تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     06-08-2016

انقلابی

''بیت القیام کی سولہ نمبر کی کوٹھری کی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ یہاں جتنے بھی شاعر اور ادیب اکٹھے ہوا کرتے تھے‘ وہ سب کے سب یا تو بیروزگار تھے یا ''کم روزگار‘‘ تھے۔ افلاس‘ تنگ دستی اور فاقہ مستی‘ لیکن مستی کا غلبہ نمایاں تھا۔
اکبر جے ڈی تو جی بھر کے ''کھسکا‘‘ ہوا تھا ہی‘ شدید طور پر اذیت پسند بھی تھا۔ زندہ مرغی خرید کر لاتا تھا اور اُس کی گردن کو آہستہ آہستہ دبا کر ہلاک کر کے لطف اندوز ہوتا تھا۔ یہ اُس کا اپنا بیان تھا۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے تو اُسے مرغی کو ہلاک کرتے نہیں دیکھا‘ مگر جو کچھ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا‘ وہ میری زندگی کا آخری المناک منظر بنتے بنتے رہ گیا۔ سچ پوچھئے وہ تو خیر ہوئی کہ مجیب خیرآبادی نے اچانک دیکھ لیا اور اُنہوں نے پوری قوت سے اُس کی دونوں کلائیوں کو نہایت مضبوطی سے پکڑ کر علیحدہ کر دیا۔
اُس یخ بستہ زمستانی رات کو میں بھلا کیونکر بھول سکتا ہوں‘ جب سولہ نمبر کی کوٹھری میں ہم لوگ دیواروں سے ٹیک لگائے اپنی ٹانگوں پر لحاف ڈالے مزے کی باتیں کر رہے تھے۔ اُس روز بہت زیادہ لوگ شریک محفل نہ تھے۔ اکبر جے ڈی میرے شانہ بشانہ بیٹھا تھا۔ یکایک اُس نے میری گردن کو اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کے حلقے میں لے کر میرا گلا دبانا شروع کر دیا۔ میری آنکھیں اُبل پڑیں۔ میری سانس بند ہونے لگی۔ میرے گلے سے عجیب و غریب آوازیں نکلنے لگیں۔ مجیب نے جوں ہی دیکھا‘ اُنہوں نے بے ساختہ ''ارے‘‘ کہا اور وہ اکبر پر ٹوٹ پڑے۔ اُس ہنگامی صورتحال میں مجیب کے ہاتھوں میں ہزاروں گنا زیادہ توانائی آ گئی اور اُنہوں نے اکبر کی دونوں کلائیوں کو علیحدہ کر کے میری جان بچائی۔
اکبر بے تحاشا ہانپ رہا تھا اور ساری جان سے کانپ رہا تھا۔ اُس کے دیدے ''غیر‘‘ ہو چکے تھے۔ خاصی دیر بعد میرے اوسان بجا ہوئے۔ سانس معمول پر آئی۔ میری اُبلی ہوئی آنکھیں درست ہوئیں۔ اکبر نے پوچھے بغیر اپنی اس حرکت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا۔ ''میں کیہ کراں اُس ویہلے نغمی مینوں بہوت سوہنا لگ رہیا سی‘ بس مینوں کچیچی آ گئی سی۔‘‘ (میں کیا کروں‘ اُس وقت نغمی مجھے بہت ہی پیارا لگ رہا تھا‘ مجھے کچکچاہٹ آ گئی) وہ اپنی ٹانگوں سے لحاف ہٹا کر اُٹھا اور جوتے پہن کر مزید ایک لفظ کہے بغیر کوٹھری سے باہر نکل گیا۔ اس واقعے کے بعد بھی وہ سولہ نمبر کی کوٹھری میں برابر آتا رہا۔ ہماری دوستی میں کوئی فرق نہ آیا البتہ مجیب کے رویے میں سردمہری اور نفرت نمایاں تھی۔
