تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     06-08-2016

لبرل فاشزم …(قسط اول)

چند مہینوں سے اردو صحافت کے کالموں میں اچانک ''لبرل فاشزم‘‘ کی اصطلاح متعارف ہوئی اور بغیر سوچے سمجھے متعدد لکھنے والوں نے اس کا استعمال بھی شروع کر دیا۔ دو متضاد مفاہیم کی حامل کوئی اصطلاح ایجاد کر کے ''نئے پن‘‘ کا تاثر تو قائم کر لیا جاتا ہے‘ لیکن اس میں سے کوئی مفہوم نکالنا اور پھر اس مفہوم کو قارئین تک پہنچانا ‘کافی مشکل کام ہے۔ اس سے بہتر یہی ہے کہ الگ الگ اصطلاحوں کو ان کے اصل مفہوم میںاستعمال کر کے‘ بات کو الجھانے سے گریز کیا جائے اور تضادات کے ٹکرائو سے نکلنے والی چنگاریوں میںبھی تیسری جہت نمایاں ہو سکتی ہے اور جو مفہوم پیدا کرنا مقصود ہو‘ دستیاب ہو جاتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ آج کل کی تیزرفتاری میں کچھ دیر رک کر سوچ بچار کرنے کا رواج نہیں رہ گیا۔ سب کچھ روا روی میں ہوتا ہے۔سوشل میڈیا پر ذیشان ہاشم کا ایک مضمون نظر سے گزرا تو اندازہ ہوا کہ کسی نے تضادات کو سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔خیالات ذی شان کے ہیں‘ میں صرف ان کی منفرد کوشش کی طرف متوجہ ہوا اور اپنے قارئین کو بھی متوجہ کر رہا ہوں۔ ملاحظہ فرمایئے:
''ہمارے دانشورانہ مکالمہ میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم نے دور جدید کی سوشل سائنس کے تین بڑے رجحانات (لبرل ازم، سوشل ازم، اور فاشزم) کو تفصیل سے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی‘ جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان میں لبرل فاشزم کی اصطلاح یہاں کے بیشتر کالم نویس استعمال کرتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ اصطلاح معروف بھی ہو جاتی ہے‘ اس تحقیق و جستجو میں پڑے بغیر کہ اصل میں فاشزم ہے کیا؟ فاشسٹ ہونا کیونکر گالی ہے؟ گزشتہ صدی کے ابتدائی عشروں میں مغربی لبرل ازم نے‘ جس فاشزم سے جنگ لڑی دونوں کے درمیان کس بات کا نظریاتی اختلاف تھا ؟ اور یہ کہ مغرب میں‘ جس فاشزم کی لہر دوبارہ سے اٹھ رہی ہے ‘اس کا جنم کہاں سے ہوا اور وہ مغربی لبرل ازم کے لئے کیونکر اور کن بنیادوں پر خطرہ بن رہی ہے۔ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں‘ جن پر غوروفکر ‘ہمارے اہل علم و فکر کے لئے ضروری ہے‘ تب جا کر دانشورانہ مکالمہ سطحیت سے سنجیدگی کی طرف رجوع کرے گا۔
آئیے پہلے اس پربات کرتے ہیں کہ لبرل ازم اور فاشزم سے کیا مراد ہے؟ اور ان میں باہم اختلاف کیا ہے؟ اس کے بعد بقیہ پہلوؤں کو زیر بحث لانا ممکن ہو جائے گا۔فاشزم ایک ایسا سیاسی فلسفہ، تحریک یا عہد ہے جس میں قوم یا نسل یا وطن یا ملک یا وفاق کو فرد یعنی شہری سے بالاتر سمجھا جاتا ہے اور جس میں centralized (مرکزی، وفاقی ) اور جابرانہ (autocratic ) سیاسی‘ سماجی اور معاشی نظم پایا جاتا ہے۔لبرل ازم اس سے مختلف ہے۔ اس میں فرد ہر سماجی اکائی سے بالاتر ہے، قوم‘ نسل‘ وطن اور ملک فرد سے بالاتر نہیں۔ اس میں طاقت و اختیار decentralized ہوتے ہیں اور سیاسی سماجی و معاشی نظام فرد کی آزادی پر قائم ہوتا ہے۔ ریاست کے تمام ادارے شہریت کے حضور جوابدہ ہیں۔ سماجی و معاشی زندگی میں ہر فرد آزاد ہے کہ اپنے پرامن مقاصد کی جستجو کرسکے۔
مسولینی لبرل ازم کو فاشزم کا انٹی تھیسز سمجھتا تھا اس نے اپنی کتابFascism: Doctrine and Institutions میں ریاست کی اہمیت پر بہت زیادہ زور دیا ہے اور فرد کی اہمیت کو صرف اتنا تسلیم کیا ہے کہ فرد ریاست کے مفادات کا تابع ہے۔مسولینی کہتا ہے کہ یہ غیر فطری ہے کہ ریاست شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ اس کے الفاظ ہیں:''یہ اصول کہ سوسائٹی جو لوگوں سے وجود میںآتی ہے، صرف ان لوگوں کی فلاح اور ان کی آزادی کے لئے ہی قائم کی جاتی ہے۔ اگر کلاسیکل لبرل ازم سے مراد انفرادیت پسندی ہے تو فاشزم سے مراد صرف گورنمنٹ ہے۔‘‘
ہمارے قومی شاعر علامہ محمد اقبال جن کا شاہین آزاد پرواز پرندہ ہے ‘جو پہاڑوں کی چٹانوں پہ اپنی انفرادیت پسندی کا تحفظ کرتا ہے، انہوں نے مسولینی کی جو تعریف کی سو کی‘ ذرا برطانوی سوشلسٹ شاعر و ادیب برنارڈ شا کی بھی سن لیجئے جنہوں نے 1927 ء میں لکھا :''سوشلسٹ یہ جان کر مسرور ہوں گے کہ آخر کار انہیں ایک سوشلسٹ (مسولینی ) مل گیاہے‘ جو ویسے بولتا اور سوچتا ہے جیسے ایک ذمہ دار حکمران کو ہونا چاہئے ۔‘‘
جرمن فاشزم کا بانی Paul Lenschہے جو اپنی کتاب Three Years of world revolutionمیں لکھتا ہے:''سوشلزم کے لئے ضروری ہے کہ وہ انفرادیت پسندی یعنی لبرل ازم کے خلاف ایک شعوری اور پرعزم اپوزیشن کا کردار ادا کرے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ فاشزم سماج میں اخلاقی جبر کا قائل ہے۔ وہ فرد کو اپنی مفروضہ اخلاقیات کے حضور سرنگوں دیکھنا چاہتا ہے۔ اسی لئے جرمن فاشزم کا سلوگن بھی یہی تھا کہ سماجی اخلاقیات انفرادی اخلاقیات سے بالاتر ہیں۔
ہٹلر اپنی کتابMein Kampf میں لکھتا ہے: ''آرینز اپنی ذاتی صلاحیتوں سے عظیم نہیں تھے بلکہ ان کی آمادگی تھی جس کے باعث وہ اپنی ذات کو سماج سے کمتر سمجھتے تھے اور اگر اس کے لئے وقت ان سے تقاضا کرتا تو وہ قربانیوں سے نہیں گھبراتے تھے۔‘‘
فاشزم‘ فرد کا انکار کرتا ہے اس کے حقوق کا بھی، اس کی ذات کا بھی، اس کی آزادی مساوات اور انصاف کا بھی۔ وہ ایک مفروضہ‘ تصور نظریہ یا عقیدہ کی آمریت کا نام ہے جو افراد سے اپنی پرستش اور خدمت گزاری کرواتا ہے۔ اسی بات کو ہٹلر اپنی کتاب میں ان الفاظ میں لکھتا ہے: ''فرد کے حقوق ہوتے ہی نہیں، اس کے فقط فرائض ہوتے ہیں۔‘‘
فاشزم اپنی آمریت کا جواز‘ سماجی بہبود کو قرار دیتا ہے اور سماجی بہبود کے نام پر شخصی آزادی کو نفرت سے دیکھتا ہے۔ شہری کے مفادات کو‘ سماج دشمن قیاس کرتا ہے۔ اس کے نزدیک وہ تمام لوگ جو اپنے اور اپنے خاندان کے لئے محنت مشقت کرتے ہیں ‘وہ سماج دشمن ہیں، وہ ریاست کے دشمن ہیں- ہٹلر لکھتا ہے:''ہماری قوم صرف ایک سادہ اصول سے صحت یاب ہو سکتی ہے۔سماجی مفادات کو انفرادی مفادات پر ترجیح دی جائے۔‘‘
''فاشسٹ فلسفہ و نظام حکومت یہ نہیں کہ ریاست آپ کے لئے کیا کر سکتی ہے بلکہ حقیقتاً یہ ہے کہ آپ ریاست کے لئے کیا کر سکتے ہیں‘‘۔
''فاشزم کا ذکر ہو اور اس میں کارلائل کا تذکرہ نہ ہو، ایسا ناممکن ہے۔ جس طرح کلاسیکل لبرل ازم کے فلسفہ میں لاک، مل، بینتھم، والٹیر اور ایڈم سمتھ کا کردار ہے، اور کمیونزم کے فلسفہ میں مارکس کا، بالکل اسی طرح جدید فاشزم کی تبلیغ و تشریح میں کارلائل کا کردار سب سے نمایاں ہے۔ یہ اتفاق نہیں کہ اپنے انجام کے آخری لمحات میں جب ہٹلر چہار سو شکست اور ناکامی دیکھ رہا تھا،وہ اپنے بنکر میں اپنے وفاداروں کے ساتھ محصور تھا اور دشمن کی فوجیں آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ ہٹلر نے اپنے قابل اعتماد اسسٹنٹ Goebbels کو کہا کہ ان لمحات میں خود کو پرسکون رکھنا چاہتا ہے اس لئے اسے ایک کتاب پڑھنے کو دی جائے۔ اس کے اسسٹنٹ نے پوچھا کہ جناب کونسی کتاب پڑھنا چاہیں گے تو اس نے تھامس کارلائل کی کتاب ''فریڈرک اعظم کی بائیو گرافی ‘‘ طلب کی اور اسی کتاب کو سینے سے لگائے دنیا سے کوچ کر گیا۔‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved