تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     06-08-2016

پاکستان‘امریکی الیکشن کا اہم موضوع

مصطفی کمال پاشا کا موازنہ اکثر قائد اعظم محمد علی جناح سے کیا جاتا ہے اور اس کام میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں ہی شریک نظر آتی ہیں۔اگرچہ دونوں رہنماؤں نے اپنی قوموں کو ذلت کے جنجال سے نکالا مگر ان کے کام کی نوعیت مختلف تھی۔کمال پاشا نے 1923ء میں خلافت عثمانیہ کو منسوخ کیا اور یورپ کے ‘‘مرد ِبیمار'' کو سنبھالا دیا اور جناح نے وقت آنے پر بر صغیر میں مسلم اکثریت کے علاقوں کو جوڑ کر ایک قوم مرتب کی۔امریکن ڈپلومیٹک ہسٹری کی صدر پروفیسر بیٹی انٹر برگر کہا کرتی تھیں کہ اگر وہ پاکستان کے علاوہ کسی اور مطالبے پر زور دیتے تو برٹش انڈین آرمی کے مسلمان سپاہی بغاوت کر دیتے ۔ترکیہ میں پاشا کے عزائم کی مخالفت کرنے والوں کی کمی نہ تھی اور ہندوستان میں ایسے مسلمان بکثرت تھے جو غیر مسلموں کی ہم نوائی میں جناح کے نصب العین پر تنقید کرتے تھے ۔ایک بار جب ترکی میں بظاہر استحکام اور پاکستان میں خلفشار تھا ۔مجھے رنجیدہ پا کر ایک ترک صحافی نے تقسیم چوک میں جہاں اس کا دفتر تھا‘ کہا تھا تمہارے مسائل‘ ہم سے زیادہ ہیں اس لئے کہ تم سامراج کے غلام رہے ہو اور ہم نے ایسا دور کبھی نہیں دیکھا۔ترکیہ میں حالیہ واقعات سن کر یاد آیا کہ عثمانی خلافت بھی تو ایک قسم کا سامراج ہی تھا۔ صدر رجب طیب اردوان کے آدمیوں نے پریس کانفرنس کی تو اس کی ٹیلی وژن کوریج میں اتا ترک کی تصویر نمایاں تھی اور جب پاکستان کی سیاسی جماعتیں اخبار نویسوں سے بات کرتی ہیں تو ان میں سے اکثر قائداعظم کا پورٹریٹ آویزاں کرتی ہیں خواہ وہ اپنے ممدوحوں کے تمام خیالات سے اتفاق کرتی ہوں یا نہ کرتی ہوں۔ اردوان نے 70ہزار افراد کو سرکاری ملازمت سے محروم کرکے عارضی طور پر سیاسی اپوزیشن کچل دی ہے ۔ وہ فوج اور اس کے سربراہ کو اپنے ماتحت کرنے کے لئے پارلیمنٹ سے ایک بل منظور کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ پاکستان میں سابق حکومت کے دور میں ‘‘ میمو گیٹ '' کہلانے والی ایک کوشش ہو بھی چکی ہے ۔ 
استنبول کے پرانے شہر کے شما لی سرے پر تین قبریں ہیں۔ان میں مرکزی مرقد عدنان میندریس کا ہے اور ان کے دائیں بائیں ان کے وزرا ئے خارجہ اور خزانہ مدفون ہیں۔ان تینوں کو 1961ء میں پھانسی دی گئی تھی۔یہ مقبرہ طیب اردوان نے بنوایا ہے۔ اردوان اپنا انجام وزیر اعظم میندریس سے ملاتے ہیں۔جب ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کا وقت قریب آیا تو دنیا بھر سے ان کی جاں بخشی کی اپیلیں آئیں ۔ایک اپیل ترک حکومت کی جانب سے تھی۔ سیکرٹری روئداد خان کا بیان ہے کہ جنرل ضیاالحق نے سب اپیلیں ردی کی ٹوکری میں ڈال دیں۔ترکی اور پاکستان کا مسئلہ ایک ہے۔سیاستدان جب کمزور ہوتے تو فوج سے اقتدار سنبھالنے کی بات کرتے ہیں۔وہ فوج کو ایک قومی ادارے سے جو سول کنٹرول میں ہوتا ہے‘ زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔دونوں ملکوں کے لوگ عدلیہ کا احترام کرتے ہیں بشرطیکہ فیصلہ ان کے حق میں ہو۔ وہ سیاست کو خدمت کی بجائے تجارت سمجھتے ہیں اور اقتدار میں آتے ہی اسے طول دینے کی تدبیریں شروع کر دیتے ہیں۔ 
ترکی میں ایک ماہ قبل جو واقعات پیش آئے پاکستان میں حوصلہ افزائی کا باعث بنے ہیں مگر انہیں جمہوریت کی فتح سے تعبیر نہیں کیاجا سکتا۔جمہوریت میں سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے ۔ انقرہ نے فتح اللہ گولن کو ان واقعات کا قصور وار قرار دیا ہے جو پاکستان سمیت تقریباً ایک سو ملکوں میں ایک ہزار سے زیادہ سکول اور دوسرے خیراتی ادارے چلاتے ہیں اور دس سال پہلے ترکی سے جلا وطنی اختیار کرنے کے بعد پینسلوینیا میں رہتے ہیں۔ محکمہ قانون ان 85 ڈبوں کا جائزہ لے رہا جن میں بقول ترک حکومت یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح گولن کے آدمی ترکیہ کی عدلیہ' انتظامیہ' تعلیم' پولیس ' فوج غرضیکہ معا شرے کے ہر طبقے میں سرایت کر گئے ۔ ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں ٹیلی وژن کے کچھ نیوز چینلز پر پابندیاں عائد کرنے میں وزیر اعظم کا ہاتھ نہ ہو مگر یہ ایک حقیقت ہے جو بار بار دہرائی جا رہی ہے ۔امریکہ میں ان قدغنوں کا احساس نہیں ہوتا۔اردو نشریات مسلسل جاری ہیں مگر نشر کاروں کے وا ویلا اور ان کے ہمدردوں کے تائیدی بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ ناظرین کے ایک حصے کو معلومات سے محروم کر دیا گیا ہے ۔صاف ظاہر ہے کہ یہ کام صرف کیبل آپریٹرز کا نہیں۔معاشرے میں ایسا با اثر عنصر موجود ہے جسے ان نشریات کا مافیا پسند نہیں۔وہ کارگر ہوتے ہیں اور یہیں جمہوریت کا سوال ابھرتا ہے ۔جمہوریت کا دوسرا نام احتساب ہے اور قانون کے سامنے سب شہری برابر ہوتے ہیں۔ اس کی نگہداشت آزاد پریس ہی کرتا ہے ۔
جمہوریت اور انقلاب کی منزل ایک ہے مگر طریق کار جدا جدا۔جب قائد اعظم نے مسلم لیگ میں قدم رکھا بر صغیر میں ریلوں اور نہروں کا جال بچھا ہوا تھا اور ڈاک کا نظام مستحکم تھا۔جناح نے جمہوریت کی راہ اختیار کی‘ عورتوں کی نجات کو نصب العین ٹھہرایا اور بیوی نہ ہونے کی وجہ سے بہن کو جدوجہد میں ساتھ ملایااورایک جدید ریاست معرض وجود میں آئی۔اس وقت بھی کئی سیاسی جماعتیں جن میں مسلم تنظیمیں بھی شامل تھیں آل انڈیا مسلم لیگ کے بالمقابل صف آرا تھیں ۔ کمال اتا ترک نے انقلاب کا راستہ منتخب کیا‘خواتین کی آزادی ‘ مدرسوں کے استیصال اور مغربی کلچر رائج کیا اور تمام ہمسایہ ملکوں کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔فرق یہ تھا کہ قائداعظم‘پاکستان بنتے ہی چل بسے مگر اتا ترک‘ جمہوریہ ترکی کے قیام کے بعد بھی پندرہ سال زندہ رہے اور ملک میں کوئی اور سیاسی جماعت قائم نہیں ہو نے دی جب کہ پا کستانی میں ایسی تنظیموں کی تعداد ایک سو کے لگ بھگ ہے ۔ اب لیڈروں کو اجتماع کے لئے ڈی جے اور ڈرون فوٹو گرافی کا بھی اہتمام کرنا ہوتا ہے ۔ 
امریکہ کے تاثر کے مطابق پارلیمانی کی جگہ صدارتی نظام اس لئے لا یا گیا تاکہ صدر اردوان ملک میں مذہبی حکومت بنا سکیں۔سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل (Votel)نے ایک سکیورٹی کانفرنس میں کہا تھا کہ وہ پندرہ جولائی کی انقلابی کوشش 
(Coup attempt) کے اثرات سے فکر مند ہیں۔اگلے دن صدر اردوان نے جواب دیا۔ سرکاری ملازمین کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے ۔تاہم اسی دن سے سرکاری محکموں میں تطہیر کا عمل شروع ہو گیا اور بہت سے مغربی حکام اور انسانی حقوق کے پاسدار کہنے لگے کہ ترک حکومت حد سے تجاوز کر رہی ہے ۔اگرچہ ترکی سے ابو بکر بغدادی کی خلافت پر امریکی ہوائی حملے ہفتہ عشرہ معطل رہنے کے بعد پھر بحال ہو گئے ہیں؛ تاہم محکمہ دفاع‘ ایک سینئر فوجی افسر کے بیان سے پیدا ہونے والی بد مزگی دور کرنے کی کوشش میں ہے ۔ ملک کے سب سے بڑے فوجی عہدیدار جنرل جوزف ڈنفرڈ جونیر نے ترکی کا'' خیر سگالی ‘‘ دورہ کیا اور وہ بغاوت کی مذمت کر رہے ہیں۔
جہاں تک نومبر کے انتخابات کا تعلق ہے‘ امریکہ کی دو بڑی پارٹیوں کے کنونشنوں کے بعدپاکستان ایک بڑا انتخابی موضوع بن گیاہے ۔اس لئے نہیں کہ سب سے زیادہ دہشت گرد اس نے مہیا کئے بلکہ اس لئے کہ امریکہ کی حفاظت کرتے ہوئے عراق میں جان دینے والا بھی ایک پاکستانی تھا اور دو سال کی عمر میں شارلٹس ول منتقل ہوا تھا۔(کیپٹن ہمایوں کی قربانی (2004) کی داستان آپ ان کالموں میں پڑھ چکے ہیں ) ہمایوں کے والد خضر خان نے جو وکیل ہیں اور ورجینیا میں قانون کی پریکٹس کرتے ہیں ڈیمو کر یٹک کنونشن میں تقریر کی جو ری پبلیکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو بُری لگی اور انہوں نے اس کا جواب دیا۔اخبارات اس سوال و جواب سے بھرے ہوئے ہیں اور واشنگٹن پوسٹ میں غزالہ خان کاایک مضمون شائع ہوا جس میں وہ کہتی ہیں کہ عراق کی جنگ کی سنگینی کا اندازہ انہیں پاکستان میں ہوا جب وہ ہائی سکول میں پڑھتی تھیں اور 1965 ء کی جنگ چھڑ گئی تھی۔غزالہ‘ صحافتی فوٹوگرافی کے تابناک ستارے خواجہ قیوم مرحوم اور ادب کے شاہ سوار مشفق خواجہ مرحوم کی بہن ہیں۔ان کی ایک بہن ڈاکٹر سکندر جہاں طوری تھیں جو ٹمپل روڈ لاہور میں زچہ و بچہ کا ایک ہسپتال چلاتی تھیں۔میرے تینوں بچے اور ہمایوں اسی کلینک میں پیدا ہوئے ۔ چودہ ماہ پہلے ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز دہشت گردی کے پیش نظر امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی کی تجویز سے کیا تھا۔ان کی مخالفت سابق صدارتی امیدوار جان مکین اورکئی دوسرے ری پبلکن لیڈر بھی کر رہے ہیں۔جب سے خضر خان کی تقریر اور ان کی اہلیہ غزالہ کا مضمون شائع ہوا ہے، قومی قبرستان آرلنگٹن نیشنل سیمی ٹری میں کیپٹن ہمایوں ثاقب مظفر خان کی قبر زیارت گاہ بن گئی ہے اور اس کے کتبے پر چاند تارے کی تصویر انہیں امتیازی حیثیت عطا کر رہی ہے ۔کینیڈی بھائیوں کی قبریں پاس ہی ہیں جن پر ہر وقت ایک شعلہ جوالہ بھڑکتا دکھائی دیتا ہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved