ہماری زندگیوں میں جو چیز سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے، وہ روزگار ہے۔ یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران یہی سوال ہمہ وقت طلبہ کے ذہن میں گردش کرتا رہتا ہے کہ ڈگری مکمل ہونے کے بعد نوکری ملے گی یا نہیں۔ اس نوکری پر خاندان اور محلے میں اس کی عزت، شادی اور ہر اہم چیز کا انحصار ہوتا ہے۔ اس کے لیے لوگ بیرونِ ملک جاتے ہیں۔ سالہا سال اپنے بیوی بچوں سے دور رہتے ہیں۔ پسینہ بہاتے ہیں۔ اپنے سینئرز کی جھڑکیاں سنتے ہیں۔ غمِ روزگار آدمی کو کھا جاتا ہے۔ محنت مشقت کرکے جب آپ کما چکتے ہیں تو پھر ایک ذات آتی ہے۔ وہ یہ کہتی ہے کہ تم نے تو نہیں کمایا، میں نے تمہیں دیا ہے۔ اس ذاتِ عالیشان کا نا م ہے، اللہ رب العالمین۔ بندہ حیران رہ جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے، اتنی میں نے محنت کی اور تو یہ کہتا ہے کہ تو نے دیا۔ یہ وہ سوال ہے، کبھی نہ کبھی جو ہر شخص کے ذہن میں اٹھتا ہے۔ یہ سوال اس وقت حل ہو جاتا ہے، جب آپ کتے، بلی، بکری، بھڑ، چیونٹی اور دوسری پانچ ارب مخلوقات کو اپنا رزق کھاتے، زندگی گزارتے اور نسل بڑھاتے دیکھتے ہیں۔ تب یہ یقین آ جاتا ہے کہ انسانی عقل اور مشقت نہیں بلکہ کوئی اور ذات ہے جو جانداروں کو پال رہی ہے‘ ورنہ انسان کے سوا باقی جاندار مر جاتے۔
اسی پر بس نہیں، اب یہ ذات آپ کے ہر فیصلے میں مداخلت کرتی ہے۔ اللہ کہتا ہے ایسے بیٹھو، ایسے اٹھو۔ یوں بات کرو، یوں کھانا کھائو۔ بیوی کو حق مہر دو۔ لباس اس طرح کا پہنو۔ شراب مت پیو۔ جوا مت کھیلو۔ کسی کی عدم موجودگی میں اسے برا نہ کہو۔ یہ ذات آپ سے کہتی ہے کہ آپ نے پاک صاف رہنا ہے۔ روزانہ نماز پڑھنی ہے۔
پروفیسر احمد رفیق اختر بتاتے ہیں کہ جوانی میں وہ بہت منہ زور تھے۔ ہر قسم کی جسمانی مشقیں کیا کرتے۔ دنیا جہان کی کتابیں پڑھ ڈالیں۔ اب جب انہوں نے خدا کے بارے میں سوچنا شروع کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مذہب پر عمل کرنا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اپنی ساری کی ساری آزادی کھو دی جائے۔ یہاں انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ پہلے میں دیکھ تو لوں کہ جس کی ساری باتیں ماننی ہیں، وہی اصل خدا ہے یا نہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ خواہش میری یہ تھی کہ خدا کا وجود ثابت نہ ہو سکے اور میں آزادی سے زندگی گزار سکوں لیکن دیانتداری سے قرآن کھولا، تحقیق کی اور اس پر ایمان لے آیا۔ اس دیانتداری کے صلے میں خدا نے جو عزت اور مرتبہ انہیں عطا کیا، وہ ہمارے سامنے ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ انسان انصاف نہیں کرتا۔ جو لوگ خدا کا انکار کرتے ہیں، وہ اپنے تعصبات اور اپنی محرومیوں کو بنیاد بنا کر اسے جھٹلانا چاہتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کی زندگی میں ایسا کوئی حادثہ پیش آتا ہے کہ ساری زندگی وہ اس سے نکل نہیں پاتے۔ سچ کی تلاش کہیں نظر نہیں آتی۔ جو لوگ خدا کا انکار کرتے ہیں، ان کی ساری توانائی ایمان رکھنے والوں کو مضحکہ خیز مخلوق ثابت کر نے میں صرف ہوتی ہے۔ ابو بکر بغدادی اور اسامہ بن لادن کی بنیاد پر وہ اسلام کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ابھی کل فیس بک کا ایک پیج دیکھا۔ ایک صاحب فرماتے ہیں: سب سے پہلے سومیری تہذیب سے برآمد ہونے والی پتھر کی سلوں پر یہ لکھا تھا کہ زمین اور آسمان ابتدا میں جڑے ہوئے تھے، پھر انہیں علیحدہ کر دیا گیا‘ جبکہ قرآن نے اسے وہاں سے نقل کیا۔ اس کے علاوہ بھی کچھ سائنسی حقائق وہاں سے نقل کیے گئے۔ اب یہ وہ موضوعات ہیں کہ ایک کم علم مذہبی شخص اس کا جواب نہیں دے سکتا۔ اسلام جس وقت نازل ہوا، تب ارسطو اور بطلیموس کے نظریات سائنسی دنیا میں رائج تھے۔ ان نظریات کے مطابق زمین کائنات کا محور و مرکز تھی اور ساکن تھی اور ہر شے زمین کے گرد گھوم رہی تھی۔ قرآن نے انہیں نقل نہیں کیا اور یہ سب نظریات بعد ازاں باطل ثابت ہوئے۔ انسانی تاریخ میں ایسے غلط سائنسی نظریات کی بھرمار رہی ہے، جو بعد میں غلط ثابت ہوئے۔ اگر قرآن بھی ادھر ادھر سے نظریات نقل کر رہا ہوتا تو لامحالہ بہت سے غلط نظریات کو بھی نقل کیا جاتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ قرآن واحد الہامی کتاب نہیں۔ حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ پر ایمان لانے والے تو آج بھی اس کرّہء ارض میں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ خود اسلام میں 124,000 پیغمبروں کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ کون جانتا ہے کہ کس وقت کون سا پیغمبر ؑ گزرا اور کس پر اللہ نے کیا نازل کیا۔ اسلام دشمن بھی البتہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن کا متن مستند ہے۔ یہ حرف بحرف وہی ہے، جو چودہ سو سال پہلے نازل ہوا۔ دیگر صحائف جزوی طور پر درست ہو سکتے ہیں۔ مکمل صحت کے ساتھ آج کوئی بھی موجود نہیں۔
چند روز قبل ایک صاحب نے وکی پیڈیا سے کچھ مواد میرے سامنے رکھا۔ اس کی سرخی ہی یہ تھی "Scientific errors in Quran"۔ سب سے پہلی غلطی وہاں یہ لکھی ہوئی ہے: قرآن میں لکھا ہے کہ سورج اور چاند اپنے اپنے راستے پہ چلے جا رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن یہ کہنا چاہتا ہے کہ زمین اپنے راستے پر نہیں چل رہی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین کو قرآن کائنات کا مرکز کہہ رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن ارسطو اور بطلیموس ہی کے نظریات کو درست مان رہا ہے؛ لہٰذا قرآن سائنسی طور پر غلط ہے۔ اب اس پر آدمی سر نہ پیٹے تو کیا کرے۔ قرآن میں تو کہیں یہ نہیں لکھا کہ زمین ساکن ہے یا کائنات کا محور ہے۔ یہ تو ارسطو اور بطلیموس نے کہا ہے۔ قرآن نے یہاں فقط یہ کہا ہے کہ سورج اور چاند اپنے راستے پر چلے جا رہے ہیں۔ باقی منطق بازی تو آپ خود اپنی خواہش کے مطابق فرما رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی جہاں جہاں آسمان کا ذکر آیا ہے، زمین کا ذکر آیا ہے، دوسرے سائنسی حقائق آئے ہیں، آپ اسے پرکھ سکتے ہیں۔ مثلاً قرآن میں لکھا ہے کہ انزلنا الحدید۔ مطلب یہ کہ لوہا زمین پر نازل کیا گیا۔ گزرے زمانوں کے لوگ یہ اعتراض کر سکتے تھے کہ لوہا تو زمین کے اندر ہی بنا ہو گا لیکن آج کا سائنسدان بخوبی جانتا ہے کہ لوہا کہاں بنتا ہے۔ دوسرے تمام عناصر کی طرح لوہا بھی سورجوں کے اندر بنتا ہے۔ جب سورج آخر میں پھیل اور پھٹ جاتے اور ختم ہو جاتے ہیں تو تب یہ عناصر کائنات میں بکھر جاتے ہیں۔ اب اگر قرآن خدا کا کلام نہ ہوتا تو وہاں یہ درج ہوتا کہ ہم نے تمہارے لیے زمین کے اندر لوہا پیدا کیا لیکن وہاں یہ نہیں لکھا۔ وہاں لکھا ہے کہ لوہا ''نازل‘‘ کیا۔ (جاری )