تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     07-08-2016

عراق ، امریکہ جنگ : نفسیاتی محاذ کا لافانی کردار

ہٹلر کا گوئبلز ایک گالی بن گیا ۔ اس کا یہ فقرہ جھوٹے پراپیگنڈہ بازوں کے لئے مثال بن گیا تھا ، ''جھوٹ بولو اور مسلسل بولو ، یہاںتک کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگیں‘‘۔ لیکن صدر صدام حسین کے سعید الصحاف کا معاملہ مختلف تھا ۔
2003ء کے اوائل میں عراق پر امریکی حملے کے وقت ہم جدہ میں ایک اخباری ادارے سے وابستہ تھے ۔ یوں تو ایک دنیا کی نظریں بغداد پر مرکوز تھیں لیکن دنیائے عرب کے لئے اس جنگ کا ایک ایک لمحہ خصوصی ''دلچسپی‘‘کا حامل تھا ۔ ایسے میں عراق کا وزیراطلاعات سعیدالصحاف توجہ کا مرکز بن گیا ۔ وہ ٹی وی سکرین پر آتا اور ناظرین سب کچھ چھوڑچھاڑ کر اس کی طرف متوجہ ہو جاتے ۔ 
20مارچ 2003ء کو جب دنیا بھر کے ٹی وی چینل کویت کے صحرا میں امریکی ٹینکوں کی عراق کی جانب پیش قدمی کے مناظر دکھا رہے تھے ، وقفے وقفے کے ساتھ ایک اور منظر بھی ابھرتا ۔ ایک شخص انتہائی حقارت کے ساتھ امریکی (اور برطانوی ) دعوئوں کا مذاق اڑاتے ہوئے ، عراق اور اہلِ عراق کے ناقابل ِ شکست ہونے کا اعلان کر رہا تھا ۔ اس پر اعتماد شخص نے اپنی باڈی لینگویج سے ، اپنے طنزیہ جملوں اور شگفتہ تبصروں سے 19روز تک نہ صرف دشمن کو تگنی کا ناچ نچائے رکھا بلکہ اہلِ عراق اور اُن سے ہمدردی رکھنے والے کروڑوں انسانوں کے حوصلے بھی پست نہ ہونے دیئے ۔ اس نے وحشیانہ طاقت میں بد مست سپر پاور کے لئے لغات سے ایسے ایسے الفاظ استعمال کئے کہ اس کے غرور اور تکبر کا طلسم پاش پاش ہو گیا ۔وائٹ ہائوس اور پنٹاگان کے کج کلاہوں کی رعونت کا مضحکہ اُڑانے اور انھیں ایک دنیا کے لئے مذاق بنا کر رکھ دینے والا یہ شخص عراق کا وزیراطلاعات تھا ۔ اس تنہا شخص نے 19روز تک اپنے محاذ پر جو کارنامہ انجام دیا ، عراق کی عسکری فورسز اس کا عشرِعشیربھی کر دکھاتیں تو امریکہ کے لئے بغداد کی فتح بہت مہنگاسودا بن جاتی۔ 
سعیدالصحاف ، صدرصدام کی کچن کیبنٹ میں شمار نہیں ہوتا تھا ۔ بعض دورکی کوڑی لانے والے اس کا سبب یہ بتاتے کہ وہ سُنّی العقیدہ تھا ، نہ اس کا تعلق صدام کے آبائی شہر تکریت سے تھا بلکہ درونِ خانہ کی خبر رکھنے والے بعض حضرات کے بقول ، صدام کے چہیتے صاحبزادے عدّی سے اس کے تعلقات بھی زیادہ خوشگوار نہیں تھے ۔
اس نے کربلاکے قریب الہلاکے ایک شیعہ گھرانے میں آنکھ کھولی ۔ یونیورسٹی سے صحافت کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد انگلش ٹیچر کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا ۔ سیاست کا ذوق اسے 1963ء میں بعث پارٹی میں لے گیا ۔ بعث حکومت میں عراقی براڈکاسٹنگ کارپوریشن کی سربراہی کے بعد اس نے برما، سویڈن، ہندوستان اور اقوامِ متحدہ میں عراقی سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ۔ 1990-91ء کی خلیجی جنگ کے بعد تقریباََ دس سال تک عراق کا وزیرِ خارجہ رہا ۔ 2001ء میں اسے وزارت خارجہ سے سبکدوش کر کے وزیر اطلاعات کی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں ۔ تب کسے خبر تھی کہ دو سال بعد قدرت اس سے کیا کام لینے والی تھی ۔
یوں تو جنگیں کبھی بھی محض اسلحہ کے زور پر نہیں لڑی جاتیں تھیں ، ان میں دشمن کے خلاف نفسیاتی واعصابی حربے اور پراپیگنڈے کا محاذ بھی ہمیشہ بہت اہم رہا تھا ۔ اس جنگ میں عسکری میدان کے علاوہ پراپیگنڈے کے محاذ پر بھی جارح اور جارحیت کا نشانہ بننے والے کے ذرائع اور وسائل کا کوئی موازنہ ہی نہ تھا لیکن سعیدالصحاف نے اپنی غیر معمولی صلاحیتوں سے پراپیگنڈے کے محاذ پر دشمن کے چھکے چھڑا دیئے ۔جنگ کے ابتدائی دنوں میں اہل عراق کی سرفروشانہ مزاحمت نے صدر بش اور اس کے وزیر دفاع رمزفیلڈ کو جس جھنجھلاہٹ سے دوچار کر دیا تھا وہ ان کی پریس بریفنگز میں چھپائے نہ چھپتی تھی ۔ اور ادھر سعیدالصحاف کی اعتماد اور جذبے سے معمور پریس بریفنگز تھیں جو کبھی کسی ہوٹل کی چھت پر ہوتیں اور کبھی کھلے آسمان تلے شارع عام پر.....اور ان میں وہ دشمن کے دعوئوں کی تردید و تکذیب کے علاوہ ان کے لئے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسے الفاظ استعمال کرتا جو ٹھیک نشانے پر بیٹھتے ۔ اس کی عزائم خیز اور ولولہ انگیز گفتگو کے سامنے ''اتحادیوں ‘‘کی پریس بریفنگز بے جان اور بے روح محسوس ہوتیں ۔ وہ حملہ آوروں کے لئے ''اوغاد‘‘(بدمعاش)، ''مرتزقہ ‘‘(کرائے کے قاتل )، ''علوج‘‘(جانوروں کا ریوڑ /بے ایمان جنگجو )اور ''اذناب‘‘(جانوروں کی دُم )کے الفاظ استعمال کرتا ۔ صدر بش کو بدمعاشوں کے بین الاقوامی گرو ہ کا سرغنہ قرار دیتا جو اپنے وزیر دفاع رمزفلڈ سمیت اس قابل تھا کہ اس کی جوتوں سے مرمت کی جاتی ۔
معاملہ یہ نہیں تھا کہ یو نیورسٹی کا فارغ التحصیل اعلیٰ تعلیم یافتہ سعید الصحاف''بدتمیزی‘‘پر اُتر آیا تھا بلکہ وہ یہ نکتہ سمجھتا تھا کہ حد درجہ متکبر اور مغرور لوگوں کا رعب اور گھمنڈ توڑنے اور خلقِ خدا کے دل ودماغ سے ان کا خوف اور دہشت ختم کرنے کے لئے کبھی کبھی یہ''بد تہذیبی ‘‘ضروری ہو جاتی ہے ۔ اس سے ظالموں کے اعصاب ٹوٹتے اور مظلوموں کے حوصلے بیدار اور مستحکم ہوتے ہیں ۔ 
ان دنوں صدام اور اس کی ''رجیم ‘‘کے ساتھ اس کا براہ راست رابطہ نہیں تھا اور شاہد اس کی ضرورت بھی نہیں تھی ۔ اسے اپنے فرائض کا خوب احساس تھا اور یہی احساس و ادراک ان فرائض کی انجام دہی میں اس کا رہنما تھا ۔ اپنے محاذ پر وہ تا دمِ آخر ڈٹا رہا، اس وقت بھی جب امریکی ٹینک بغداد میں داخل ہو چکے تھے ۔ صدام ، اس کی فوج اور اس کے ریپبلکن گارڈز ۔ کسی کا نام و نشان نہ تھا ۔ انھیں زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا تھا ؟ یہ کوئی خفیہ سودے بازی تھی یا بدترین غداری ؟ لیکن ہم تو اپنے محاذ پر کھڑے اور ڈٹے رہنے والے سپاہی کا ذکر کر رہے ہیں ۔
سقوطِ بغداد سے دوروز پہلے جب ''اتحادی ‘‘ترجمان بغداد میں صدام حکومت کے خاتمے کا اعلان کر رہے تھے ، صحاف نے ہوٹل کی چھت پر کھڑے ہو کر بریفنگ دی ، ''کون کہتا ہے کہ بغداد پر صدام کا کنٹرول ختم ہو گیا ؟ یہاں میں آپ کے سامنے موجود ہوں‘‘۔ سقوط سے ایک روز پہلے وہ کہہ رہا تھا اور اس لب و لہجے میں کہہ رہا تھا جس میں بے اعتمادی کی ادنیٰ سی رمق بھی نہ تھی ، ''ہم بغداد میں گھسنے والے امریکیوں کے ٹینکوں کو ان کی قبریں بنا دیں گے ، مغرور حملہ آوروں کو خاک چاٹنے 
پر مجبور کر دیں گے‘‘۔ یہ بریفنگ اس نے ایک سڑک پر کھڑے ہو کر دی تھی ۔ اور سقوط ِ بغداد کے روز بھی وہ ادھمیہ ڈسٹرکٹ میں واقع ریڈیو سٹیشن پر موجود تھا ۔ وہ صدام کے خطاب کی کیسٹ لایا تھا اور کہہ رہا تھا ،اسے چلاتے رہو ۔ حکمت سٹوڈیو کے 35سالہ مینیجر حسن کو اس کے ساتھ گزارے ہوئے آخری لمحات یاد تھے ، '‘صحاف کو حالات کی سنگینی کا احساس تھا ۔ تب وہ قدرے کشیدہ خاطر بھی تھا لیکن کوشش کر رہا تھا کہ اس کی یہ کیفیت عیاں نہ ہو ۔ میری اس بات پر کہ میں نے دریاکے پار حائفہ اسٹریٹ پر امریکی ٹینک دیکھے ہیں ۔ اس نے جواب دیا ، نہیں نہیں ۔ وہ دو تین سے زیادہ نہیں ہوں گے اورواپس چلے جائیں گے ‘‘۔ قدرے توقف کے بعد وہ پھر گویا ہوا''دیکھو !یہ صدام کی تقریر ہے ، صدام موجود ہے ، اس کی حکومت موجود ہے ، ہر چیز معمول کے مطابق ہے‘‘۔ اسے اب بھی اس تلخ حقیقت کے اظہار سے گریز تھا کہ شکست ہو چکی ، یہاں تک کہ دشمن سر پر آپہنچا۔ ایک گولہ ریڈیو اسٹیشن کے بالکل عقب میں آکر پھٹا ۔تب 10اپریل کی صبح ِکاذب کے آثار نمودار ہو رہے تھے ۔ان دودنوں میں بھی اس پر صرف اپنے فرض کی دھن سوار تھی۔ یہ دو دن اس نے کچھ کھائے بغیر گزار دیئے تھے ۔ 
ریڈیو اسٹیشن کے عقب میں ہونے والے دھماکے نے بالآخر اس کے خواب بکھیر دیئے ۔ کھیل ختم ہو گیا تھا لیکن اب بھی وہ حواس باختہ نہ تھا۔ اس نے اپنی روایتی سیاہ ٹوپی اُتار دی ، کوٹ کے کالر یوں گرائے کہ فوجی بیج ان کے نیچے چھپ جائیں ۔ سر پر عربوں کا روایتی رومال لپیٹا ، خداحافظ کہا اور اندھیرے میں غائب ہو گیا ۔ تب بھی اس کے چہرے پر ، اس کے انداز میں اطمینان کی جھلک نمایاں تھی ، وہی اطمینان جو محاذپر آخری وقت تک ڈٹے رہنے والے سپاہی کے قلب و ضمیر کو سرشار کیے رکھتا ہے ۔ اپنے محاذ پر تا دمِ ِآخر ڈٹے رہنے والا یہ سپاہی آج بھی عرب حریت پسندوں اور قوم پرستوں میں عزت واحترام کا حامل ہے ۔ ـ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved