بالی وڈ میں عجیب و غریب فلمیں ہی نہیں بنائی جاتی ہیں، عجیب و غریب انسان بھی پائے جاتے ہیں۔ بڑے پردے پر کامیابی کا حصول انسان کو کچھ کا کچھ بنا دیتا ہے۔ یہ کامیابی کم ہی لوگ ہضم کر پاتے ہیں اور اُن میں نصیرالدین شاہ کو شامل نہیں کیا جاسکتا۔ بڑے پردے کی بھرپور کامیابی نے نصیرالدین شاہ میں کہیں بھی تشکّر کا جذبہ پیدا نہیں کیا۔
نصیرالدین شاہ ایک بار پھر خبروں میں ہیں اور دکھ کی بات یہ ہے کہ اُنہوںنے اس بار بھی منفی جذبات کے اظہار کو میڈیا کی توجہ بٹورنے کا ذریعہ بنایا ہے۔ بالی وڈ کے پہلے سپر اسٹار آں جہانی راجیش کھنہ کے بارے میں چند نازیبا ریمارکس دے کر نصیرالدین شاہ نے فلمی خبروں میں نمایاں مقام پایا ہے۔ ایک انٹرویو میں اُنہوں نے کہا کہ راجیش کھنہ خاصے پست معیار کے اداکار تھے۔ اور یہ کہ اپنی بھرپور کامیابی اور شہرت کے دنوں میں اُنہوں نے سطحی اداکاری کرکے پوری انڈسٹری کا معیار گرادیا یعنی اِس کے بعد ہی بھیڑ چال شروع ہوئی! ان ریمارکس پر بہت لے دے ہوئی۔ راجیش کھنہ کی بڑی بیٹی ٹونکل کھنہ نے شدید ردعمل ظاہر کیا۔ چند بڑی فلمی ہستیاں بھی ان ریمارکس پر جزبز ہوئیں۔ جب ہر طرف سے ردعمل ظاہر ہونے لگا تو نصیرالدین شاہ نے اپنے ریمارکس پر شرمندگی ظاہر کی اور راجیش کھنہ کے چاہنے والوں سے معافی مانگی۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ راجیش کھنہ کو نان ایکٹر قرار دینے والے کم نہیں۔ ساتھ ہی ساتھ جیتیندر، دھرمیندر، ونود مہرا، متھن چکر ورتی اور انیل کپور کو بھی نان ایکٹرز میں شمار کیا جاتا ہے۔ اِن سب سے بہت پہلے راجندر کمار اور اُن سے بھی پہلے پردیپ کمار، شیکھر، جوائے مکھرجی اور بسواجیت کو نان ایکٹر قرار دیا جاتا تھا۔
ہر انسان کا حافظہ ایسے محل کے مانند ہوتا ہے جس میں چند تاریک کمرے بھی ہوتے ہیں۔ ان کمروں میں بہت سے راز مُقیّد رہتے ہیں۔ انسان چاہے یا نہ چاہے، اُس کے چند معاملات ایسے ہوتے ہیں جن کی بھیانک یادوں سے چھٹکارا پانا بہت حد تک تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ جب بھی کوئی ملتا جلتا معاملہ سامنے آتا ہے، انسان پریشان ہو جاتا ہے، بدحواسی کے گڑھے میں گر جاتا ہے اور پھر اُس کے لیے اپنے وجود کو متوازن رکھنا ممکن نہیں رہتا۔
نصیر الدین شاہ کا بھی کچھ ایسا ہی کیس ہے۔ انہوں نے پونا (مہاراشٹر) کے فلم انسٹی ٹیوٹ سے تربیت پانے کے بعد ممبئی میں قدم رکھا اور آرٹ فلموں سے کیریئر شروع کیا۔ اِن فلموں میں عوام برائے نام بھی دلچسپی نہیں لیتے۔ آرٹ فلموں میں زندگی کو اُس کے اصل روپ میں دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کوشش کے دوران فلم اِس قدر پھیکی، بلکہ بے ذائقہ ہوجاتی ہے کہ ایک نوالہ کھاتے ہی اُبکائی آنے لگتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ عوام اِن بے ذائقہ، پُھسپسی فلموں کو ایک آدھ سین کی حد تک بھی دیکھنا پسند نہیں کرتے۔
آرٹ فلموں میں کام کرنے والے بہت کوشش کرنے پر بھی بھرپور شہرت حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ایک تو اُن کی ''حقیقت پسندانہ‘‘ اداکاری اور پھر فلم کی پبلسٹی کا برائے نام اہتمام کرنے سے بھی گریز! ع
جیسے دُہری دھار کا خنجر چلے!
نصیرالدین شاہ آرٹ فلموں میں کامیاب تو ہوئے مگر شہرت نہ مل سکی۔ نام اور دام کمانے کے لیے مجبور ہوکر کمرشل فلموں کی طرف آئے اور بہت حد تک کامیاب رہے۔ کمرشل فلمیں ملنے لگیں تو اُنہیں پہچاننے اور سراہنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ اِس خوشگوار تبدیلی پر نصیرالدین شاہ کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے تھا مگر اِس کے بجائے اُنہوں نے کمرشل سینما پر طنز کے تیر برسانا شروع کیا۔ یُوں وہ متنازع ہوتے چلے گئے۔
ممبئی آمد پر نصیرالدین شاہ کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ابتدائی دور میں حالت یہ تھی کہ سَر چُھپانے کی جگہ بھی میسّر نہ تھی۔ دلیپ کمار کی ایک بہن کی مدد سے نصیرالدین شاہ نے اُن کے ہاں سَر چُھپانے کی جگہ حاصل کرلی۔ وہ کئی ماہ پالی ہل، باندرا میں دلیپ کمار کے بنگلے میں رہے۔
ناشکری کی انتہا یہ ہے کہ کمرشل سینما میں کامیابی پانے کے بعد نصیرالدین شاہ نے کئی مواقع پر دلیپ کمار اور دیگر بڑے اداکاروں کے بارے میں اہانت آمیز ریمارکس دیئے۔ نصیرالدین شاہ نے امیتابھ بچن کی اداکاری میں نقائص تلاش کرنے سے بھی گریز نہ کیا!
نصیرالدین شاہ کے بارے میں طرح طرح کی کہانیاں مشہور ہیں۔ اگر ان کہانیوں کو ذرا ڈھنگ سے ملایا جائے تو فقیدالمثال فلم تیار ہوگی جسے لوگ بہت شوق سے دیکھیں گے۔ اس فلم میں کامیڈی اور ٹریجڈی کے حسین سنگم کے ساتھ ساتھ کہیں ایکشن دکھائی دے گا اور کہیں سسپنس۔ کہانی کہیں تھوڑی سی رومانٹک ہوجائے گی اور کہیں اچانک ناکام عشق کے سمندر میں جا گرے گی۔
ممبئی کی فلم انڈسٹری میں اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے قابل رشک حد تک افسانوی شہرت رکھنے والے جاوید اختر کہتے ہیں کہ نصیر الدین شاہ کو ہر کامیاب انسان سے نفرت ہے۔ پہلے انہوں نے دلیپ کمار کا تمسخر اڑایا، پھر امیتابھ بچن کا۔ اور اب راجیش کھنہ ان کے نشانے پر آئے ہیں۔
جس کمرشل سینما نے نصیرالدین شاہ کو بھرپور شہرت اور دولت سے نوازا وہ اُسی کو کباڑ خانہ قرار دینے پر تُلے رہتے ہیں۔ بالی وڈ کی بڑی ہستیوں کو نیچا دکھانے کا اور کوئی طریقہ تو اُن کے پاس تھا نہیں اِس لیے اوچھے وار کرنے پر اُتر آئے۔ کئی انٹرویوز میں اُنہوں نے شمّی کپور کو اپنا پسندیدہ اداکار کہا ہے اور دارا سنگھ کو بھی اچھا اداکار قرار دینے کی حد تک گئے ہیں!
سب جانتے ہیں کہ شمّی کپور معمولی درجے کے یعنی برائے نام اداکار تھے۔ دارا سنگھ پروفیشنل پہلوان تھے۔ اکھاڑے میں نام کمانے کے بعد اُنہوں نے کیمرے سے کشتی لڑنے کا فیصلہ کیا۔ اُنہوں نے اسٹنٹ فلموں سے ابتداء کی اور بعد میں چند ایک بڑی کمرشل فلموں میں معمولی کردار ادا کیے۔ پہلوانی کے معاملے میں وہ جتنے تگڑے تھے اداکاری کے معاملے میں اتنے ہی کمزور تھے۔ ان کی اداکاری کا معیار کیا بیان ہو کہ وہ اداکار تھے ہی نہیں! کیمرے کے سامنے کھڑا ہو جانے والا ہر شخص اداکار قرار نہیں دیا جاسکتا۔
نصیرالدین شاہ کا شمّی کپور اور دارا سنگھ کو اپنا پسندیدہ اداکار ٹھہرانا بجائے خود بالی وڈ پر ایک گہرا طنز ہے۔ لاکھ کوشش پر بھی لوگ سمجھ نہیں پاتے کہ نصیرالدین شاہ بالی وڈ کی بڑی ہستیوں کو تسلیم کرنے سے کیوں گریزاں رہتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے وہ کسی پچھلے جنم کا بدلہ لینے پر تُلے ہوئے ہیں! جاوید اختر کی بات درست ہے کہ نصیرالدین شاہ کو اپنے شعبے کے ہر کامیاب انسان سے نفرت ہے۔ مگر خیر، نفرت کا کوئی ایسا سبب بھی تو ہونا چاہیے جو سمجھ میں آتا ہو۔
گزشتہ برس نصیرالدین شاہ پاکستان آئے تھے تب بھی انہوں نے چند ایسی باتیں کہی تھیں جن کی بنیاد پر بہت لے دے ہوئی تھی۔ انہوں نے دلیپ کمار پر تنقید کرتے ہوئے شمّی کپور اور دارا سنگھ کو معیاری اداکار قرار دیا تھا۔ صاف محسوس کیا جاسکتا تھا کہ اُنہوں نے دلیپ کمار، راج کپور، دیو آنند، امیتابھ بچن، شاہ رخ خان، عامر خان اور دوسرے بہت سے معیاری اداکاروں کو نظر انداز کرکے شمّی کپور اور دارا سنگھ کو پسندیدہ اداکار محض اس لیے قرار دیا کہ میڈیا والے نمک مرچ لگاکر رپورٹ کریں، کچھ لوگ ردعمل ظاہر کریں اور کئی دن تک میڈیا میں نام اُچھلتا، پُھدکتا رہے!
جدوجہد کے ابتدائی ایام میں ناکام ہو جانا حیرت انگیز نہیں۔ بہت سوں کو اِس بنیادی مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان ہر وقت گزرے ہوئے زمانے کو یاد کرکے روتا ہی رہے۔ بہت سے لوگ بھرپور کامیابی نصیب ہونے پر ابتدائی دور کی ناکامیوں کو بھول جاتے ہیں اور کامیابی کو ہر حال میں برقرار رکھنے پر خاطر خواہ توجہ دیتے ہیں۔
کچھ لوگوں کی روزی روٹی چلتی ہی اِس بات پر ہے کہ چند بڑوں کو چھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کی جائے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب میڈیا کی توجہ پانے کا نصیرالدین شاہ کے پاس یہی طریقہ رہ گیا ہے کہ بالی وڈ کے نو گزے پیروں کا قد گھٹانے کے لیے اُن پر کیچڑ اُچھالا جائے۔ سیدھی سی بات ہے، جب میڈیا میں بات اُچھلے گی تو کچھ دن خبروں میں رہنے کا اہتمام ہوجائے گا۔ گویا ع
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا!
باطن کا کھوکھلا پن اِنسان سے کیا کیا کرواتا ہے! بہت کچھ پاکر بھی نصیرالدین شاہ محرومیوں کے گڑھے میں گِرے ہوئے ہیں۔ اِس کہانی میں ہم سب کے لیے سبق ہے کہ جو مل جائے اُس پر شکر ادا کریں۔ ہر وقت طنز کے تیر برساکر دوسروں کا سُکون اور اپنا نام برباد نہ کریں۔ اوروں کا تو کیا بگڑے گا، ایسا کرنے سے اپنی ہی کامیابی کا مزا کِرکِرا ہو جاتا ہے۔