تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     09-08-2016

سراجِ منیرﷺ کی نورانی کرنیں!

مکہ کے بڑے خاندانوں کے چشم وچراغ بھی اسلام میں داخل ہو رہے تھے۔ ان میں مصعب بن عمیرؓ جو بنو عبدالدار میں سے تھے، سخت آزمایشوں سے گزرے۔ قبل از اسلام ان کی زندگی شہزادوں کی سی تھی۔ اسلام کی پاداش میں جب گھر سے نکالے گئے تو جوتے اور کپڑے بھی اتروا لیے گئے۔ اسی حالت میں دارِ ارقم میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضور پاکؐ اپنے جانثار کو اس حالت میں دیکھ کر بے ساختہ رونے لگے۔ پھر آپؐ نے صحابہؓ سے پوچھا: کیا تمھیں معلوم ہے کہ دنیا کے مال و دولت اور عیش و عشرت کے ساتھ مصعب نے کیا کیا؟ صحابہ نے عرض کیا: اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ۔ آپ نے فرمایا: اس نے دنیا اور اس کی دل فریبیوں کو اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت پر قربان کر دیا ہے۔ مصعب ابن عمیر نے پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ پھر وہاں سے واپس آئے تو آنحضورؐ کے حکم سے بطور معلّم و مبلّغ اور مدرّسِ قرآن مدینہ تشریف لے گئے۔ مورخ ابن ہشام کے الفاظ میں: بعث رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مصعب بن عمیر مع اہل یثرب واَمَرہ ان یُّقرئہم القرآن ویعلمہم الاسلام ویفقّہہم فی الدین فکان یُسَمّٰی المقریُٔ بالمدینۃ۔ مدینہ کو ان کی دعوت نے فتح کیا۔ ایک کھردرے کمبل میں لپٹے ہوئے ننگے پاؤں وہ دارِ ارقم میں آنحضورؐ کی خدمت میں آئے۔ ان سب مشکلات کے باوجود وہ اپنے اسلام پر بہت مضبوطی سے ثابت قدم رہے۔ (سیرۃ ابن ہشام، القسم الاول، ص322 تا 325، 365 اور 434)
آنحضورؐ کے تین پھوپھی زاد‘ عبداللہ بن جحشؓ، ابو احمد عبدا بن جحشؓ اور عبیداللہ بن جحش جو آپ کی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب کے بیٹے تھے اور بنو عبدشمس کے ساتھ ان کا دوستی کا معاہدہ تھا، بھی ابتدائی مسلمانوں میں شامل ہیں۔ ان تینوں بھائیوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ حضرت زینب بنت جحشؓ ان کی بہن تھیں، جن کی شادی پہلے حضرت زید بن حارثہؓ سے ہوئی۔ لیکن جب نباہ نہ ہو سکا اور دونوں کے درمیان طلاق واقع ہو گئی تو اللہ نے اپنے حکم سے نبی اکرمؐ کا نکاح حضرت زینبؓ سے کر دیا اور انہیں ام المومنین کا شرف حاصل ہو گیا۔ 
ابو سفیان کی بیٹی رملہ بنت ابی سفیان (ام حبیبہؓ) عبیداللہ بن جحش کے نکاح میں تھیں۔ وہ اولین اہلِ ایمان میں سے ہیں۔ وہ بھی اپنے خاوند کے ساتھ اپنا گھربار چھوڑ کر حبشہ کی جانب ہجرت کر گئی تھیں۔ عبیداللہ بن جحش بدقسمتی سے حبشہ جا کر نصرانی ہو گیا اور اسی حالت میں مرگیا۔ آنحضورؐ نے حضرت عمرو بن امیہ ضمریؓ کو حبشہ بھیجا اور نجاشی بادشاہ سے‘ جو اس وقت تک مسلمان ہو چکا تھا، کہا کہ وہ خالد بن سعید بن عاصؓ (جو ام حبیبہؓ کے قریبی عزیز تھے) سے بات کرکے ام حبیبہ کو آپ کا پیغام برائے نکاح پہنچائیں؛ چنانچہ نجاشی بادشاہ نے بات کی تو ام حبیبہؓ نے رضامندی ظاہر کی۔ پھر بادشاہ نے آپؐ کی طرف سے چار سو دینار (سونے کا سکہ جسے اشرفی کہا جاتا ہے) حق مہر اپنی جیب سے ادا کیا اور بہت سے زیورات بھی حضرت ام حبیبہؓ کو پہنائے۔ اس غریب الدیاری میں خاوند کے مرتد ہو جانے کا غم یوں اللہ تعالیٰ نے ختم کر دیا۔ حبیبہؓ عبیداللہ بن جحش سے حضرت رملہؓ کی بیٹی تھیں۔ وہ بھی صحابیہ ہیں۔ ام المومنین ام حبیبہؓ جب مدینہ پہنچیں تو خود آنحضورؐ نے ان کا استقبال کیا۔ (سیرۃ ابن ہشام، القسم الاول، ص324)
حضرت جعفر بن ابی طالبؓ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد تھے۔ آپ بھی ابتدائی مسلمانوں میں شامل ہیں۔ چونکہ آپ کے والد ابوطالب آنحضورؐ کے سرپرست اور اسلام کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے، اس لیے حضرت جعفر کو اپنے گھر میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی؛ تاہم مکہ کی عمومی فضا‘ جس میں خود آنحضورؐ پر بھی دشمنوں نے ہاتھ اٹھانا شروع کردیا تھا، ان کے لیے مشکلات کا باعث بن گئی۔ انہیں دھمکیاں ملتی تھیں، مگر وہ ان کی کوئی پروا نہیں کرتے تھے۔ ان کی بہادری اور دانش مندی ضرب المثل ہے۔ حبشہ میں اہلِ ایمان کی قیادت اور بادشاہ کے دربار میں اسلام کی نمائندگی ان کا عظیم کارنامہ ہے۔ حبشہ سے واپسی پر جنگ موتہ میں آنحضورؐ نے ان کو زید بن حارثہؓ کے ساتھ کمانڈر مقرر کیا۔ حضرت زیدؓ کی شہادت کے بعد وہ جنگ موتہ میں اسلامی فوجوں کی کمان کرتے ہوئے بہادری سے لڑے اور شہید ہو گئے۔ شہادت سے قبل دشمنوں نے ان کے دونوں بازو کاٹ دیے تھے، مگر انہوں نے جھنڈا گرنے نہیں دیا۔ آنحضورؐ نے ان کی شہادت کی خبر جبریل کے ذریعے سنی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جعفر کو کٹے ہوئے بازوؤں کے بدلے دو پر عطا فرما دیے ہیں اور وہ جنت میں پرواز کرتے ہیں۔ شہادت کے بعد ہی ان کو جعفر طیار کا خطاب ملا تھا۔ 
حضرت علیؓ سے حضرت جعفرؓ دس سال بڑے تھے۔ (اتفاق کی بات یہ ہے کہ یہ چار بھائی تھے اور چاروں میں سے ہر ایک کے درمیان دس دس سال کا فرق ہے۔ عقیل حضرت جعفرؓ سے دس سال بڑے تھے اور طالب حضرت عقیلؓ سے دس سال بڑے تھے۔) قبول اسلام کے وقت حضرت جعفرؓ کی عمر20، 21 سال تھی۔ وہ آنحضورؐ سے شکل و صورت اور اخلاق و عادات میں بہت زیادہ مشابہت رکھتے تھے۔ ''وَکَان اشبہ الناس خَلْقًا وَخُلُقاً بِرَسُوْلِ اللہ صلی علیہ وسلم۔ ہجرت حبشہ میں یہی مہاجرین حبشہ کے قائد تھے۔ بہادر اور دانا جعفر واقعی ہر قسم کی قائدانہ صلاحیتوں سے مالامال تھے۔ عتبہ بن ربیعہ جو قبیلہ بنو عبدشمس کا اہم فرد اور قریش کے بڑے سرداروں میں سے تھا، اسلام کا بڑا دشمن تھا۔ اس کا بیٹا ابو حذیفہ بن عتبہ بھی سابقون الاولون میں سے ہے۔ ابو حذیفہ کے ایمان کے بعد خاندان نے اس کا بائیکاٹ کر دیا، مگر اس نے اس کی کوئی پروا نہیں کی۔ 
بنو مخزوم کے سپوت الولید بن الولید بن المغیرہ (حضرت خالد بن ولید کے بھائی، دونوں باپ بیٹے کا ایک ہی نام تاریخ میں مذکور ہے)، سلمہ بن ہشام (ابوجہل کے بھائی) اور عیاش بن ابی ربیعہ (ابوجہل کے ماں جائے بھائی) جب مسلمان ہوئے تو ان کے سردارانِ قبیلہ نے انہیں اذیتیں پہنچانا شروع کیں۔ جب ان پر ظلم ڈھایا گیا تو انھوں نے آپس میں ایکا کرکے کہا کہ ہم قتل بھی ہو جائیں تو اپنا دین نہیں چھوڑیں گے۔ اس پر ہشام بن مغیرہ نے کہا کہ ان میں سے کسی کو قتل نہ کرنا ورنہ میں اس کے قتل کا بدلہ لیے بغیر نہ رہوں گا‘ یعنی جان سے نہ مارنا، ویسے ان کو تنگ کرتے رہو۔ یہ لوگ بھی اذیتیں برداشت کرتے رہے اور حبشہ کی طرف ہجرت بھی کی، مگر اسلام چھوڑنے کی ہر ترغیب کو ٹھکرا دیا اور ہر ترہیب کے جواب میں ڈٹ کر کہا کہ ہمیں اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں ہے۔ (سیرۃ ابن ہشام، القسم الاول، ص320-321)
حضرت ابو سلمہؓ جن کا نام عبداللہ بن عبدالاسد تھا، بنو مخزوم میں سے تھے۔ وہ جب اسلام میں داخل ہوئے تو ان کی اہلیہ ام سلمہؓ جن کا نام ہند بنت ابی امیہ بن مغیرہ تھا بھی داخلِ اسلام ہو گئیں۔ یہ بھی بنو مخزوم میں سے تھیں۔ سابقون الاولون ہونے کا شرف دونوں میاں بیوی کو حاصل ہے۔ اس کے علاوہ دونوں حبشہ کی طرف اور پھر مدینہ منورہ کی جانب ہجرت کرنے والوں میں بھی شامل ہیں۔ حضرت ابو سلمہؓ اور ام سلمہؓ کے بیٹے سلمہ بن عبداللہ کی وجہ سے میاں بیوی ابو سلمہ اور ام سلمہ کے نام سے معروف ہیں۔ حضرت ابو سلمہؓ بدر کے میدان میں زخمی ہوئے تھے۔ ان کا زخم مندمل ہو گیا، لیکن ایک سال بعد پھر اس زخم میں پیپ پڑ گئی۔ اسی کی وجہ سے 3 ھجری میں ان کی شہادت ہو گئی۔ ان کی شہادت کے بعد ام سلمہؓ آنحضورکے نکاح میں آئیں اور ان کو بھی ام المومنین ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ ہی کی کاوشوں سے حضرت ارقمؓ مسلمان ہوئے تھے۔ حضرت ارقم کے والد اسد کی کنیت ابوالارقم تھی۔ اس وجہ سے وہ ارقم بن ابی الارقم کے نام سے معروف ہیں۔ یہ ابوجہل کے قبیلے بنو مخزوم میں سے تھے اور ان کا گھر مکے کے بہت بڑے گھروں میں سے ایک تھا۔ اسی گھر کو یہ شرف حاصل ہوا کہ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کے ابتدائی دور میں کافروں کی دست برد سے اپنے آپ اور اپنے صحابہ کو بچا کر تعلیم و تربیت کا کام کرتے رہے۔ دارِ ارقم کو تاریخ میں لازوال شہرت ملی ہے۔ اسی گھر میں عمر بن خطابؓ آکر مسلمان ہوئے تھے۔ اس وقت آنحضورؐ کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے والے صحابہ کو چھوڑ کر انتالیس مرد اہلِ ایمان موجود تھے۔ حضرت عمرؓ ان میں چالیسویں نمبر پر شمار ہوتے ہیں۔ حضرت ارقمؓ ابن ہشام کے مطابق صحابہ کی صف میں دسویں نمبر پر ہیں۔ اوّلین ہجرت کرنے والوں میں بھی شامل ہیں۔ ان کا ایک دوسرا اعزاز یہ ہے کہ وہ آنحضورؐکے ساتھ حلف الفضول میں بھی شریک تھے۔ حضرت ارقمؓ کے بارے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ ان کی بڑی پکی دوستی تھی۔ یہ اتفاق دیکھیے کہ جس روز حضرت ابوبکر صدیقؓ کی وفات ہوئی اسی روز ان کی بھی وفات ہوئی۔ (سیرۃ ابن ہشام، القسم الاول، ص252-253)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved