اعترافات کے عنوان سے گزشتہ کالم میں ہم نے موجودہ حالات کے تناظر میں گفتگو کی تھی ۔اصل مقصد یہ تھا کہ اپنے قارئین کو آگہی دی جائے کہ اسلام کس طرح کی انسانی شخصیت کی تشکیل چاہتا ہے۔یہ تو طے ہے کہ تاریخِ انسانیت میں عہدِ رسالت مآب ﷺ وعہدِ صحابہ سمیت کوئی بھی انسانی معاشرہ ایسا نہیں گزرا کہ جس میں سرے سے کسی جرم کا ارتکاب ہی نہ ہوا ہو۔اگر ایسا ہوتا توقرآن وسنت اور شریعت میں حدود وتعزیرات کے احکام اورنظامِ عدل کی نوبت ہی نہ آتی ۔ انسانیت کو جرم وگناہ سے واسطہ پڑتا رہے گا ، مختلف ادوار اوراخلاقی وتربیتی ماحول میں اس کا گراف کم یا زیادہ ہوسکتا ہے۔ آج کی دنیا میں بھی جرائم کی روک تھام کے لیے تعزیراتی قوانین اورعدالتیں ہر ملک میں قائم ہیں۔الغرض اس پر انسانیت کا اجماع ہے کہ وعظ وتذکیر، معاشرتی دبائو اور اصلاحی تحریکات اصلاحِ معاشرہ کے لیے ایک حد تک تومفید ثابت ہوسکتی ہیں ،لیکن ان کے ذریعے معاشرے کی جرائم سے سو فیصد تطہیر عملاً ممکن نہیں ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے فرائض نبوت بیان کرتے ہوئے قرآنِ مجید میں ایک فریضہ ''تزکیۂ نفس ‘‘قرار دیا ہے ۔یعنی تعلیم وتربیت، وعظ وتذکیر اور صحبتِ صالح کی برکات کے ذریعے ظاہر کے ساتھ ساتھ لوگوں کے قلوب واذہان کا تزکیہ کرنا ۔ رسول اللہ ﷺ نے صحابۂ کرام کی صورت میں ایسا ہی پاکیزہ معاشرہ تشکیل دیا تھا ۔ہم یہ نہیں کہتے کہ صحابہ کرام خطا اور گناہ سے معصوم تھے ، کیونکہ یہ نبوت کا خاصّہ ہے ، لیکن یہ ضرور کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم وتربیت اور صحبت کی برکت سے اُن کے قلوب واذہان اور باطن اتنا پاکیزہ ہوچکا تھا کہ اگر کسی وقت بشری کمزوری کے تحت اُن سے گناہ سرزد ہوجاتا ،تو جب تک اس کا ازالہ نہ کرتے ،انہیں چین نہ آتا ۔ آج ہم جس صورتِ حال سے دوچار ہیں ،اس میں صرف عدالت وقانون اور سزاکا خوف ہی کسی حد تک انسان کو ارتکابِ جرم سے روکے رکھتا ہے یا اگر معاشرے میں خیر غالب ہے تو معاشرتی دبائو بھی انسان کو اپنی عزتِ نفس کی حفاظت کے لیے کسی حد تک برائی سے روکے رکھتا ہے ، لیکن مکمل اصلاح ممکن نہیں ہوتی۔اسلام میں خوفِ خدا اور آخرت کی جواب دہی کا تصور ہی وہ نسخۂ کیمیا ہے جو انسان کوجرم اور گناہ کی طرف بڑھنے سے روکتا ہے ۔
بعض اوقات انسانی معاشرے پر شر اس قدر غالب ہوجاتا ہے کہ لوگ برائی کے اظہار میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ اوربندوں سے کوئی حیا یا حجاب محسوس نہیں ہوتا۔قومِ لوط کی اسی کیفیت کو قرآن نے بیان فرمایا ہے:''کیاتم مردوں سے بدفعلی کرتے ہو اور راہ زنی کرتے ہواوراپنی مجلس میں (اعلانیہ)برا کام کرتے ہو ،تواُن کی قوم کا جواب صرف یہ تھا : ''ہم پر اللہ کا عذاب لے آئو اگرتم سچے ہو،(العنکبوت:29)‘‘۔یعنی آخرت کی جزا وسزا پرعدمِ یقین انسان کو بے حیائی اور فسق وفجور کی اُس انتہا تک لے جاتا ہے کہ جرم عیب کی بجائے افتخار بن جاتا ہے ۔آج ہم تقریباً اسی طرح کے دور سے گزر رہے ہیں کہ جرم عیب نہیں رہا اور مجرم اپنے آپ کو قابلِ ملامت نہیں سمجھتا،پروفیسر حفیظ تائب نے کہا تھا : ؎
سچ میرے دور میں جرم ہے ،عیب ہے ، جھوٹ فنِ عظیم ، آج لاریب ہے
ایک اعزاز ہے جہل وبے راہ روی ، ایک آزار ہے آگہی یانبی
دشمن جاں ہوا میرا اپنا لہو ، میرے اندر عَدُوّ ، میرے باہر عَدُوّ
ماجرائے تحیُّر ہے پرسیدنی ، صورتِ حال ہے دیدنی ، یانبی
اگر دامنِ ایمان وعمل پہلے ہی سے داغ دار ہے ،تو کسی تازہ گناہ کا داغ بے چین نہیں کرتا،لیکن اگرلوحِ قلب وذہن پاکیزہ ہے اور گناہ کا کوئی داغ لگ جائے ،تو انسان بے قرار ہوجاتاہے تاوقتیکہ توبہ کر کے اور شریعت کے مطابق اس کا ازالہ کر کے اپنے قلب کو پاک نہ کرلے۔حدیثِ پاک میں ہے: (1)''ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے پوچھا:ایمان کیا ہے؟، آپ ﷺ نے فرمایا : جب تمہاری نیکی سے تمہیں سُرور نصیب ہواور تمہارا گناہ تمہیں برا لگے ،تو تم مومن ہو، صحابی نے عرض کی:یارسول اللہ!گناہ کیا ہے؟، آپ ﷺ نے فرمایا: جب کسی چیز سے تمہارے دل میں گھٹن محسوس ہو ، تو اُسے چھوڑ دو ،(مسند احمد:22166)‘‘۔حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ نفسِ لوّامہ یعنی ضمیرخیر وشر کے لیے کسوٹی ہے ،ٹیسٹنگ مشین ہے۔اسی طرح ضمیر کی مُردنی کو حیاتِ نَو عطا کرنے اور اُسے دوبارہ قابلِ کار بنانے کے لیے توبہ کے مرحلے سے گزرنا ہوتا ہے ،جس کے چھ مراحل ہیں: (الف)ماضی کے گناہوں کا اعتراف ،(ب)اُن پر اللہ تعالیٰ کے حضورندامت، (ج) اللہ تعالیٰ سے اُن پر معافی طلب کرنا، (د) شریعت میں بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق ان کی تلافی کرنا،(ہ)آئندہ اُن سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے پیمانِ وفا باندھنا، (و)اور اس پیمانِ وفا پر ثابت قدم رہنے کی اللہ تعالیٰ سے توفیقِ خیر طلب کرنا۔اسی کو ''تَوبَۃُ النَّصُوْح‘‘ کہتے ہیں اور اسی کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (1)''گناہوں سے (سچی)توبہ کرنے والا(گناہوں کی میل سے ) ایسا پاک ہوجاتا ہے ،جیسے اُس نے گناہ کیا ہی نہ ہو،(سنن ابن ماجہ:4250)‘‘۔(2)''اگر کسی کا اونٹ صحرا میں (سازوسامان سمیت)گم ہوجائے ، (وہ تلاشِ بسیار کے باوجود اُس کوپانے سے بالکل ناامید ہوجائے )اور پھر اچانک وہ اونٹ (سازوسامان سمیت) اُسے مل جائے ،تو ایسے عالَم میں اُس شخص کو جتنی خوشی نصیب ہوتی ہے ،اللہ تعالیٰ کا (بھٹکا ہوا ) بندہ جب توبہ کر کے اُس کی طرف واپس پلٹ آتاہے ،تو اُسے اُس شخص کے مقابلے میں بدرجہا زیادہ خوشی ہوتی ہے ،(صحیح البخاری:6309)‘‘۔اسی بامعنی توبہ کا نام ''تزکیۂ قلب‘‘ اور ''تطہیرنفس‘‘ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''بے شک مومن جب کوئی گناہ کربیٹھتا ہے ،تو اس کے دل پر ایک سیاہ دھبا پڑ جاتا ہے ،سو اگر وہ توبہ واستغفار کرلے تو اُس کا دل پاک وصاف ہوجاتا ہے ،لیکن اگر وہ (بروقت توبہ نہ کرے بلکہ ) بدستور گناہ کیے جاتا رہے یہاں تک کہ گناہوں کی تاریکی اُس کے پورے دل پر چھا جائے ،تو یہی وہ ''رَین‘‘ہے ،جس کے بارے میں اللہ نے فرمایا: ''ہرگز نہیں!بلکہ اُن کے کرتوتوں نے اُن کے دلوں پر زنگ چڑھادیا ہے ،(المطففین :14)‘‘۔
