تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     11-08-2016

مظلوم عورت کا بھڑکتا غضب

فاکس نیوز کا کرتا دھرتا روجر ایلز بالآخر پکڑا گیا۔ اسے ملازمت سے بھی برخاست کر دیا گیا ہے اور سرعام اس کی تذلیل بھی کافی ہوئی۔ امریکی میڈیا میں اس کا ایک بڑا نام تھا۔ فاکس نیوز کی سلطنت اسی نے کھڑی کی تھی۔ اپنے مالکوں یعنی مرڈوک خاندان کے لئے اربوں روپے اس نے کمائے۔ چھہتر سالہ روجر ایلز کا باپ ایک مزدور تھا۔ فاکس نیوز کو امریکہ میں ناظرین کی تعداد کے لحاظ سے نمبر ایک ٹی وی چینل اسی کی محنت نے بنایا تھا۔ فاکس نیوز میں کام کرنے والی عورتوں کے انتخاب پہ بھی اس کا ذاتی ٹھپہ لگتا تھا۔ یہ سفید فام، سنہرے بالوں، نیلی آنکھوں، بھرے بھرے بدن اور رسیلے ہونٹوں والی پُرکشش عورتیں ہوتی تھیں۔ کاروباری نقطہ نظر سے ایسی عورتوں کا انتخاب ہمیشہ کارگر بھی رہا‘ مگر اب یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ ان تمام بیس برسوں میں روجر ایلز اپنے ادارے کی ان خواتین ملازمائوں کا جنسی استحصال کر رہا تھا۔ ان عورتوں میں سے ایک گریچن کارلسن بھی تھی۔ یہ خاتون ایک سابق ملکہ حسن ہے اور سالوں تک یہ ''فاکس اینڈ فرینڈز‘‘ کا نمائندہ چہرہ بنی رہی۔ روجر ایلز نے پہلے اس کا تبادلہ دوپہر کے وقت کے ایک پروگرام میں کیا اور پھر گزشتہ ماہ اسے ملازمت سے برخاست کر دیا۔ جواباً گریچن کارلسن نے روجر ایلز کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا۔ گریچن کارلسن کا کہنا ہے کہ روجر ایلز اسے جنسی طور پر ہراساں کرتا رہا ہے، اور اسے ہوسناک نظروں سے گھورتا رہتا تھا اور اسے ''سیکسی‘‘ پکارا کرتا تھا۔ اس نے الزام لگایا کہ روجر ایلز نے اسے نوکری سے اس لئے نکالا کہ وہ اس کے ساتھ جنسی تعلق استوار کرنے سے انکار کر رہی تھی۔ گریچن کے الزامات کے بعد مزید چھ عورتیں آگے آئیں اور انہوں نے بھی روجر ایلز پہ اسی قسم کے الزامات لگائے۔ فاکس کی میگا سٹار میگن کیلی کے الزامات اس ضمن میں سب سے زیادہ سنگین ثابت ہوئے۔ اس نے تحقیق کاروں کو بتایا کہ دس سال قبل جب وہ فاکس کی ایک نوجوان نمائندہ کے طور پر کام کر رہی تھی تو روجر ایلز کس طرح اسے جنسی طور پر ہراساںکرتا تھا۔ میگن کیلی نے بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے کہ اس وقت اپنے اس باس کے ہاتھوں اس پہ کیا کچھ گزری تھی۔ ان تفصیلات کے بعد تو روجر ایلز کی قسمت کا فیصلہ ہو گیا۔ اس بات کا سہرہ فاکس کے مالک روپرٹ مرڈوک کو جاتا ہے کہ انہوں نے ان شکایات پہ فی الفور تحقیقات کروائیں اور تحقیقات میں جب روجر ایلز قصوروار ثابت ہوا تو اسے فی الفور نوکری سے برخاست بھی کر دیا گیا۔ ہمارے پاکستانی میڈیا میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں ایسے سکینڈل ابھرتے ضرور ہیں لیکن مالکان حضرات کی نظر میں ایسی باتیں ''مردہ در ہنگامِ ورود‘‘ سمجھے جانے کے لائق ٹھہرتی ہیں۔ میڈیا کی چمک دمک یقیناً نوجوان خواتین کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور وہ اسے بطورِ پیشہ اس امید کے ساتھ اپناتی ہیں کہ ان کے مرد ساتھیوں کی طرح ان کے ساتھ بھی یکساں طور پر عزت کا سلوک کیا جائے گا؛ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض مرد ان خواتین کے ساتھ برتائو میں مخصوص تعصب سے کام لیتے ہوئے اپنی بیمار ذہنیت کا اظہار کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی نظر میں عورت محض حظِ بصارت کے لئے ہوتی ہے۔ عورت چونکہ ان کے خیال میں ''صنفِ نازک‘‘ ہے اس لئے اس کے ساتھ بدتہذیبی انہیں جائز محسوس ہوتی ہے۔ اسی ہفتے دنیا کی سب سے بڑی ایڈورٹائزنگ کمپنی ساچی اینڈ ساچی نے بھی اپنے چیئرمین رابرٹس کیون کو رخصت پہ بھیج دیا ہے۔ موصوف نے اپنے ادارے کی ایک خاتون اہلکار اور ایڈورٹائزنگ کی صنعت میں صنفی تنوع پہ نازیبا قسم کا تبصرہ کیا تھا۔ اس سے قبل معروف کری ایٹو ایجنسی جے والٹر تھامپسن کی ایک خاتون اہلکار نے بھی ایجنسی کے چیف ایگزیکٹو جی مارٹینیز پہ متعصبانہ اور نسل پرستانہ رویے کا الزام لگایا تھا۔ اس کمپنی نے تو اپنے سی ای او کا ہی ساتھ دیا تھا لیکن بعد میں خود مارٹینیز نے استعفیٰ دے دیا۔ امریکہ میں جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات میں افراد اور اداروں کے خلاف اقدامات ایک عام بات ہے۔ قانونی لحاظ سے اس شعبے میں تخصیص رکھنے والی باقاعدہ فرمز موجود ہیں۔ نیو جرسی میں جب ہم نے ایک ہوٹل میں کام شروع کیا تھا تو وہاں ایچ آر منیجر نے پورا ایک گھنٹہ ہمیں اس موضوع پر ایک لیکچر دیا تھا کہ جنسی طور پر ہراساں کئے جانے کی رپورٹ کیسے دینا ہو گی۔ ساٹھ کے عشرے میں جب بیٹی فرائیڈن نے The Feminine Mystique لکھی تو امریکہ میں حقوقِ نسواں کے حوالے سے گویا ایک معاشرتی انقلاب کا آغاز ہو گیا تھا۔ یہ امریکہ میں ان مردوں کے خلاف اٹھنے والی پہلی مؤثر آواز تھی جن کا احساسِ برتری عورتوں کی استعداد کی حد بندی کے ساتھ ساتھ اس کو سبوتاژ بھی کر رہا تھا۔ 1985ء میں اقوامِ متحدہ کے زیر اہتمام نیروبی میں خواتین کے بارے میں منعقدہ ایک کانفرنس کے دوران ہم نے بیٹی فرائیڈن کا انٹرویو لیا تھا۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ کس طرح ان کا شوہر اس کے ساتھ مار پیٹ کیا کرتا تھا اور کس طرح جب ان کا دوسرا بچہ ہونے والا تھا تو ان کے باس نے انہیں ملازمت سے برخاست کر دیا تھا۔ فرائیڈن نے تمام دنیا کی عورتوں کو اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے کا شعور دیا‘ خاص طور پر اس صورت میں جب ان کے ساتھ جسمانی یا جذباتی طور پر جنسی نوعیت کی زیادتی کی جا رہی ہو؛ تاہم ہر کہانی کے دو رُخ ہوتے ہیں۔ ایک قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ گریچن کارلسن اور میگن کیلی نے اپنے جنسی استحصال کے خلاف زبان دس سال بعد کھولی، وہ بھی اس وقت جب گریچن کارلسن کو نوکری سے نکالا گیا۔ فرض کیجئے اگر روجر ایلز نے اسے نوکری سے نہ نکالا ہوتا تو یہ سب نہ ہوا ہوتا۔ اسی طرح اگر میگن کیلی وہ سب تفصیلات نہ بتا دیتی تو روجر ایلز آج بھی فاکس نیوز کی باگ ڈور چلا رہا ہوتا۔ اسی لئے تو عمومی طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات یہ کام کرنے والی عورتیں اسی وقت ظاہر کرتی ہیں‘ جب ان کے ذاتی مفادات خطرے میں پڑ جاتے ہیں، یا پھر جب وہ توجہ پانا چاہتی ہیں یا صنفی فائدہ اٹھانا انہیں مقصود ہو تو پھر وہ جھوٹ کا سہارا لے کرجنسی استحصال کی کہانیاں گھڑ لیتی ہیں۔ پھر تسلیمہ نسرین کو بھی دیکھئے جسے مغرب میں بڑی پذیرائی مل رہی ہے۔ اسلام مخالف تحاریر لکھنے کے بعد وہ بنگلہ دیش سے فرار ہو گئی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے نیو یارک میں ایک تقریب کے دوران اس نے کہا تھا: ''میں کبھی مشہور نہیں ہونا چاہتی تھی، میں تو صرف اپنے ملک میں عورتوں کے حقوق کے لئے لڑنا چاہتی تھی۔ میری ماں مجھے کہتی رہتی تھی کہ میں اپنے بھائیوں سے کمتر ہوں‘‘۔ وہ یہ بھی بتا رہی تھی کہ اکثر اس کی ماں اس کے باپ کو نوکرانیوں کے ساتھ قابلِ اعتراض حالت میں پکڑ لیا کرتی تھی اور بڑی ذلت کے ساتھ پھر وہ ان نوکرانیوں کی چھٹی کرا دیا کرتی تھی۔ تسلیمہ نسرین کا ناول ''لجا‘‘ بنگالی زبان میں ہے۔ یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ بنگالی میں لفظ لجا کے معنی شرم کے ہوتے ہیں۔ یہ کتاب سب سے پہلے 1993ء میں چھپی تھی اور بنگلہ دیش میں اس پہ فی الفور پابندی لگ گئی تھی؛ تاہم مغرب کی توجہ پانے میں یہ کامیاب رہی اور اس نوجوان بنگلہ دیشی مصنفہ کو وہاں فی الفور ہیروئین کا درجہ حاصل ہو گیا تھا۔ جس تقریب کا ہم ذکر کر رہے تھے اس میں شامل بعض بنگلہ دیشیوں کا خیال تھا کہ تسلیمہ نسرین نے خود کو مظلوم ظاہر کرکے مغربی قارئین کی ہمدردیاں بٹوری ہیں۔ جنسی طور پر ہراساں کئے جانے کی خبریں پاکستان میں شاذ ہی شہ سرخیوں میں چھپتی ہیں۔ زیادتی کا شکار ہونے کے بعد بھی اکثر عورتیں خاموش رہنے کو ہی ترجیح دیتی ہیں اور اس کی مختلف وجوہ ہیں۔ سالوں پہلے ہم کراچی کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں سیلز کی نمائندہ کے طور پر کام کیا کرتے تھے۔ ہمارا باس کھلم کھلا ہراساں تو نہیں کرتا تھا لیکن اشاروں کنایوں میں وہ ایسی باتیں کر جاتا تھا مثلاً ہمارے لباس اور ظاہری شخصیت کے بارے میں ایسے تبصرے جن سے اس کے ارادوں کا اظہار ہوا کرتا تھا۔ ایک دن اس نے اپنی نوجوان اسسٹنٹ کو اپنے ایک بے ہودہ اور واہیات قسم کے مہمان کے لئے کافی بنا کر لانے کو کہا۔ یہ خبر جب جنرل منیجر کو پہنچی تو انہوں نے فی الفور اس شخص کو نوکری سے نکال باہر کر دیا۔ پاکستان میں ایک انگریزی گروپ آف نیوز پیپرز نے اپنے دفاتر میں جو انقلابی تبدیلی کی وہ بھی مثالی تھی۔ سٹاف میں انہوں نے چالیس خواتین شامل کی تھیں، اور ان خواتین مدیرات، مصنفات اور رپورٹروں کی بدولت حقوق سے متعلقہ موضوعات کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی تھی اور جائے ملازمت پہ عورتوں کو ہراساں کیا جانا انتہائی ناقابلِ برداشت ٹھہر گیا تھا۔ 2010ء میں ہمارے اراکینِ مقننہ نے بھی جائے ملازمت پہ عورتوں کو ہراساں کئے جانے کے خلاف ایک قانون کی منظوری دی تھی۔ اس قانون اور پھر اس پہ عمل درآمد کا کیا ہوا؟ اس بارے میں آج کسی کو کچھ خبر نہیں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved