تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     07-08-2016

بے چارہ ڈورے مون۔۔۔۔!

جس گھر میں بچے ہوں وہاں کسی نہ کسی کارٹون کریکٹر کا راج ضرور ہو گا‘ جیسے میرے گھر میں سپر ہیروز کی حکمرانی ہے۔ سپر مین‘ بیٹ مین‘ آئرن مین‘ کیپٹن امریکہ‘ ہلک اور... اور... اور یہ فہرست خاصی طویل ہے۔ سکول کے بستے‘ لنچ بیگ ‘ پانی کی بوتل‘ پڑھائی والی میزکرسی سے لے کر بیڈ شیٹس‘ گلاس ‘پلیٹوں اور کپڑوں تک یہی کریکٹرآپ کو مختلف ایکشن کرتے دکھائی دیں گے۔ میرے پانچ سالہ بیٹے کی ہر بات‘ ہر کہانی اپنی خیالی کرداروں سے شروع ہوتی ہے اور انہی پر ختم۔ ایک ماں کی حیثیت سے مجھے اپنے بیٹے کے پسندیدہ سپر ہیروز کے خلاف ہمہ وقت ایک جنگ کرنا پڑتی ہے۔ طریقے اور سلیقے کے ساتھ اسے ان کے طلسم سے باہر نکالنا پڑتا ہے تاکہ اس کا ننھا اور معصوم ذہن صرف انہی خیالی کرداروں پر ہی منجمد نہ ہو جائے۔ بہت سی چھوٹی چھوٹی حکمت عملیوں کا استعمال کر کے اسے تخلیقی اور جسمانی سرگرمیوں کی طرف راغب کرنا پڑتا بلکہ خود ان سرگرمیوں کا حصہ بننا پڑتا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو پھر وہ اپنے اردگرد کی ہر شے کو انہی خیالی سپر ہیروز کے تناظر میں دیکھتا ہے اور کبھی کبھی تو خود ایک سپر ہیرو بن کر ہمارے خلاف برسر پیکار ہو جاتا ہے۔ پچھلے دنوں اس کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ سپر مین کی طرح اڑ کیوں نہیں سکتا؟ سپر مین کا کاسٹیوم پہن کر وہ کئی طرح سے اڑنے کی کوشش کرتا رہا۔ پھر زچ ہو کر رونا شروع کر دیا۔ بہرحال اُسے اس کیفیت سے نکالنے میں کچھ دن لگے مگر اب وہ سمجھ چکا ہے کہ سپر ہیروز اصلی زندگی کے کردار نہیں ہوتے‘ صرف ٹی وی ٹرک (Trick) کی وجہ سے ہمیں اڑتے دکھائی دیتے ہیں۔
کالم کی اتنی لمبی تمہید کا مقصد پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی تیمور ملک کی دلچسپ قرار داد پر تبصرہ کرنا ہے جس میں کہا گیا کہ بچوں کے پسندیدہ ڈورے مون کارٹون پر پابندی لگائی جائے کیونکہ یہ کارٹون بچوں کا وقت ضائع کر رہا ہے اور بچے اپنی پڑھائی پر توجہ نہیں دیتے۔ PTI vs Doremon کے ہیش ٹیگ کے ساتھ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اس قرار داد نے بہت سے دلچسپ تبصروں کو جنم دیا۔ زیادہ تر لوگوں نے اس کا مذاق ہی اڑایا اور کہا کہ ملک کے اندر سنگین مسائل کی موجودگی میں پی ٹی آئی کو ڈورے مون پر پابندی لگانے کی سوجھ رہی ہے ۔ دہشت گردی‘ مہنگائی ‘لوڈشیڈنگ ‘امن و امان، پاناما لیکس سکینڈل کی موجودگی میں ایک کارٹون کریکٹر پر پابندی کا مطالبہ مضحکہ خیز ہے۔ لیکن میری ذاتی رائے میں تیمور ملک کی یہ قرار داد ایک Out of the 
box قسم کا آئیڈیا ہے جو روز مرہ کے ان موضوعات سے ہٹ کر ہے جن پر عموماً ہمارے لاء میکرز قرار دادیں پیش کرتے ہیں۔ میں اس رائے سے اگرچہ اتفاق نہیں کرتی کہ محض ڈورے مون پر پابندی لگانے سے ہمارے بچے بہت پڑھاکو‘ تابعدار اور اچھے بچے بن جائیں گے مگر مجھے یہ بات اچھی لگی کہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں بچوں کو ہم فارگرانٹڈ لیتے ہیں‘ وہاں بچوں کی بات اس سطح پر کسی نے تو اٹھائی۔ جہاں پرائم ٹائم میڈیا پر قندیل بلوچ اور مفتی عبدالقوی کا مصالحے دار موضوع بکتا ہو ‘جہاں ٹاک شوز کا سب سے بڑا مقصد ریٹنگ حاصل کرنا ہو وہاں کسی کو اس اہم ترین اور بنیادی مسئلے پر سوچ بچار کی ضرورت نہیں کہ بچوں کو بہترین انسان بنانے کے لیے ہمیں ان کو کیسا معاشرہ اورکیسا ماحول دینے کی ضرورت ہے۔ شخصیت سازی کے لیے کن اہم موضوعات کو ان کے نصاب کا حصہ ہونا چاہیے۔ رٹا سسٹم سے نکل کر بچوں کے تعلیمی نصاب میں کون سی تخلیقی سرگرمیاں شامل ہونی چاہئیں تاکہ بچے محض رٹو طوطے ہی نہ بنیں بلکہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بہتر استعمال کرنا سیکھیں اور عملی زندگی کے کون سے ہنر باقاعدہ طور پر ان کے نصاب کا حصہ ہونے چاہئیں‘ جیسا کہ جاپان اور چائنا میں ہوتا ہے۔ جاپان میں تو بچوں کو اپنے کلاس رومز کی صفائی بھی خود کرنا پڑتی ہے۔ وہ اپنی تعلیم کے ساتھ چھوٹے چھوٹے ہنر سیکھتے ہیں‘ اسی لیے وہاں کے ٹین ایجرز (13سے19سال) تعلیم کے وقفوں کے دوران کہیں نہ کہیں کام کرتے ہیں جبکہ ہمارے ملک کے ٹین ایجرز خیالی دنیائوں میںمگن مہنگے موبائل فون پکڑ کر اپنی شخصیت کو مضبوط اور دلکش سمجھنے کی خام خیالی میں مبتلارہتے ہیں۔ لیکن اس میں ان کا کیا قصور کہ بچپن میں جب ذہن اور شخصیت کی بنیادیں رکھی جا رہی ہوتی ہیں‘ ہم نے ان کے نصاب میں زندگی کی عملی حقیقتوں کو سمجھنے اور ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے کوئی ایسا سبق پڑھایا ہی نہیں جس سے ان کی شخصیت کی تعمیر ہو۔ محض نمبروں کی دوڑ میں تخلیقی سوچ کچل دی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارا تعلیمی نصاب زندگی بنانے والی ایسی سنہری باتوں سے یکسر عاری ہے جس میں بچے ٹائم مینجمنٹ سیکھیں‘ اعتماد سے اپنا موقف پیش کرنے کا ہنر سیکھیں۔ کامیابی کی منزل کے حصول کے لیے اہداف کیسے سیٹ کرنا ہیں‘ ناکامی کو کیسے مواقع میں بدلنا ہے‘ کیسے بہتر انسان بننا ہے‘لیکن سوشل میڈیا قیمتی وقت ایسے ہڑپ کرتا ہے کہ خبر بھی نہیں ہوتی۔ بچوں کو بہت چھوٹی عمر سے سکھانا چاہیے کہ زندگی میں سب سے قیمتی شے وقت ہے ‘اسے کیسے ضائع ہونے سے بچانا ہے۔ اگر ہمارا نصاب‘ ہمارے استاد اور والدین بچوں کے اندر وقت کی اہمیت کا احساس بیدار کر دیں اور ٹائم مینجمنٹ اور ترجیحات کو سیٹ کرنے کی ہر روز تربیت دیں تو یقین کریں بچوں کی زندگی ہمیشہ کے لیے سنور جائے گی اور پھر ڈورے مون سے بھی یہ شکایت نہیں رہے گی کہ یہ ہمارے بچوں کے لیے نقصان دہ ہے۔
ایک ایسے معاشرے میں جہاں بچے مکمل طور پر غیر محفوظ ہوں ‘اغوا ہوتے ہوں‘ کھلے مین ہولز میں گرتے ہوں، سکولوں کے اندر جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہوں‘ بم دھماکوں کی نذر ہوتے ہوں‘ ایسے معاشرے میں جہاں بچوں کے لیے کبھی سوچا ہی نہیں گیا‘ وہاں قصور وار پورا معاشرہ ہے۔ پالیسی ساز‘ نصاب بنانے والے‘ استاد‘ والدین... ہم سب۔ یہ بے چارہ ڈورے مون تو یونہی بدنام ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved