تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     05-08-2016

پراسرار بندے!

کئی بار سوچا ہے مگرنتیجے پر نہیں پہنچ سکا کہ ڈیرہ اسمٰعیل خان جاتے ہوئے آدھی رات کو تھل کی ویرانی میں جس پولیس والے نے تحفظ کا احساس دلایا تھا ، آزاد کشمیر میں کنٹرول لائن کے قریب دشمن کی طرف چیتے کی طرح شست باندھے بے حس وحرکت کھڑے جس فوجی کو دیکھ کر اطمینان کی ایک لہر وجود میں دوڑ ی تھی، لاہور کی ایک سڑک پر ٹریفک پھنسی تو جس وارڈن نے تپتی ہوئی دوپہر میں ٹھنڈی گاڑیوں میں بیٹھے ہوؤں کے لیے راستہ بنایا تھا، اواران جاتے ہوئے پہاڑوں کے بیچوں بیچ شیریں فرہاد کی ویران قبر کے پاس کھڑے ایف سی کے جس جوان نے راستہ بتانے سے پہلے گرمی کے مارے مسافر کو پانی پیش کیا تھا، وہ نوجوان جو وزیرستان کے پہاڑوں میں ایسے مکار دشمن سے نبرد آزما ہے جو پہلے کلمہ پڑھ کر قریب آتا ہے اور قریب آکر آستین میں چھپائے خنجر سے وار کرتا ہے، کراچی میں رینجرز کا وہ جوان جو شاہین جیسی آنکھ سے کھوٹے کو کھرے سے الگ کرنے کے لیے مجسمہ بن کر سڑک پر کھڑا رہتا ہے، یہ سب جدا جداہیں یا ایک ہی وجود کا حصہ ؟ ان جوانوں کے سینے جذبات سے متلاطم رہتے ہیں 
یا ذہن کسی کمپیوٹر کی مانند ارد گرد کے حالات کا تجزیہ کرتا رہتا ہے؟ جب ان کے شانہ بشانہ لڑنے والے کسی ساتھی کی شہادت کی خبر ان تک پہنچتی ہو گی تو ان کا ردعمل کیا ہوتا ہوگا؟ ہنستے ہنستے ہراول دستے میں جانے والا جب شہید ہوکر واپس آتا ہے تو اس کے ساتھیو ں کے حلق میں آنسوؤں کا گولا پھنستا ہوگا؟ دہشت گردوں سے دوبدو لڑتے ہوئے جوان کو جب گولی لگتی ہیں تو آخر وہ کونسا جذبہ ہے جو اسے اپنی جگہ اور بندوق چھوڑنے نہیں دیتا؟ان کے پاس کیا اسرار ہے کہ بولتے ہی نہیں؟ کیا یہ دشمن صرف اسی کو سمجھتے ہیں جس کے خلاف کارروائی کا انہیں حکم ہو یا دشمن کے بارے میں ان کا اپنا بھی کوئی نقطۂ نظر ہے؟ 
وہ سوچتے تو ہوں گے مگرسپاہی مدرسے میں بلاغت کے سبق پڑھ کر میدان میں نہیں اترتے کہ فصاحت کے ساتھ اپنا نقطۂ نظر بیان کرسکیں۔ بس خاموشی سے اپنی جگہ ڈٹے رہتے ہیں، بے نام رہتے ہیں ، بے نام چلے جاتے ہیں، کبھی سینے پر زخم لیے کبھی دل پر داغ لیے! ان میں ایک آدھ ہی ایسا ہوتا ہے جو سینے کے زخم یا دل کے داغ شمار کرکے چیخ اٹھتا ہے۔ منصورالحسن بھی وہی ہے کہنے کو پولیس کا ڈی ایس پی مگر سیدھا سادا سپاہی، جو سامنے سے آنے والی گولیوں کی باڑھ سے نہیں گھبراتا مگر پیچھے سے پھینکی گئی کنکری پر چیخ اٹھتا ہے ۔ سپاہی ماتم نہیں کرتے ، رجز پڑھتے ہیں اس لیے اس کی نظم ''روزِ حسا ب‘‘ کو بھی رجز ہی سمجھنا چاہیے۔ البتہ میں نے جب یہ نظم پڑھی تو مجھے اس میں دبا دبا سا ماتم بھی محسوس ہوا، ہوسکتا ہے میرا گمان غلط ہو، آپ بھی پڑھ کر دیکھ لیںـــ:
''روزِ حساب‘‘
اے وہ کہ اندھی عقیدتوں سے ، حقیقتوں کو چھپانے والو
مہیب راتوں کی ظلمتوں میں صداقتوں کو دبانے والو
دلیلیں جھوٹی، دعاوی باطل، سراب آنکھوں کو سونپتے ہو
خدا کی مشعل کو تھام کر کیوں جہاں کو شعلوں میں جھونکتے ہو
خدا کے امرو نہی کے آگے ، خود اپنی مرضی چلانے والو
حجاز کے اس حسین دامن پہ گندے دھبوں کو مت لگاؤ
یہ پاک دھرتی خدا کا گھر ہے
خدا کے گھر میں بنامِ مذہب ، سروں کے مینار مت بناؤ
خدا کے بندوں سے چاہتوں کے عظیم رشتے مٹانے والو
یہ یاد رکھو
خدا تو بندے کے جسم میں دوڑتے لہو سے قریب تر ہے
اے دینِ حق پر مسلکوں کے دبیز پردے گرانے والو
یہ یاد رکھو
کہ دیں، تعصب کے ہر تصور کے ہر جہاں سے بلند تر ہے
اے تخت و منبر کی آڑ لے کر مہکتے گلشن جلانے والو
یہ یاد رکھو
قفس کے پہروں سے خوشبوؤں کا سفر رکاہے ، نہ رک سکے گا
ابھرتے سورج کو اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے چھپانے والو
یہ یاد رکھو
افق کی دہلیز سے ابھرتا ہو یہ سورج نہیں چھپے گا
خدائے برتر کا نام لے کر زمیں جہنم بنانے والو
یہ یادرکھو
تمہاری جنت کے جھوٹے وعدے
یہ روندی کچلی، یہ سہمی سہمی سی ایک خلقت نہیں سنے گی
یہ یادر کھو
یہیں پہ ہر سوال ہوگا، یہی پہ ہر ایک جواب ہوگا
''یہیں سے اٹھے گا شورِ محشر، یہیں پہ روزِ حساب ہوگا‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved