طور پر شاید کچھ بدل گئی ہو لیکن حکمرانوں کے بنیادی کردار اور افکار نہیں بدلے۔ سفارتکاری اور مسلح جنگ، دونوں فلسطین کو آزادی دلوانے میں ناکام رہے ہیں۔ جیسے صدر ناصر نے کہا تھا: آج بھی فلسطین کی آزادی کے لیے طبقاتی بنیادوں پر انقلابی تحریک درکار ہے، جس کو جغرافیائی اور تاریخی حالات کے پیش نظر پورے خطے کے محنت کش عوام کو سامراجی اور مقامی حکمرانوں کے خلاف یکجا کرنا ہو گا۔ اس طبقاتی جنگ میں اسرائیلی محنت کشوں کی شراکت ہی اس صہیونی ریاست کو پاش پاش کر سکتی ہے جو پورے خطے میں عدم استحکام اور جبر و جارحیت کے ساتھ ساتھ اسرائیل میں بھی عوام کا استحصال جاری رکھے ہوئے ہے۔