جب مہنگائی عوام کی قوت برداشت سے باہر ہو جائے‘ امن و امان کی صورتحال بدسے بدتر ہوتی ہوئی دکھائی دینے لگے‘ خواتین اور بچوں کا چلنا پھرنادشوار ہو جائے‘ بچے اغوا ہونے لگیں‘ خواتین پر تشدد‘ روزمرہ کا معمول بن جائے‘ حکومت کی رٹ ڈھیلی پڑتی نظر آنے لگے اور ایسے حالات میں جب کوئی احتجاجی تحریک شروع ہو اور حکومت اپنی طاقت اور اثرورسوخ کے ذریعے میڈیا میں عوامی احتجاج کی خبریں دبا کر‘ یہ تاثر دینے کی کوشش کرے کہ احتجاجی مظاہرے میں تو کچھ نہیں تھا‘ حاضرین کی تعداد بہت کم تھی‘ لوگ بے دلی سے نعرے لگا رہے تھے‘ مظاہرین میں حکومت کے حامیوں کی تعداد زیادہ تھی اور حاکم وقت کی حمایت میں نعرے لگانے والے انتہائی پرجوش تھے‘ تو ایک ہی بات سامنے آتی ہے کہ ''کچھ نہ کچھ تو گڑبڑ ہے۔‘‘ عوام حکومت کے حق میں ہوں‘ تو وہ حمایت میں نعرے نہیں لگایا کرتے۔ وہ مطمئن ہوتے ہیں۔ حکومت مخالف جلسوں جلوسوں میں شریک ہونے کی انہیں ضرورت نہیں پڑتی۔ میڈیا زوروشور سے حکومت کی حمایت کر رہا ہو اور حکومت مخالف جلسے جلوسوں میں عوام کی شرکت معمول سے زیادہ ہوجائے‘ توواضح ہوجاتا ہے کہ حکومت کتنی عوام دوست اور ان کے مسائل کو سمجھتی ہے؟ حکمرانوں کو اس بات کی سمجھ کیوں نہیں آتی؟ کہ اگر عوام ان کی کارکردگی سے خوش ہیں‘ تو انہیں حکمرانوں کی حمایت میں جلسے کرنے اور نعرے لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ان کا اطمینان ہی اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ وہ حکومت کی پالیسیوں سے خوش ہیں‘ ان کو اپنی تکلیف کے اظہار کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ایک اچھی حکومت کے خلاف نعرے لگانے والوں کی آواز میں زور نہیں ہوتا۔ سیدھی سی بات ہے کہ حکومت کے حق میں نعرے لگانے والوں کی آواز میں جوش نہیں ہوتا۔ انہیں حکومت وقت کے حق میں نعرے لگانا بناوٹی سا لگتا ہے۔ خود حکومت بھی اپنی بے جا تعریف سن کر نادم ہو جاتی ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ حمایت میں نعرے لگانے والے منافق اور جھوٹے ہیں اور ایسے لوگوں کی عزت کون کرتا ہے؟ پھر بھی خوشامدیوں کے جلسے ہوتے ہیں۔ پھر بھی حکومت کے حق میں بیانات جاری ہوتے ہیں۔ پھر بھی عوام کو حکمرانوں کی تعریف کرنے والے منافق اور موقع پرست دکھائی دیتے ہیں۔
اسلام آباد میں سارک کے ایک اجلاس سے‘ ہمارے وزیر داخلہ چوہدری نثارکی تقریر پر شدید غصے کے عالم میں‘ بھارت کے وزیرداخلہ ‘راج ناتھ کو واک آئوٹ کرتے دیکھ کر‘ میرا ماتھا اسی وقت ٹھنکا کہ موصوف کوئی نہ کوئی چاند ضرور چڑھائے گا۔رات گزری تھی کہ کوئٹہ میں بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال کاسی گولی کا نشانہ بن گئے۔ یہ گویا ایک سگنل تھا کیونکہ بلال کاسی کی لاش گری ہی تھی کہ وکلا کی لاشیں دھڑا دھڑ گرنے لگیں۔ وکلابلال کاسی کی حالت دیکھنے‘ ہسپتال کے باہر جمع تھے کہ اچانک ایک خوف ناک دھماکہ ہواا ور ہجوم کی صورت میں کھڑے وکیلوں پر‘ بم سے نکلنے والے سٹیل کے بیر نگز نے‘ زندہ انسانوں کو دھڑا دھڑ لاشوں میں بدلنا شروع کر دیا۔یہ سانحہ اتنا بڑا تھا کہ میں تحریک احتساب کے پہلے جلوس کا اژدھام بھول کر لاشوں کی گنتی میں لگ گیا۔ پہلے20 لاشوں کی خبر آئی۔ پھر25 کی۔ پھر53 کی۔ پھر63 اور پھر آخری 93کی۔ یہ آخری تعداد بلوچستان کے وزیر صحت نے بتائی؛ تاہم تادم تحریر اصل تعداد 70 ہے‘ جبکہ ''دنیا ٹی وی‘‘ کے رپورٹر فرید اللہ شدید زخمی اور ڈان کے کیمرہ مین محمود خان اور آج نیوز کے کیمرہ مین شہزاد خان اپنے فرائض منصبی ادا کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔ پاکستان کے لئے ہر وقت دھڑکنے والا دل‘ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کے سینے میں ہے۔اعلیٰ حکام میں سب سے پہلے وہی قبل از دوپہر‘ کوئٹہ جا پہنچے اور ایک ایک زخمی کا حال پوچھ کر‘ اسے حوصلہ دلاتے رہے ۔ متعددزخمیوں کو فوجی طیاروں کے ذریعے کراچی کے ہسپتالوں میں بھیجا۔بعد میں خبر آئی کہ وزیراعظم ‘ میاں نوازشریف نے بھی اپنی مصروفیات منسوخ کر دی ہیں اور وہ ابھی کچھ دیر میں کوئٹہ پہنچنے والے ہیں۔ تین سال پہلے کوئٹہ میں ہی‘8اگست کو ایک پولیس افسر کی نماز جنازہ پڑھتے ہوئے محکمے کے اعلیٰ افسران پر حملہ ہوا اور وہ بڑی تعداد میں شہید ہوئے۔بھارت جب اپنے ملک میں جہادی کارروائیاں کرنے والوں پر دہشت گردی کے الزام لگاتا ہے تو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ وہ ہمارے ملک میں دہشت گردی کرنے کا جواز ڈھونڈتا ہے۔پاکستان میں جو بھی دہشت گردی ہوتی ہے‘ اس میں کسی نہ کسی طرف سے اور کہیں نہ کہیں‘ بھارت کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔کل بھوشن یادو بھارت کی خفیہ ایجنسی ''را‘‘میں اعلیٰ افسر تھا‘ جسے پاکستانی خفیہ ایجنسی نے گرفتار کر کے ‘بہت بڑی کامیابی حاصل کی۔تفتیش کے دوران‘ اس کی کارستانیوں کی تفصیل حاصل کر لی گئی لیکن نا معلوم وجوہ کی بنا پر‘ اسے منظر عام پر نہیں لایا گیا۔حالانکہ حکومت پاکستان کی ذمے داری تھی کہ وہ اپنے ملک میں ہونے والی بھارتی ریشہ دوانیوں کو منظر عام پر لاکر ‘دنیا کے سامنے حقائق کو بے نقاب کرتا۔ایسا کیوں نہیں ہوا؟ ہم جیسے عام شہری‘ یہ راز سمجھنے سے قاصر ہیں۔
