تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     04-08-2016

سندھ میں تبدیلی

جمعہ کو سید مراد علی شاہ کے سندھ اسمبلی میں بطور وزیراعلیٰ انتخاب اور انتخاب کے بعد حلف اٹھانے کے موقع پر اسمبلی سے ان کے خطاب نے فضا میں خوشگوار توقعات کی خوشبوئیں پھیلا دی ہیں۔ان کا انتخاب بڑے پُرامن اور باوقار انداز میں عمل میں آیا۔ ڈر تھا کہ ایم کیو ایم جو کافی عرصہ سے رینجرز کے زیرعتاب چلی آ رہی ہے اور حال ہی میں اس کے مزید سرکردہ رہنمائوں اور کارکنوں کو گرفتار کر کے اس کے زخموں پر نمک پاشی کی گئی ہے، اسمبلی میں احتجاجی مظاہرہ کرے گی لیکن اس نے وزیراعلیٰ کے انتخاب میں حصہ نہ لینے پر ہی اکتفا کیا۔ اسی طرح پاکستان مسلم لیگ (ن) جس کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کی حالیہ دنوں میں سردجنگ زوروں پر تھی نے بھی کسی قسم کی بدمزگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ صرف انتخابی عمل سے الگ تھلگ رہ کر اپنی انفرادی حیثیت کو برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ البتہ پاکستان تحریک انصاف نے اپنا امیدوار کھڑا کر کے پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنے کا تاثر دیا۔ انہوں نے انتخاب میں حصہ صرف اس مقصد کے لیے لیا تھا تاکہ پیپلز پارٹی کا امیدوار بلامقابلہ کامیاب نہ ہو۔ اگر یہ بات درست ہے تو سمجھ لیجئے کہ وزیراعظم نوازشریف کی حکومت کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی تحریک شروع ہونے سے پہلے ہی اپنے انجام کو پہنچ گئی۔ سندھ کے نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کے مقابلے میں اپنا امیدوار لا کر پی ٹی آئی نے ثابت کر دیا کہ دونوں کے راستے جدا ہیں اور وہ کبھی بھی وزیراعظم نوازشریف کے خلاف ایک پلیٹ فارم سے تحریک میں پیپلز پارٹی کا ساتھ نہیں دے سکتی۔
سندھ اسمبلی میں سید مراد علی شاہ کے حق میں پڑنے والے ووٹوں سے ثابت ہو گیا کہ انہیں پارٹی قیادت کے علاوہ پارٹی کے ارکان اسمبلی کی بھی متفقہ حمایت حاصل ہے۔ کراچی میں پیپلز پارٹی کے جتنے بھی ارکان اسمبلی موجود تھے ان سب 88 نے سید مراد علی شاہ کے حق میں ووٹ ڈالا۔ صرف وہ اراکین اسمبلی ایسا نہیں کر سکے جو یا تو ملک سے باہر تھے یا علالت کے باعث اسمبلی ہی نہ پہنچ سکے یہ بات قابل غور ہے کہ اسمبلی میں صرف پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکین نے ہی سید مراد علی شاہ کے حق میں ووٹ نہیں دیا بلکہ ان کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالنے والوں میں تین اور اراکین اسمبلی بھی تھے۔ ان میں سے ایک کا تعلق نیشنل پیپلز پارٹی سے تھا اور دوسرا آزاد رکن اور تیسرا پارٹی کے ناراض رہنما ذوالفقار مرزا کے صاحبزادے بیرسٹر حسنین علی مراد تھے۔ پیپلز پارٹی کے ناقدین کچھ بھی کہیں لیکن یہ بات بلاخوف تردید کی جا سکتی ہے کہ سید مراد علی شاہ کے انتخاب نے ثابت کر دیا ہے کہ صوبے میں اب بھی پیپلز پارٹی ہی سب سے طاقتور سیاسی قوت ہے جسے نہ صرف اسمبلی کی مکمل حمایت حاصل ہے بلکہ اس کی صفوں میں بھی اتحاد اور ڈسپلن ہے۔ اگر پارٹی پر قیادت کی گرفت اسی طرح مضبوط رہی اور پیپلز پارٹی نے اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھا تو 2018ء کے پارلیمانی انتخابات میں اس کی کامیابی کے امکانات بڑھ سکتے ہیں‘ بلکہ پارٹی کی طرف سے نامزد ہونے کے بعد اور خاص طور پر وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے بعد اسمبلی سے خطاب میں نئے وزیراعلیٰ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے اور سندھ کے عوام کے سامنے جو ترجیحات رکھی
ہیں ان سے گمان تو یہی ہوتا ہے کہ صوبے میں گورننس بہتر ہو گی‘ سیاسی قوتیں مستحکم ہوں گی اور عام لوگوں کو درپیش مسائل کے حل کی طرف پیشقدمی ہو گی۔ مثلاً انہوں نے ایک سے زیادہ دفعہ اس ارادے کا اظہار کیا ہے کہ صوبے میں امن و امان کے مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کے لیے سول اداروں کو مضبوط کیا جائے گا۔ سندھ میں رینجرز کی تعیناتی اور انہیں اختیارات تفویض کرنے کے مسئلے پر صوبائی اور وفاقی حکومت میں جاری تنازع کے پس منظر میں اس کا خطاب یہ ہے کہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی حکومت پولیس کو مضبوط کرنے پر خصوصی توجہ دے گی۔نئے وزیر اعلیٰ نے یہ بھی کہا کہ سندھ میں رینجرز کی تعیناتی اور ان کے لیے اختیارات سے متعلقہ مسائل کسی فرد واحد کی خواہش کے مطابق نہیں بلکہ آئین کی دفعات کے مطابق حل کئے جائیں گے ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رینجرز کے دائرئہ اختیار کے بارے میں سابق وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کی حکومت کا جو موقف تھا اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہو گی۔ اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ وفاقی وزارت داخلہ اور سندھ کی صوبائی حکومت کے درمیان اس مسئلے پر چپقلش جاری رہے گی۔ نئے وزیر اعلیٰ کے لیے یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے کیوں کہ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں اپنے روایتی طمطراق کے ساتھ اعلان کر چکے ہیں کہ سندھ حکومت راضی ہو یا نہ ہو ‘صوبے میں نہ صرف رینجرز موجود رہیں گے۔ بلکہ انہیں وفاقی حکومت کی جانب سے تمام ضروری اختیارات بھی دیے جائیں گے۔ یاد رہے کہ پاکستان کے وفاقی آئین کے مطابق رینجرز یا امن و امان بحال کرنے کے لیے فوجی یا نیم فوجی دستوں کو صرف صوبائی حکومتوں کی درخواست پر ہی تعینات کیا جاتا ہے لیکن وفاقی وزیر داخلہ اپنی مرضی اور اپنی شرائط پر ایک وفاقی لاء انفورسمنٹ ایجنسی کو ایک صوبے میں تعینات کرنا چاہتے ہیں۔ سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ کے لیے یہ مسئلہ ایک کڑا امتحان ثابت ہو گا تعلیم اور صحت کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کر کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے صوبہ سندھ ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے عوام کی امنگوں اور خواہشات کی ترجمانی کی ہے۔ 
صوبہ سندھ میں نئے وزیر اعلیٰ کی آمد محض ایک حکومتی تبدیلی نہیں ہے۔ یہ تقریباً 50برس عمر کی پیپلز پارٹی کی سوچ اور طرز حکومت میں
ارتقائی عمل کے ایک اہم مرحلے کی نمائندگی کرتی ہے۔سابق وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ اور ان کے پیش رو اور نئے وزیر اعلیٰ کے والد محترم سید عبداللہ شاہ کا میرٹ پارٹی اور اس کی قیادت سے وفاداری‘ آمریت کے خلاف جدوجہد میں ثابت قدمی اور قید و بند کی صعوبتوں کے باوجود اپنے نظریات سے وابستگی پر مبنی تھا موجودہ وزیر اعلیٰ بھی پارٹی کے پرانے اور مخلص کارکن اور پارٹی کی موجودہ قیادت کے پوری طرح وفادار ہیں۔ لیکن ان کا حصہ ان کے پیشروئوں کے دور سے مختلف ہے۔ سابق دور میں جنگ سیاسی تھی اور نظریات کی بنیاد پر لڑی جاتی تھی۔ اب بھی سیاست اور نظریات کی اہمیت میں کمی نہیں ہوئی۔ لیکن دورِ حاضر کے تقاضے مختلف ہیں۔ اب ترقی اور تبدیلی کی رفتار کہیں زیادہ تیز ہے۔ گلوبلائزیشن نے دنیا کے ہر کونے میں رہنے والوں کو ایک دوسرے کے اتنا قریب کر دیا ہے کہ وہ ہر لمحہ ایک دوسرے کو درپیش حالات اور مسائل سے آگاہ رہتے ہیں۔ اس لیے سندھی شہروں کی کچی بستیوں میں مقیم غریب اور بے روزگار نوجوانوں اور دور دراز دیہی علاقوں میں رہنے والے کسانوں اور ہاریوں کی امنگوں اور ضروریات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان معروضی حقیقتوں کی موجودگی میں سیاسی پارٹیوں کی سوچ اور کام کے انداز میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ یہ بات قابل غور بلکہ خصوصی اہمیت کی حامل ہے کہ اس سمت پہلا قدم پیپلز پارٹی نے اٹھایا ہے اور ایک شخص کو ملک کے دوسرے بڑے صوبے کی قیادت کی ذمہ داری سونپی ہے جو پارٹی ‘پارٹی کی قیادت اور پارٹی کے نظریات سے وفادار ہونے کے ساتھ موجودہ دور کے تقاضوں سے بھی آگاہ ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved