تیز رفتار پٹھورے، برق رفتار کلچے لذیذ دہی کے ساتھ، زیادہ روٹیاں کھانے کا عالمی ریکارڈ بنانے کے بعد اگلا ریکارڈ بھی جلد آ گیا۔ ہمارے تاریخی خادمِ اعلیٰ نے ساہیوال کے عوام کی سانسوں میں کوئلے کا صاف اور شفاف دھواں پھونکنے کاریکارڈ منصوبہ شروع کیا۔ ساری دنیا میں کوئلے سے بننے والی بجلی عوام کی صحت کے لئے خطرناک کہہ کر متروک ہو گئی، مگرایشین ٹائیگر نے کوئلے میں منہ مارنا شروع کر دیا۔کوئلے کے کاروبار میں منہ کالا ایک محاورہ ہے۔ اگلے روز ہمارے تاریخی خادم نے اس کالے شاہ کالے پلانٹ یا کوئلہ پلانٹ کی جائے وقوعہ پر گفتگو کر کے نیا ریکارڈ بنا دیا۔
1971ء میں سانحہ مشرقی پاکستان کی ذمہ داری بھارت کی جارحیت پر عائد ہوتی ہے۔ عالمی پریس، جنگی ریکارڈ اور نواز شریف کے دوست مودی کا اعترافِ جرم تینوں یہی کہتے ہیں۔ نریندر نے سینہ ٹھونک کر ذمہ داری نما کریڈٹ لیا، وہ مشرقی پاکستان کو توڑنے اور بھارتی جارحیت کا شریکِ جرم ہے۔ سلامتی کونسل میں بحث بھی اس بات کی تائید کرتی ہے کہ مشرقی پاکستان بھارتی فوجی مداخلت کے سبب علیحدہ ہوا۔ سیاسی اصطلاح میں اسے سقوطِ ڈھاکہ اور1971ء کا سانحہ کہا جاتا ہے۔ ساہیوال خطاب کے الفاظ روزنامہ دنیا میں یوںرپورٹ ہوئے:''اگر دھرنوں اور احتجاجوں سے ترقیاتی عمل روکا گیا تو خدا نخواستہ یہ پاکستان کے لئے1971ء جیسا سانحہ ہوگا، اس لئے عوام ترقی کے سفر میں رکاوٹ ڈالنے والوں کا ہاتھ روکیں، ایسانہ ہو کہ بعد میں ہاتھ ملنا پڑیں‘‘۔
پنجاب کے خادمِ اعلیٰ کے ان لفظوں کا سلیس زبان میں ترجمہ یہ ہے: اگر نون لیگ کی حکومت کسی وجہ سے چلی جائے تو پنجاب پر بھارت حملہ کر دے گا یا پنجاب میں سے کوئی مجیب الرحمان ثانی کھڑا ہو کر اس کی علیحدگی کاا علان کرے گا یا پنجاب میں خون آشام خانہ جنگی شروع ہو جائے گی۔ 1971ء میں بھارت کی مسلح فوج نے مغربی پاکستان پر بھی حملہ کیا تھا۔ اس وقت بھارت کا جنگی پلان تھا کہ پنجاب کو باقی ملک سے کاٹ دیا جائے۔ سیالکوٹ بارڈر سے اندر جا کر پنجاب کے لاہور والے حصے پر قابض فوج بیٹھ جائے۔ اسی دور میں بھارتی قیادت سے شہید بھٹو کے تاریخی مذاکرات کے دو جملے یہ تھے: اندرا گاندھی نے کہا، وزیراعظم! آپ جنگی قیدیوں کی واپسی پر بات کریں۔ شہید وزیراعظم بولا، آپ ہماری سرزمین پر قابض فوج واپس بلائیں۔ جنگی قیدی عالمی قوانین کے تحت ویسے بھی آپ زیادہ دیر نہیں رکھ سکیں گے‘‘۔
وزیراعلیٰ پنجاب کے بیان کو جس اینگل اور جس طرح مرضی ہے پڑھ لیں، اس کا مطلب ملک کی سلامتی کو دھمکی کے علاوہ کچھ نہیں۔ چونکہ 1971ء میں سقوطِ ڈھاکہ اور مغربی پاکستان کے کچھ علاقوں پر بھارت کے جنگی قبضے کے علاوہ کوئی خوشگوار واقعہ نہیں ہوا جس کو1971ء جیسا قراردیا جا سکے۔ یہ بھی عجیب المیہ ہے،جس وقت پنجاب کے خود ساختہ خادم صاحب عوام کو1971ء جیسے سانحہ سے ڈرانے کے لئے گرج اور برس رہے تھے، تقریباًََ اسی وقت پنجاب حکومت کا ایک وی آئی پی ہیلی کاپٹر افغانستان میں زمیں بوس ہو رہا تھا۔ ساتھ ہی سرکاری نوکری میں ایک خاندان کی ذاتی ڈانٹ ڈپٹ سے تنگ آئے بیوروکریٹ ''تقریری ہال‘‘ سے واک آؤٹ کر گئے۔ افغانسان میں ہمارے ہیلی کاپٹر کے گرنے یا گرانے کا واقعہ کئی اعتبار سے عجیب ہے۔ MI-17 ہمارے عسکری اداروں کے پاس بڑی تعداد میں زیرِ استعمال ہیں۔ جنگی جہاز بنانے والے ملک میں اتنے پرانے ہیلی کاپٹر کی مرمت کا کوئی بندوبست نہیں، ایسا کہنا لطیفہ ہوگا۔
ہیلی کاپٹر کہانی کا ایک اور پہلو بھی قابلِ توجہ ہے۔ یہ 2004ء میں اس وقت کی پنجاب حکومت نے20 کروڑ روپے میں خریدا۔ اس کی پہلی اوور ہالنگ 2011ء میں ہوئی۔ ظاہر ہے تب بھی موجودہ خادم صاحب ہی برسرِ اقتدار تھے۔ تب اوور ہالنگ کا خرچہ 19کروڑ سے زیادہ بتایا گیا۔ ہیلی کاپٹرکو اوور ہال کرنے کے لئے اب27 کروڑ سے زیادہ کی رقم غریب پنجاب کے امیر حکمرانوں نے عوام کی جیب سے نکال کر جاری کی۔ اگر کوئی کہے قدیم ہیلی کاپٹر جو 2004ء میں محض 20 کروڑ روپے میں دستیاب تھا بھاری رقم خرچ کر کے اسے اوور ہال کرنے کی بجائے نیا ہیلی کاپٹر کیوں نہ خریدا گیا تو یہ اعتراض باکل جائز ہوگا۔
عوامی خزانہ کس طرح لٹایا اور اڑایا جاتا ہے، وہ بھی حکمرانوں کی مرضی، منشا بلکہ اَنا کے مطابق جس کا مظاہرہ وزیراعظم ہاؤس میں دیکھنے کو ملا، جہاں وزیراعظم نے ہیڈ ماسٹر کا رول ادا کرنے کی ناکام کوشش کی۔ اپنے سابق اٹارنی جنرل مرحوم چوہدری فاروق اور عظیم ترین محسن، ہر مشکل میں کام آنے والے جسٹس رمدے کے بھائی اسد الرحمن پر شاہی جلال کا دبدبہ بٹھانا چاہا۔ پچھلے سارے ادوار میں تمام پارلیمنٹیرینز کو بلا امتیاز ترقیاتی سکیموں کے لئے فِکس رقم دی جاتی تھی۔ پیپلز پارٹی کے گزشتہ دورِ حکومت میں یہ رقم ایوانِ بالا کے رکن کے لئے تین کروڑ سالانہ اور ایوانِ زیریں کے رکن کے لئے پانچ کروڑ جبکہ ایم پی اے کے لئے دو کروڑ روپے مختص تھی۔ یہ نقد کیش پیسے نہیں تھے، بلکہ سرکاری محکموں کے توسط سے ہر ممبر اپنے حلقے کی سکیم ہائی لائٹ کرتا۔ پاکستان ورکس ڈیپارٹمنٹ سروے کر کے لاگت کا تخمینہ بناتا۔ سکیم محکمانہ سکروٹنی سے گزرتی۔ اخبار میں اس کا ٹینڈر چھپتا اور پیسے محکمے کے ذریعے کنٹریکٹر کو ادا ہوتے۔
یہ پہلا دورِ حکومت ہے جس میں اپوزیشن کے چمچہ گیر ارکان کے علاوہ کسی اپوزیشن رکن کی ایک بھی ترقیاتی سکیم منظور نہ ہوئی۔کاسہ لیس، چاپلوس اور خوشامد پیشہ اپوزیشن کے وہ ارکان جو ڈی کے دونوں طرف کھیلنے کے ماہر ہیں، ان پر نوازشات کی بارش بلکہ اولے پڑتے نظر آ تے ہیں۔ ایسے میں کلاس روم کے اندر شور اٹھنا لازمی تھا۔ یہی شور وزارتِ سمدھی امور کی افطار پارٹی میں بھی اٹھا۔ قائداعظم ثانی کے سامنے ایک میٹنگ میں رکنِ اسمبلی نے دو مرتبہ''میرا حلقہ اور اس کے مسائل‘‘ کے الفاظ منہ سے نکالے۔ یہ سن کر قائداعظم ثانی کا دل زخمی ہو گیا، خونِ جگر ابلتا ہوا چہرے پر نمودار ہوا اور منہ سے شعلے بن کر برسنے لگے۔ تمہارا کون سا حلقہ ہے؟ یہ سب حلقے میرے ہیں۔ تمہیں اتنا ہی شوق ہے تو اگلی دفعہ میرے ٹکٹ کے بغیر الیکشن لڑ کر دکھاؤ۔ پھر جلالِ پادشاہاں میں باسی کڑھی والا ابال اٹھا۔کہا، ابھی تم سے استعفیٰ لوں پھر دیکھنا تم کہاں کھڑے ہو گے؟ ماسٹر جی کی یہ ڈانٹ ڈپٹ سن کر شاگرد نے بستہ اٹھایا، دربار سے کھِسک کر جان اور سیٹ دونوں بچانے میں ''باعزت‘‘ کامیابی حاصل کی۔
2016ء کی ماڈل جمہوریت میں ایسے مجاہد بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں، جو جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنے سے پہلے ضرور پوچھتے ہیں ''جان کی امان پاؤں تو عرض کروں‘‘۔ اس طرزِ حکمرانی میں خدانخواستہ سانحہ ہوا تو 1999ئجیسا ہوگا، انشاء اللہ1971ء جیسا سانحہ سوچنے والے مطلب پرست بلی کی طرح اپنے خوابوں میں چھیچھڑے ڈھونڈتے رہ جائیں گے۔ ہاں البتہ1971ء والا چھیچھڑا دوبارہ دیکھ کر مودی کا من ضرور للچایا ہوگا:
ضرور ہوگا ، کسی روز احتساب ترا
تمام ملک پہ چہرہ ہے ، بے نقاب ترا
پھڑک گئی ، نگہہِ انتخاب کی پسلی
میں سوچتا ہوں، کہاں آ گیا شباب ترا
فریب ، جھوٹ ، تلوّن ، تضاد ، عیّاری
انہی عناصرِ خمسہ سے ہے شباب ترا