ایک طرف عوام کے حالات زندگی تنگ ہوتے چلے جا رہے ہیں تو دوسری طرف حکمران طبقات اور ان کے سامراجی آقا ئوں کی جانب سے موجودہ سرمایہ داروں کی حکومت کی تعریفیں بھی بڑھ رہی ہیں۔ افراط زر کو قابو کرنے کے تمام تر دعوئوں کے باوجود اس کی شرح اس سال 5.5فیصد سے تجاوز کر گئی ہے اور روز مرہ کی اشیائے خور و نوش کی قیمتیں اس سرکاری شرح سے کہیں زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ جولائی میں افراط زر کی شرح میں اضافہ بنیادی طور پر اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہی ریکارڈ کیا گیا ہے۔ فوڈ انفلیشن یا خوراک کی قیمتوں میں اضافے کی شرح جون میں 2.3 فیصد سے تیزی سے بڑھ کر 4.7 فیصد تک پہنچ گئی جس سے عوام کی جیبوں پر بوجھ بھی مزید بڑھ گیا۔ پچھلے مہینے ٹماٹر کی قیمت میں 92 فیصد ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آیا اور تازہ سبزیوں کی قیمتوں میں 30 فیصد اضافہ ہوا۔ اسی طرح آلو کی قیمت 18 فیصد بڑھ گئی۔ گیس کی قیمت میں سالانہ بنیادوں پر10فیصد جبکہ پانی کی ترسیل کی قیمتوں میں 9 فیصد کا اضافہ ہوا۔یوں غریب عوام کو اپنی آمدن کا بڑا حصہ خوراک پر صرف کرنا پڑتا ہے جبکہ امرا کو اس مہنگائی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود حکومت نے اس پر ٹیکس در ٹیکس لگا کر ہوشربا منافع کمایا ہے جس سے تیل کی قیمتوں میں اس کمی کا فائدہ عام لوگوں تک نہیں پہنچ پایا ہے۔
مجموعی معاشی صورت حال اتنی خوش آئند نہیں ہے جیسا کہ حکومت اور ان کے معاشی ماہرین پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرضوں اور ادائیگیوں کے توازن کی کیفیت نہایت دگرگوں ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق ، ''پچھلے مالی سال میں وفاقی حکومت نے 2.1ہزار ارب روپے کے قرضے لیے جو روزانہ اوسطاً 5.7اَرب روپے بنتے ہیں۔ یہ اب تک کسی بھی حکومت کی جانب سے لیے گئے قرضوں کی سب سے بڑی مقدار ہے۔ حکومتی قرضے مالی سال 2015-16ء کے اختتام پر 16.96 ہزار ارب سے بڑھ کر 19.1 ہزار روپے ہوگئے ہیں۔‘‘
ایک طرف ریاستی قرضے لے کر ان کا بوجھ عوام پر ڈالا جا رہا ہے اور ساتھ ہی سرمایہ داروں پر سے قرضوں کا بوجھ اتارا جا رہا ہے۔پچھلے تیس سالوں میں سینکڑوں نجی کمپنیوں نے اپنے قرضے (جن کی مقدار پچاس ملین روپے سے زیادہ ہے) معاف کرائے ہیں جبکہ موجودہ حکومت کے صرف پچھلے تین سالوں میں بینکوں نے 280اَرب روپے کے قرضے سرمایہ داروں کومعاف کیے ہیں۔سرمایہ دارانہ نظام پر مبنی حکومتوں ، چاہے جمہوری ہوں یا فوجی، نے ہمیشہ حکمران طبقات کے مفادات کا تحفظ ہی کیا ہے اور جارحانہ نیولبرل معاشی پالیسیوں کو لاگو کرکے اس ملک کے غریب محنت کشوں اور غریبوں کو سماجی اور معاشی طور پر کچلتی رہی ہیں۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے سینیٹ میں ایک سوال کے جواب میں تحریری طور پر یہ اقرار کیا کہ پچھلے تیس سالوں میں کم و بیش چار سو کارپوریٹ کمپنیوں نے اپنے قرضے معاف کرائے ہیں۔ یہ سرمایہ دار اپنی معاشی ناکامیوں کے پیش نظر مزید بدعنوان ہوگئے ہیں اور اپنی شرح منافع اور لوٹ مار میں اضافے کے لئے ریاست اور سیاسی طاقت کو استعمال کر رہے ہیں۔ سرمائے کی اس سیاست کے کمیشن ایجنٹ سیاستدانوں کی سامراجی مفادات کی اطاعت اور بیرونی کارپوریٹ سرمائے کی کاسہ لیسی کا اندازہ نجکاری سے ہوتا ہے۔ اسی طرح لوٹ مارکے لئے ہر حکومت کی پالیسیوں نے راہ ہموار کی ہے۔
درحقیقت یہاں کے مقامی سرمایہ دار طبقات یا 'قومی بورژوازی‘ کی معیشت کو ترقی دینے اور پاکستان کو ایک جدید صنعتی ملک بنانے میں تاریخی ناکامی سے نہ صرف سیاست اور ریاست بلکہ معیشت اور پورا سماج ہی کالے دھن، بدعنوانی اور اندھی لوٹ مار کی آماجگاہ بن کے رہ گیا ہے۔ نام نہاد' غیر رسمی‘ یا کالی معیشت 1978ء میں سیاہ آمریت کے آغاز کے وقت کل معیشت کے پانچ فیصد سے بڑھ کر اس وقت مجموعی رسمی معیشت کے حجم کو چھو رہی ہے۔ یہ کالی معیشت درحقیقت پاکستان کی معیشت میں ایک ایسے کینسر کی مانند ہے جس کا حجم اس جسم سے بھی بڑا ہو چکا ہے جس پر یہ پل رہا ہے۔اس کالے سرمائے کا اہم ترین شعبہ رئیل سٹیٹ یا پراپرٹی کا کاروبار ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ معاشی پالیسی سازوں نے اس کینسر کو ختم کرنے کا خیال ہی چھوڑدیا ہے اور اب انتہائی مضحکہ خیز انداز میں اس کالی معیشت کو رسمی معیشت میں ضم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ رسمی معیشت تو کم و بیش دیوالیہ ہو کر ریاست اور سماج کو چلانے میں ناکام ہو چکی ہے۔ پراپرٹی بزنس کے آقائوں کو دیوہیکل رعایات دی جا رہی ہیں تاکہ اس شعبے سے منسلک نو اَرب ڈالر سے زائد کالے سرمائے کے ذریعے سفید معیشت کو کچھ سہارا دیا جا سکے۔ لیکن تمام تر کوشش کی باوجود بھی زیادہ تر کالی معیشت کسی بھی طرح کے حساب کتاب اور ریاستی کنٹرول میں آنے والی نہیں۔
لوٹ مار اور طبقاتی استحصال کے یہ سلسلے جاری ہیں اور کروڑوں محنت کش اس روزافزوں معاشی بدحالی اور ذلت سے دوچار ہیں۔ امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتے جارہے ہیں۔مڈل کلاس کا معیار زندگی گراوٹ کا شکار ہے اور بالخصوص ملازمت پیشہ درمیانہ طبقہ اب صحیح معنوںمیں اپنی بقا کے لئے ہاتھ پیر مار رہا ہے ۔بنیادی صحت اور تعلیم کو نجی شعبے کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے، ریاست ان ذمہ داریوں سے بالکل ہی دستبردار ہونا چاہتی ہے۔ اس نجکاری کا مطلب یہ ہے کہ آبادی کے ایک وسیع حصے کو سرکاری شعبے میں جو انتہائی نحیف اور برائے نام سی سہولیات بھی میسر ہیں ، وہ ان سے چھینی جا رہی ہیں۔یہ اقدامات دراصل انسانی تہذیب کے خلاف جرائم ہیں۔
سطح کے اوپر ایک سکوت کے برعکس اسی سماج میں سطح کے نیچے ایک بغاوت پنپ رہی ہے۔ آخری تجزیے میں ان حکمرانوں کی آپسی سیاسی رسہ کشی اور نورا کشتی ایک حقیقی انقلابی تحریک کو روکنے اور بھٹکانے کی کوشش ہے۔اسی طرح نام نہاد سول سوسائٹی کا نان ایشوز کے گرد شورشرابہ دراصل حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کی واردات ہوتی ہے جو اس سماج میں کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنائے ہوئے ہیں۔ ایسی جعلی تحریکیں اور نام نہاد دھرنے درحقیقت اس استحصالی نظام اور اس کے حکمرانوں کو سہارا ہی دیتے ہیں۔ پاکستان کا حکمران طبقہ پچھلی سات دہائیوں میں اپنا کوئی تاریخی فریضہ ادا نہیں کر پایا ہے، الٹا ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام کے مسائل میں اضافہ ہی ہوا ہے۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ حکمران طبقات اور ان کا نظام، جو پاکستانی سماج کو نوچ رہے ہیں، اگر یہ چاہیں بھی تو کوئی بنیادی مسئلہ حل نہیں کرسکتے۔ اس نظام کو ٹھیک کرنے اور اس میں اصلاحات کرنے کی غلط فہمیاں پیدا کرنا محنت کش طبقے اور غریب عوام کے خلاف ایک جرم ہے۔ یہ متروک سرمایہ دارانہ نظام اپنی بقا کے لیے ہر گزرتے دن کے ساتھ وحشیانہ طبقاتی جبر میں اضافہ ہی کر سکتا ہے۔ محنت کش طبقات اور پورے انسانی سماج کی بقا اس نظام کو اکھاڑ پھینکنے سے مشروط ہے۔ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب ہی موجودہ نسل کو درپیش تاریخی فرائض کی تکمیل کرسکتا ہے۔