کوئٹہ میں ایک جگر شگاف سانحے کے نتیجے میں‘چیف آف آرمی سٹاف اور وزیراعظم یکجا ہوئے ہیں۔ بے گناہ وکیلوں کا بہنے والا خون‘ ابھی خشک نہیں ہوا۔ بلوچستان میں ایجنسیوں کی دی ہوئی خفیہ خبروں کی روشنائی ابھی تازہ ہے۔ مرنے والوں اور زخمیوں کی دلدوزکراہوں کی گونج ابھی فضائوں میں سنائی دے رہی ہو گی۔اہل وطن امید رکھتے ہیں کہ ایسی فضا میں‘ ہمارے وزیراعظم اور چیف آف آرمی سٹاف‘ جو ہر سانحے پر فوراً پہنچ جاتے ہیں ‘ کوئٹہ کے سوگوار ماحول میں یقیناً بھارتی دہشت گردی کے سدباب پر غوروفکر کریں گے اور جس طرح بھارتی وزیرداخلہ نے طیش کی حالت میں سارک کانفرنس کے ایک اجلاس سے واک آئوٹ پر‘ ایک ہی رات گزارکے درجنوں پاکستانیوں کا خون بہا کر ٹھنڈی سانس بھری۔ میں یہ نہیں کہتا کہ خون کے بدلے میں فوراً خون بہایا جائے لیکن دشمن کو ایسی چوٹ ضرور لگنی چاہئے جیسی اس نے ہمیں لگائی۔ مقبوضہ کشمیر کے نہتے شہری اگر مسلح بھارتی افواج کے ناک میں دم کر سکتے ہیں تو ہمارے پاس پاکستانیوں کے خون کا حساب لینے کا کوئی طریقہ نہیں؟بھارت نے برسوں سے پاکستانی دہشت گردوں کی کہانیاں چھیڑ رکھی ہیں۔ وہ ہماری طرف سے کچھ کئے بغیر ‘متعددمسلمانوں پر دہشت گردی کے الزام لگا کر انہیں سزائیں سناتا ہے۔ برسوں جیلوں میں رکھ کر انہیں اذیتیں پہنچاتا ہے۔ اہل خاندان کو بتائے بغیر اچانک جیل کی تاریکیوں میں پھانسی لگا دیتا ہے۔کسی واردات کے موقعے پر گرفتار ہونے والے مسلمان نوجوانوں پر‘ جھوٹے مقدمات بنا کر انہیں جیل کے اندر بھوکا پیاسامار دیا جاتا ہے۔ ہمیں بھی کچھ نہ کچھ سوچنا چاہئے ۔ آج کے دور میں حیلے بہانوں سے مخالف قوم کو نقصان پہنچانے کے ہزاروں طریقے ہیں‘جن پر عمل کر کے جوابی چوٹ بھی لگائی جا سکتی ہے اور لگانے والے کا سراغ بھی نہیں ملتا۔جب ہم دشمن کی لگائی ہوئی چوٹ پر‘ بے خبری میں تڑپتے رہ جاتے ہیں توکسی دوسرے کے تڑپنے کا منظر کیوں نہیں دیکھ سکتے؟ خفیہ وارکی خوبی ہی یہ ہے کہ وہ پکڑا نہیں جاتااور جو وار پکڑا جائے‘ اس کی وجہ اناڑی پن ہوتا ہے۔
ہمیں برصغیر میں رہتے سینکڑوں سال ہو گئے ہیں۔تعداد میں ہندو کی ہمیشہ بھاری اکثریت رہی ہے اور مسلمانوں کی کم۔ لیکن چوٹ پر چوٹ برابر کی لگتی رہی۔ کبھی وہ غالب آگئے اور کبھی مسلمان۔نہ وہ ہمیں مٹانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ ہم۔مٹنے مٹانے کا دور نکل گیا۔دونوں قوموں کو بیک وقت دانش مند قیادت کی ضرورت ہے۔جب تک دانش مندی میں توازن پیدا نہیں ہو گا‘ یہ دونوں قومیں امن اور برابری کے ماحول میں ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں۔جب تک ایک طرف راج ناتھ پیدا ہو گا دوسری طرف سے بھی اس کا جواب آئے گا۔