لندن میں کچھ پرانے دوستوں سے بھی ملاقات ہو گئی۔ سب سے زیادہ گلہ دنیا ٹی وی لندن کے بیوروچیف اظہر جاوید سے سننے کو ملا۔ اظہر جاوید سے بڑے عرصے بعد ملاقات ہوئی۔ 2006-07ء میں جب بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے لندن کو اپنی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا رکھا تھا تو اس وقت میں اور اظہر جاوید ایک میڈیا گروپ کے لیے اکٹھے کام کرتے تھے۔ وہ اس گروپ کے چینل کے لیے کام کرتا تھا اور میں انگریزی اخبار کے لیے۔ اظہر مجھ سے دو سال قبل لندن آیا تھا‘ اس لیے اسے یہاں کی گلیوں اور سڑکوں کے بارے میں زیادہ آگاہی تھی؛ چنانچہ میں زیادہ تر اسی پر انحصار کرتا۔ اظہر بھی مجھے ہر سیاسی سرگرمی سے آگاہ رکھتا۔ اس نے نواز لیگ کے اندر اچھے ذرائع بنا لیے تھے‘ لہٰذا اسے خبریں مل جایا کرتی تھیں۔ اظہر جاوید کو صحافت کا شوق ہے‘ حالانکہ لندن جیسے شہر میں زندہ رہنے کے لیے وہ صحافت کے علاوہ پارٹ ٹائم ایک دوسری جاب بھی کرتا رہا۔ اور آج وہ دنیا ٹی وی کا ایک اثاثہ ہے۔
ملاقات ہوئی تو کہنے لگا کہ اسے شدید گلہ ہے‘ کیونکہ میڈیا کو دیکھیں تو ایسے لگتا ہے جیسے لندن میں سب ٹھگ اور لٹیرے رہتے ہیں۔ میں حیران ہوا اور پوچھا: ایسا کیوں؟ اظہر کہنے لگا: پچھلے کچھ عرصے سے یہ تاثر مل رہا ہے جیسے سب کچھ لوٹنے والا ہر فرد لندن میں رہتا ہے‘ یہ شہر بدنام ہو رہا ہے۔ اس نے بتایا کہ پاکستان میں وہ جس بھی رشتہ دار یا دوست سے فون پر بات کرتا ہے اس کی باتوں سے ایسے لگتا ہے جیسے لندن میں کوئی شریف انسان نہیں بچا۔ ہر کسی کے پاس حرام کی دولت ہے‘ جس سے وہ جائیدادیں خرید رہے ہیں‘ وہ طنزیہ پوچھتے ہیں کہ تم نے کتنے فلیٹ خرید لیے ہیں؟ کوئی آف شور کمپنی تم نے بھی بنائی ہے یا نہیں؟
اظہر جاوید چونکہ خود حلال کی روٹی کما کر کھاتا ہے‘ لہٰذا اس کی تکلیف سمجھ آتی ہے کہ اس کا شہر بدنام ہو گیا ہے۔ اس نے مجھ سے کہا: تمہیں یہ بات واضح کرنا چاہیے کہ سب برے نہیں‘ لندن میں اچھے اچھے کام بھی ہوتے ہیں اور اچھے لوگ بھی رہتے ہیں۔ پہلے میں سمجھا شاید وہ مذاق کے موڈ میں ہے‘ لیکن پھر مجھے احساس ہوا کہ نہیں‘ وہ واقعی سنجیدہ ہے۔ پاناما لیکس کے بعد لندن کا ذکر پاکستانی میڈیا میں بہت ہوا‘ جس سے یہ تاثر پھیلا کہ وہاں شاید سارے ٹھگ ہی رہتے ہیں۔
میں نے جواباً کہا: اظہر! اس میں کس کا قصور ہے؟ کہا جاتا ہے کہ 'ایک گندہ چاول پوری دیگ کو خراب کر دیتا ہے‘ تو بتائو اب لوگ کیا کریں‘ جب وہ روزانہ آف شور کمپنیوں کی کہانیاں سنتے ہوں؟ جب لوگ یہ سنتے ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں نے لندن میں ایک ارب پونڈ سے زیادہ کی لاگت سے فلیٹس خرید لیے ہیں‘ یا جائیداد کا کاروبار کرتے ہیں‘ تو یقیناً وہ حیران ہوتے ہیں کہ اتنا پیسہ ان کے پاس کہاں سے آیا؟ کیونکہ چند سال پہلے تک تو وہ سعودی عرب میں بادشاہ سلامت کے خرچے پر چل رہے تھے اور اپنے تئیں وہ سب کچھ پاکستان چھوڑ آئے تھے اور جنرل مشرف نے ان سے سب کچھ چھین لیا تھا۔ اب بیٹھے بٹھائے ان کی ارب پونڈ سے زیادہ کی جائیداد کہاں سے نکل آئی تھی؟ جب ان سے پوچھا گیا تو کسی کے جواب ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔ رہی سہی کسر چوہدری نثار علی خان اور صدیق الفاروق کے بیانات نے پوری کر دی کہ یہ فلیٹس تو میاں صاحب نے 1996ء کے وسط میں خرید لیے تھے{ جبکہ حسن نواز نے جنرل مشرف کے 1999ء کے ٹیک اوور کے بعد بی بی سی کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ ان فلیٹس میں کرائے دار کے طور پر رہتا ہے۔
میں نے کہا: اس سے پہلے 1996ء میں سنڈے ٹائمز نے ہی ایک سٹوری چھاپی تھی کہ بینظیر بھٹو اور زرداری نے لندن میں سرے محل خریدا ہے۔ یہ محل بھی آف شور کمپنی کے ذریعے خریدا گیا تھا اور اس کی ادائیگی بھی سوئس بینک اکاونٹ سے کی گئی تھی۔ بڑا عرصہ یہ مقدمہ چلتا رہا۔ بینظیر بھٹو انکار کرتی رہیں۔ آخرکار 2004ء میں یہ محل بیچ دیا گیا اور پیسے کھرے کر لیے گئے۔
ابھی حال ہی میں پیپلز پارٹی کے مرحوم وزیر امین فہیم کے سٹاف آفیسر فرحان جونیجو نے لندن میں جائیداد خریدی ہے۔ اسلام آباد کے بعد وہ لندن تشریف لائے اور آج کل وہ اس دولت سے عیش کر رہے ہیں۔ جب لوگ ان کی دولت کی کہانیاں پڑھتے ہیں تو پھر سب یہی سمجھتے ہیں کہ لندن میں ان لوگوں کی تو لاٹری نکل آئی ہے۔ کون کہاں سے پیسہ لا رہا ہے؟ کوئی نہیں پوچھتا۔ بس جیب میں پونڈز اور ڈالرز ہونے چاہئیں۔ ایک طرف برطانیہ پاکستان کو سوشل سیکٹر میں ترقی کے لیے ایک ارب پونڈز سالانہ کی امداد دیتا ہے تو دوسری جانب وہی امداد پاکستانی سیاستدان اوربیوروکریٹ لوٹ کر واپس برطانیہ لے آتے ہیں۔
میں نے اپنی بات جاری رکھی اور کہا: کچھ مزید سن لو۔ پیپلز پارٹی دور کے وزیرارباب عالمگیر نے ایک چینی کمپنی کو این ایچ اے کا ٹھیکہ دیا۔ اس میں سے پچیس لاکھ ڈالرز کا کمشن بنکاک کے ایک بینک میں باقاعدہ عاصمہ ارباب عالمگیر کے نام پر جمع کرایا گیا۔ وہاں سے یہ پچیس لاکھ ڈالرز دبئی میں اس بینک کی ایک برانچ میں ٹرانسفر ہوئے۔ کچھ دن بعد وہ پیسے لندن بھیجے گئے اور عاصمہ ارباب عالمگیر نے اپنے نام پر ہی چار فلیٹس‘ جن کی مالیت سولہ لاکھ ڈالرز بنتی تھی‘ خرید لیے۔ یہ سارا لین دین اکتوبر 2012ء سے شروع ہوا اور اگلے سال جنوری‘ فروری تک لندن میں اس پیسے سے جائیداد خریدی جا چکی تھی۔ یہ سب جلدی جلدی اس لیے کیا گیا کہ ایک ماہ بعد مارچ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہو رہی تھی۔ آج وہی عاصمہ ارباب عالمگیر اسی لندن میں ڈالروں سے خریدی گئی جائیداد میں رہتی ہیں۔ انہوں نے وہ فلیٹس کرائے پر چڑھا رکھے ہیں اور ہر ماہ ان سے پونڈز میں کرایہ وصول کرتی ہیں۔ موصوفہ‘ جو روزانہ کسی نہ کسی ٹی وی چینل پر بیٹھ کر پاکستانی عوام کو جمہوریت کے فوائد گنواتی تھیں، اب کچھ دن لندن میں انتظار کریں گی اور پھر پاکستان وکٹری کے نشانات بناتی ہوئی پہنچ جائیں گی اور دوبارہ ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر جمہوریت پر تقریریں کیا کریں گی۔ عاصمہ ارباب ہمیں ایک دفعہ پھر جمہوریت کے فوائد گنوائیں گی اور شاید یہ سمجھائیں گی کہ جمہوریت میں تو یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ سب چلتا ہے۔ برداشت کریں۔
کسی دور میں فرزانہ راجہ کا طوطی بولتا تھا۔ اسلام آباد میں ان کے خلاف کوئی خبر نہیں چھپ سکتی تھی۔ انہیں کسی نے بتا دیا تھا کہ آپ دوپٹہ پہن کر بینظیر بھٹو کی طرح لگتی ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے اربوں روپے کے اشتہارات اپنے محکمے کے بجٹ سے چھپوائے۔ ایک طرف بینظیر بھٹو اور اسی رنگ میں فرزانہ راجہ... ان پر بھی شدید الزامات لگے۔ معاملہ نیب تک گیا۔ پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ وہ بھی اب کسی دوسرے ملک میں رہتی ہیں۔ وہ سب سے زیادہ سمجھدار نکلیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوتے ہی وہ چپکے سے پتلی گلی سے ایسی نکلیں کہ آج تک ان کی کوئی خبر باہر نہیں نکلی۔ دوبارہ اگر پیپلز پارٹی لوٹی تو وہ بھی عاصمہ ارباب کی طرح لوٹ آئیں گی اور جمہوریت کے فوائد سے فائدہ اٹھائیں گی۔
یہ وہ چند مثالیں ہیں جو سامنے آئی ہیں۔ یہاں ہر دوسرے پاکستانی سیاستدان اور بیوروکریٹ نے کچھ نہ کچھ خرید رکھا ہے۔ اب دبئی میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ ہزاروں پاکستانیوں نے وہاں تقریباً پورا دبئی خرید لیا ہے۔ سات ارب درہم کی جائیداد خریدی گئی ہے۔ اتنا پیسہ کہاں سے آیا اور پاکستان سے باہر کیسے گیا اور کیوں ان سے ٹیکس نہیں لیا گیا؟ ایف بی آر یہ پتہ تو نہ چلا سکا کہ اتنی دولت پاکستان سے کیسے باہر گئی اور کس نے کیسے کمائی‘ لیکن اربوں روپے کے بونس ایف بی آر کے افسران نے آپس میں بہترین کارگردی کے نام پر بانٹ لیے ہیں۔ رہے نام اللہ کا۔
اظہر جاوید خاموشی سے سنتا رہا لیکن میری بات مکمل ہونے پر بولا: پھر بھی ہمارے جیسوں کا کیا قصور ہے؟
میں نے کہا: میرے پیارے! آپ کا قصور یہ ہے کہ آپ لندن میں رہتے ہیں۔ اس شہر میں رہتے ہیں‘ جہاں یہ سب لٹیرے پاکستان سے ہماری دولت لوٹ کر لاتے ہیں‘ آف شور کمپنیاں بناتے ہیں۔ پچیس پچیس لاکھ ڈالرز کا کمشن کھاتے ہیں، سرے محل خریدتے ہیں، ماربل آرچ پر فلیٹس خریدتے جاتے ہیں اور سرکاری افسر بھی اپنے ملک اور قوم کو چونا لگانے سے باز نہیں آتے۔ میں نے اپنی بات جاری رکھی: اظہر پیارے... جب لوگ پاکستان میں ان سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی بڑے پیمانے پر لوٹ مار اور اس حرام کے پیسے سے لندن میں محلوں، فلیٹس اور قیمتی گھروں کی اندھا دھند خریداری کی کہانیاں سنتے اور پڑھتے ہیں تو پھر خود بتائو لندن کو کیا نام دیں؟
پرانے زمانے میں ٹھگ تو ویسے بنارس کے مشہور تھے لیکن کیا کریں اب یہ نئے ٹھگ لوٹ مار پاکستان میں کرتے ہیں اور جائیدادیں دبئی اور لندن میں خریدتے ہیں!