آخرکار ہم پوری دنیا میں اکیلے رہ گئے۔
کل امریکہ پہنچا تو ساتھ ہی ہولناک خبر نے دہلا کر رکھ دیا۔ مایوسی اور اداسی نے ڈیرے ڈال لیے۔
ایک اور حادثہ اور ایک قومی سانحہ۔ مان لیتے ہیں پہلے کی نسبت دہشت گردی میں بہت فرق پڑ گیا ہے‘ لیکن یہ ضرور ہے پہلے جو کام چھ ماہ مسلسل دہشت گردی میں ہوتا تھا وہ اب ایک ہی دھماکے میں پورا کر لیا جاتا ہے۔ دہشت گردوں نے طریقہ واردات بدل لیا ہے۔ وہ سارا سال ایک ایک بندہ مارنے کی بجائے ایک ہی دفعہ ایسا حملہ کرتے ہیں کہ اس کا اثر آسانی سے زائل نہیں ہوتا۔ اے پی ایس کا حملہ ہو، کراچی ایئرپورٹ‘ پھر چارسدہ یونیورسٹی یا اب کوئٹہ۔ سب ایک جیسے زخم ہیں۔ اگرچہ دہشت گردوں نے اپنا طریقہ کار بدل دیا ہے لیکن ہماری ایجنسیوںکا وہی پرانا طریقہ ہے۔ بے شمار دفعہ ان پر لکھا جا چکا ہے۔
ہم بدلتی ہوئی دنیا کے ساتھ نہیں بدل رہے۔ ہم ابھی تک جنرل ضیا دور میں زندہ ہیں اور اس سے باہر نکلنے کی ہمارے پاس کوئی ترکیب بھی نہیں ہے۔ سرد جنگ دور میں امریکہ اور روسی بلاک کے درمیان شروع ہونے والی جنگ ہم ابھی تک لڑ رہے ہیں۔ جنرل ضیا کو ملنے والے ڈالروں نے ہمارے منہ کو ایسی لذت دی کہ ہم اس سے نکلنے کے لیے تیار ہی نہیں‘ چاہے اس کی کتنی ہی قمیت کیوں نہ ادا کرنا پڑے۔ چلیں کچھ دانشوروں کا یہ نکتہ مان لیتے ہیں کہ جنرل ضیا کی مجبوری تھی کہ انہیں افغان جنگ لڑنا پڑ گئی‘ ورنہ پاکستان خطرات میں گھر جاتا۔ مان لیتے ہیں۔ لیکن کیا اب ہم صدیوں تک یہ جنگ لڑیں گے۔ دنیا بھر میں ملک جنگیں لڑتے ہیں، لیکن پھر وہ نارمل بھی ہو جاتے ہیں۔ ہم نارمل کیوں نہیں ہو پا رہے۔ ہمارے اوپر جنون کیوں سوار ہے کہ کابل پر حکومت ہماری مرضی کی ہو گی، ورنہ کوئی اور حکومت نہیں کر سکے گا؟
ہم یہ بات سمجھ چکے ہیں کہ پاکستان کو یورپ اور امریکہ کے سامنے فرنٹ لائن سٹیٹ کے طور پر کیسے پیش کرنا ہے کیونکہ ہمیں اسی میں اپنی بہتری نظر آتی ہے‘ اسی میں فوائد نظر آتے ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہم دنیا کے بڑے بدمعاش کے دوست ہونے کا دعوی کر سکتے ہیں کہ دیکھیں جناب ان کے بڑے بڑے لوگ ہمارے اسلام آباد اور پنڈی کے دربار میں حاضر ہو کر ہم سے مدد مانگتے ہیں‘ ہم سے مشورے کرتے ہیں۔ جنرل کیانی تو باقاعدہ ماہر افغانستان کہلوانے میں فخر محسوس کرتے تھے اور امریکی ان کو بہت اٹھا کر رکھتے تھے‘ اگرچہ ان دنوں میں خود پاکستانی ہر روز گاجر مولی کی طرح کاٹے جا رہے تھے‘ لیکن ہمارے جنرل فخر سے امریکیوں کو بتاتے تھے کہ افغانستان کو کیسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے‘ اس طرح ہمیں اسلحہ ملتا ہے۔ ہمیں مفت یا کچھ پیسے دے کر جنگی ہتھیار ملتے ہیں جو ہمارے خیال میں بھارت سے لڑنے کے لیے بہت ضروری ہیں۔ اس لیے بھی محاذ جنگ کو گرم رکھنا ہمیں سوٹ کرتا ہے۔ تیسرے‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جو اخراجات ہوتے ہیں، وہ پورا کرنے کے لئے امریکی ہمیں کولیشن سپورٹ فنڈ کے نام پر ڈالرز دیتے ہیں۔ ہر سال تقریباً ڈیرھ ارب ڈالر امریکہ دیتا ہے اور اب تک امریکی دعویٰ کرتے ہیں کہ گیارہ ستمبر کے بعد بتیس ارب ڈالرز ادا کئے جا چکے ہیں۔
اس لیے ہمارے مفاد میں ہے کہ یہ سب سلسلہ چلتا رہے۔ پاکستان ہر سال بیرون ملک سے چوالیس ارب ڈالرز کی اشیا خریدتا ہے‘ جبکہ چوبیس ارب ڈالرز کے قریب دنیا کو بیچتا ہے۔ درمیان میں بیس ارب ڈالرز کا گیپ ہم بیرون ملک سے آنے والے پاکستانیوں کے بیرون ملک سے بھیجے گئے ڈالروں‘ ریالوں اور پونڈوں سے پورا کرتے ہیں۔ پھر بھی ہر سال چار ارب ڈالر کم پڑ جاتے ہیں‘ جس کے لیے ہم قرضے لیتے ہیں یا پھر کولیش سپورٹ فنڈ سے ملنے والے ڈالروں سے یہ کمی پوری کرتے ہیں۔ اس لیے ہمیں ہر وقت حالت جنگ اور حالت قرض میں رہنا پڑتا ہے۔ اگر یہ دونوں نہ ہوں تو ہم دوسرے دن دیوالیہ قرار دے دیے جائیں گے۔
تو کیا ہم آنے والے برسوں میں کوئی ایسی پالیسی نہیں بنائیں گے کہ ہمیں کولیشن سپورٹ فنڈ کی ضرورت نہ پڑے یا ہم قرض لینے سے گریز کریں؟ اگر مجھ سے اس سوال کا جواب پوچھیں تو میرے خیال میں اب یہ دونوں چیزیں ہمارے قومی اور ریاستی پالیسی کا حصہ ہیں۔ ہم دونوں سے جان نہیں چھڑا پائیں گے۔ اس کی ہزار وجوہ ہیں اور ان ہزار وجوہ پر ایک ہی وجہ بھاری ہے کہ ہم جان چھڑانا نہیں چاہتے۔ ہمیں اس میں انسانی جانوں کا نقصان اتنا زیادہ محسوس نہیں ہوتا جتنا ہمیں ڈالرز نہ ملنے سے ہو گا۔ دنیا ہمیں پیسہ دیتی ہے تو اس کے بدلے وہ کچھ مطالبات بھی رکھتی ہے اور وہ مطالبات ہم اپنے خلاف سمجھتے ہیں۔ ہم امریکیوں سے بتیس ارب ڈالرز لے کر بھی حقانی گروپ کی حمایت سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کابل بھارت کا دوست بن چکا ہے۔ ہمارے خیال میں افغان حکومت محسن کُش ہے۔ اس لئے ہم ان کے خلاف لڑنے میں مصروف افغان طالبان کو ہر قسم کی حمایت دیتے ہیں۔ انہیں پناہ سے لے کر پیسے، علاج معالجہ اور ان کے خاندان کا پاکستان میں تحفظ‘ سب کچھ کرتے ہیں۔ کوئٹہ شوریٰ کو زندہ رکھتے ہیں۔ چلیں اس حد تک درست ہے کہ آپ انہیں حمایت دیں لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کابل کے بازار میں بم دھماکا ہوتا ہے اور اس میں کوئٹہ کی طرح بے گناہ بچے اور عورتیں ماری جاتی ہیں تو یہی طالبان اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں‘ جس پر عام افغان یقینا یہی سمجھتے ہیں کہ ان گروپوں کو پاکستان کی حمایت حاصل ہے‘ جو کابل میں بے گناہوں کا قتل کر رہے ہیں۔ ہم لاکھ انکار کرتے رہیں‘ دنیا نہیں مانے گی کیونکہ وہ افغان لیڈر نہ صرف پاکستان میں رہتے ہیں‘ بلکہ وہ امریکی حملوں میں مارے بھی گئے ہیں۔ اس کا حل افغانوں کے پاس یہی ہے کہ وہ بھی اپنے گروپس کے ذریعے کوئٹہ میں اس طرح معصوم اور بے گناہ لوگوں کا قتل عام کرائیں جیسے کابل میں ہوتا ہے۔ یہ وہ جنگی حکمت عملی ہے جو دونوں ملک اختیار کیے ہوئے ہیں۔ کابل کے بازاروں میں بے گناہ مارے جائیں تو ہم مذمت کر دیتے ہیں اور افغان حکومت بھی کوئٹہ میں ہونے والی ہلاکتوں پر مذمت جاری کر دیتی ہے حالانکہ سب کو پتہ ہے کس کا کس میں کیا کردار ہے۔
دوسری طرف پاکستان اور بھارت نے طے کر رکھا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچاتے رہیں گے۔ پاکستان کے پاس اچھا موقع تھا‘ وہ واجپائی کے دور میں مسائل ختم کر سکتا تھا۔ جنرل مشرف نے نواز شریف کو نہیں کرنے دیا۔ بعد میں خود جنرل مشرف کو محسوس ہوا کہ نواز شریف درست کام کر رہا تھا تو وہ آگرہ گئے۔ اگرچہ بات نہ بنی‘ پھر بھی جنرل مشرف نے من موہن سنگھ کے ساتھ مل کر اہم ایشوز حل کرنے کی کوشش کی۔ ہو سکتا ہے میری یہ بات بہت لوگوں کو بری لگے، لیکن میرا خیال ہے کہ اب بھی وزیر اعظم نواز شریف کے ذریعے بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت بہت اہم معاملات کو حل کیا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کو بھارت میں پسند کیا جاتا ہے۔ عوام اور میڈیا کی ان کے بارے میں رائے بہت اچھی ہے۔ وہ شاید واحد پاکستانی سیاستدان ہیں‘ جنہیں بھارتی عوام سمجھتے ہیں کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ اس لیے وزیر اعظم نواز شریف ان سے بہتر ڈیل کرسکتے ہیں۔ تو کیا آسمان گر پڑے گا اگر نواز شریف کو یہ حوصلہ دیا جائے کہ وہ ہمت کرکے بھارت سے اہم معاملات پر بات چیت کا سلسلہ شروع کریں‘ نریندر مودی کے ساتھ تعلقات مزید بہتر کریں‘ اور کس طرح حالات کو وہ اس طرف لے جائیں‘ جیسے انہوں نے کبھی واجپائی صاحب کو لاہور آنے پر مجبور کر دیا تھا اور لاہور اعلامیہ کے ذریعے تمام معاملات حل ہونے کی نوید سنائی گئی تھی۔
یہ بات ہم جتنا جلدی سمجھ لیں‘ ہمارے لیے اتنا ہی بہتر ہے۔ ہم دنیا میں اکیلے ہو چکے ہیں۔ امریکی بھی ہم سے بہت دور جا چکے۔ کانگریس نے امداد پر پابندی لگائی تو ایف سولہ جہاز بھی روک لیے گئے۔ اب کولیش سپورٹ فنڈز ملنا بھی بند ہو رہے ہیں۔
پوری دنیا کو اپنی اپنی فکر پڑی ہوئی ہے۔ فرانس، جرمنی سے لے کر شام، عراق، سعودی عرب، ایران تک سب اپنے اپنے مسائل کا شکار ہیں اور وہ ہمیں مدد نہیں دے سکتے۔ ہمیں اپنی مدد آپ کرنا ہو گی۔ ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی خطے میں امن کے لیے رول ادا کرنا ہو گا۔ ہمیں کولیش سپورٹ فنڈز کے ڈالرز کی قربانی دینا ہو گی۔ جو گروپس کابل کے بازاروں میں حملے کرتے ہیں‘ ان سے دوری اختیار کرنا ہو گی۔ بھارت کے ساتھ سنجیدگی کے ساتھ بات چیت کرنا ہو گی اور یہ کام صرف وزیر اعظم نواز شریف ہی کر سکتے ہیں۔ تقریباً ہر ملک دہشت گردی کا شکار ہوا ہے لہٰذا وہ اب ہمیں ایک ہی بات سمجھائے گا کہ ہم اگر دہشت گردی سے دور رہنا چاہتے ہیں تو ہر ملک میں ہونے والی دہشت گردی کو مسترد کر دیں۔ دوسرے ملکوں کے دہشت گرد ہمارے ہیرو یا ہمارے مہمان نہیں ہونے چاہئیں۔
یہ کام اتنا مشکل نہیں‘ لیکن اس کے لیے تھوڑا سا حوصلہ، تھوڑی سی ہمت اور تھوڑا سا کردار چاہیے‘ اور تھوڑی سی کرپشن سے دوری بھی چاہیے تاکہ کوئی سیاسی قیادت کو بلیک میل نہ کر سکے۔ وزیر اعظم نواز شریف سے لاکھ اختلافات کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ افغانستان اور بھارت کے ساتھ وہی دوستی کرانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور انہیں کرنا چاہیے۔
میرا یہ کالم پڑھ کر جن لوگوں کا خون کھول اٹھا ہے‘ ان کو ٹھنڈا کرنے کے لیے یہ خبر ہے کہ دنیا کے بدترین پاسپورٹس میں پاکستان کا افغانستان کے بعد دوسرا نمبر ہے۔ پاکستان کے سرکاری افسران دنیا بھر کے صرف 29 ملکوں میں بغیر ویزے کے جا سکتے ہیں‘ تو صومالیہ کے پاسپورٹس پر دنیا میں 31 ملکوں میں جا سکتے ہیں۔ ہمارے پاسپورٹ سے زیادہ ویلیو تو اب صومالیہ کے پاسپورٹ کی ہو چکی ہے۔ باقی کرنی آپ نے اپنی مرضی ہے۔ جانے دیں۔ بہت ہو چکا۔ بہت لہو بہہ چکا۔ خود کو کچھ آرام دیں۔ کچھ اپنی سوچیں۔ کچھ بچوں کا خیال کریں۔ ملک کا سوچیں۔ باقی کرنی آپ نے اپنی مرضی ہے۔ بھگتیں گے عوام ہی‘ جنہیں خطے میں جاری دہشت گردی کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ پراکسی جنگوں کی قیمت پاکستان، بھارت، افغانستان تک کے بازاروں میں چکاتے عام لوگ، شاپنگ کرتی عورتیں، مائوں سے کھلونوں کے لیے ضد کرتے بچے اور کسی بینچ پر بیٹھے اپنی زندگی کی ڈھلتی شام کا نظارہ کرنے میں مصروف تھکے ہارے بوڑھے ہی ہیں۔