مقبول توبہ کی تعریف قرآن نے یہ کی ہے :''اللہ تعالیٰ نے اپنے اُن (گناہ گار بندوں کی) توبہ کو قبول کرنا اپنے ذمۂ کرم پر لیا ہے ،جو نادانی میں گناہ کر بیٹھیں ،پھر (جرم کا احساس ہوتے ہی )جلد توبہ کرلیں،تو یہ وہ لوگ ہیں جن کی توبہ اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا اور بہت حکمت والا ہے،(النسائ:17)‘‘۔اس کے برعکس ناقابلِ قبول توبہ کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ''اور اُن لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہے ،جو (مسلسل )گناہ کرتے رہیں ،یہاں تک کہ جب اُن میں سے کسی کی موت سر پر آن کھڑی ہو ،تو وہ کہے:میں نے اب توبہ کی اور نہ ہی اُن لوگوں کی توبہ قبول ہے جن کی موت کفر کی حالت میں واقع ہو، یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے، (النسائ:18)‘‘۔اسی مفہوم کو رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا :''بے شک اللہ بندے کی توبہ (اُس وقت تک)قبول فرماتا ہے ،جب تک کہ اُس پر سکراتِ موت طاری نہ ہوجائے، (سنن ابن ماجہ:4253)‘‘۔
مقبول توبہ کی معراج اللہ تعالیٰ نے ان کلمات میں بیان فرمائی ہے: ''اور (رحمن کے پسندیدہ بندے)وہ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہیں کرتے اور نہ وہ کسی ایسے (بے قصور)انسان کو قتل کرتے ہیں ،جس کے ناحق قتل کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جو ایسے کام کرے گا،وہ اپنے گناہوں کی سزا پائے گا ،قیامت کے دن اُسے دُگنا عذاب دیا جائے گا اور وہ اُس میں ہمیشہ ذلت کے ساتھ مبتلا رہے گا ،سوائے اُس کے جس نے (سچی )توبہ کرلی اور ایمان لایا اور(اس کے بعد )نیک عمل کرتا رہا، تو یہ وہ لوگ ہیں جن کے گناہوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا ،بے حد رحم فرمانے والا ہے، (الفرقان: 68-70)‘‘۔ اس پر بھی علماء نے بحث کی ہے کہ اگر کسی پرگناہ کی پاداش میں قانونِ شریعت کے مطابق حد نافذ ہوجائے ،تو کیا وہ آخرت کی جواب دہی سے بچ جائے گا؟،اس کے بارے میں علمائے احناف کا موقف یہ ہے کہ اگر دنیا میں سزا پانے سے قبل اُس نے اللہ تعالیٰ کے حضور سچی توبہ کرلی ہے ،تو وہ آخرت کے مواخذے سے بچ جائے گا ،ورنہ اگر اُس نے اپنے جرم کو جرم مانا ہی نہیں، تو دنیا وی سزا پانے کے بعد بھی آخرت کے مواخذے سے نہیں بچ سکے گا ،یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور اعترافِ گناہ ،احساسِ ندامت اور توبہ ُاخروی مواخذے سے بچنے کے لیے ضروری ہے ۔مفسدین کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''سوائے اُن کے جو تمہارے قابو پانے سے پہلے توبہ کر لیں، (المائدہ:34)‘‘۔ حدیثِ پاک میں ہے: ''جس شخص نے اِن جرائم (شرک، زنا، چوری ،قتلِ ناحق )کا ارتکاب کیا ہواور اُسے دنیا میں سزا دے دی جائے ،تو وہ اُس کے لیے کفارہ ہے ،( مسلم: 1709)‘‘۔ مُسلَّمہ فقہائے احناف علامہ ابوبکر جصاص،علامہ آلوسی ، علامہ ابن نُجَیم، علامہ ابن ہُمام، علامہ خُوارزمی، علامہ زَیلعی ، علامہ شرنبلالی،علامہ ابوسعود، علامہ حصکفی ،علامہ شامی اور علامہ نظام الدین نے لکھا ہے کہ محض دنیاوی سزا سے توبہ کے بغیر حدود کا مرتکب آخرت کے مواخذے سے نہیں بچ سکتا،لیکن علامہ غلام رسول سعیدی نے باحوالہ لکھا ہے :'' علامہ محمود الحسن دیوبندی، علامہ سیدانور شاہ کشمیری ، علامہ شبیر احمد عثمانی اورمفتی محمد تقی عثمانی نے فقہائے احناف کے اس مسلّمہ موقف کے خلاف لکھا ہے ، حیرت کا مقام ہے!‘‘۔