اکبر جے ڈی کے ساتھ دوسرا واقعہ لاہور ہوٹل کے سامنے پیش آیا۔ اُن دنوں عارف امان لاہور ہوٹل میں رہا کرتا تھا۔ وہ بھی ٹھٹھرتی ہوئی زمستانی رات تھی۔ میں پیام شاہ جہان پوری اور اکبر جے ڈی کے ہمراہ امان سے ملنے لاہور ہوٹل گیا تھا۔ تقریباً آدھی رات ہو چکی تھی۔ ہم تینوں عارف امان سے رخصت ہو کر باتوں میں محو لاہور ہوٹل کے سامنے میکلوڈ روڈ پر آ کر کھڑے ہو گئے اور ہماری باتوں کا سلسلہ جاری تھا کہ اثنائے گفتگو میں اکبر جے ڈی نے اپنے بدبودار دریدہ دہن سے گستاخی کا ارتکاب کیا۔ میں نے آئو دیکھا نہ تائو‘ پوری قوت سے اُس کے رخسار پر زناٹے دار تھپڑ رسید کیا اور میں مغضوب الغصب ہو کر ہانپنے لگا اور میں بار بار ایک ہی فقرہ دہرا رہا تھا کہ میں تجھے جان سے مار ڈالوں گا۔ میں اُس کی مزید پٹائی کرنے کے لیے آگے بڑھ تھا مگر پیام شاہ جہان پوری مجھے مضبوطی سے اپنی گرفت میں لیے ہوئے تھے۔ تھپڑ کی آواز اور میرے گلے سے نکلی ہوئی دہاڑ 
سُن کر لاہور ہوٹل کے ویٹرز باہر نکل آئے۔ اکبر جے ڈی خاموشی سے کھڑا اپنا گال سہلاتا رہا‘ اُس نے صرف یہ کہا : ''You Are Reactionary'' چند لمحوں تک وہ یونہی ساکت و صامت کھڑا رہا اور میں ساری جان سے کانپتا رہا۔ پھر وہ اپنے راستے پر چل دیا اور پیام شاہ جہان پوری مجھے بیت القیام تک پہنچانے آئے۔
انقلاب کا سورج اور سولہ نمبر کی کوٹھڑی:بیت القیام کی سولہ نمبر کی کوٹھری مجھے بہت یاد آتی ہے۔ اس کوٹھری میں مجیب خیرآبادی اور اسیر ملتانی رہا کرتے تھے۔ انہی دو ترقی پسند شاعروں کے دم قدم سے یہ کوٹھری شاعروں اور ادیبوں سے آباد رہا کرتی تھی۔
شعراء اور ادباء بالعموم ''مہر مبین‘‘ کے غروب ہونے کے بعد اس کوٹھری میں طلوع ہوتے تھے۔ اُن میں ترقی پسند بھی تھے اور غیر ترقی پسند بھی تھے۔ یہ ایک نہایت چھوٹی سی کوٹھری تھی۔ اس میں دو پلنگ بچھے تھے۔ ایک مجیب خیرآبادی کا اور دوسرا اسیر ملتانی کا۔ جاڑوں کے موسم میں رات کے وقت احباب آتے تھے اور لحافوں میں دبک جاتے تھے۔ عارف امان‘ رشید ارشد‘ پیام شاہ جہان پوری اور ہاں خوب یاد آیا...ایک نہایت گورے رنگ اور فرنگیانہ آنکھوں والا نوجوان آیا کرتا تھا ''اکبر جے ڈی۔‘‘ جے ڈی ''جلال الدین‘‘ کا مخفف تھا‘ جو اُس کے والد کا نام تھا۔ اکبر میرے اسلامیہ کالج کے زمانے کا دوست تھا اور جی بھر کے ''کھسکا‘‘ ہوا تھا۔ اُس کا علم و ادب اور شعر و شاعری سے مطلق کوئی جائز یا ناجائز تعلق نہ تھا۔ یہ اُس حلقے میں میرے وسیلے سے شامل ہوا تھا۔ ظہیر کاشمیری اُس کوٹھری میں بکثرت آیا کرتے تھے اور گھنٹوں دیوار سے ٹیک لگا کر اپنے اوپر لحاف ڈال کر اُس محفل پر چھائے رہا کرتے تھے۔ وہ اپنے دائیں ہاتھ کی تین انگلیوں اور انگوٹھے کو جوڑ کر انگشت اشارہ اٹھا کر کہا کرتے تھے۔ ''میرے دوستو! یاد رکھو اشتراکی انقلاب کا سورج اسی سولہ نمبر کی کوٹھری سے طلوع ہو گا۔‘‘ وہ اپنے کفر و الحاد کی انتہا کو پہنچے ہوئے تھے۔ نقل کفر‘ کفر نہ باشد‘ وہ اپنی انگشت اشارہ بلند کر کے نہایت اعتماد اور کامل یقین کے ساتھ کہتے تھے :
کوئی تقدیر کوئی خالق تقدیر نہیں
آدمی آپ ہے خود اپنے مقدر کا جواب
آسمانوں میں اندھیروں کے سوا کچھ بھی نہیں
آسمانوں سے اترتی ہے نبوت نہ کتاب 
توحید و رسالت سے ببانگ دہل انکار کرنے والا یہ اشتراکی شاعر کیسا تھا؟ زعفرانی رنگ کی لمبی لمبی زلفیں‘ نہایت گورا رنگ‘ آنکھیں حلقوں میں نمایاں طور پر دھنسی ہوئی‘ ابھری ہوئی بلند و بالا ناک اتنی پتلی اور مضبوط کہ گمان گزرتا تھا کہ اس ناک سے تو پھل اور سبزیاں کاٹی جا سکتی ہیں اور پھر اُن کی زعفرانی رنگ کی داڑھی جس کی تراش خراش پر وہ خاصا وقت صرف کرتے ہوں گے۔ وہ پتلی پتلی باریک باریک داڑھی جو اُن کی قلموں سے ہوتی ہوئی کلّوں سے گزرتی ہوئی‘ ٹھڈی پر نوکیلی ہو جاتی تھی۔ اکہر ابدن‘ خاصا دراز قد‘ آواز میں للکار اور سر سے پائوں تک وثوق‘ اعتماد اور یقین کی کیفیت میں ''مبتلا‘‘ ملاحظہ فرمائیے وہ انگشت اشارہ اُٹھا کر کہہ رہے ہیں ؎
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے
وہ اُن دنوں بیڈن روڈ پر رہا کرتے تھے۔ بیت القیام اُن کے گھر سے کچھ زیادہ دور نہ تھا۔ پیدل چل کر آ جایا کرتے تھے۔ اچھی خاصی عمر ہو چکی تھی‘ لیکن غیر شادی شدہ تھے۔ سردیوں کی ٹھٹھرتی ہوئی راتوں میں‘ رات گئے تک سولہ نمبر کی کوٹھری میں اشتراکیت کا درس دیتے دیتے کبھی پکے راگ اور کبھی ''ڈھولک گیت‘‘ گانے لگتے تھے۔ اس وقت میں اُس عہد رفتہ کے زمستانی موسم کو یاد کرتا ہوں تو جو منظر میری یادداشت کے نہاں خانے سے ابھرتا ہے تو وہ یہ ہے کہ سولہ نمبر کی کوٹھری میں تمام احباب لحافوں میں دبکے ہوئے ہیں اور ظہیر کاشمیری گا رہے ہیں۔
دیّا کہاں گئے برج کے بسیّا
اور ہاں ذرا سنیئے اب وہ کچھ اور ہی گیت گا رہے ہیں‘ ملاحظہ فرمائیے:
نمبوا ہیں سرکاری
ہاں ہاں ہاں
نمبوا ہیں سرکاری
ارے نمبوا ہیں سرکاری
باہر کھڑے مہاراج 
اندر ہیں درباری
نمبوا ہیں سرکاری
ارے نمبوا ہیں سرکاری
(ابوالحسن نغمی کی خود نوشت ''داستان جاری ہے‘‘ سے دو اقتباسات) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved