تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     12-08-2016

کاٹھی پہ کاٹھی

نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لیے سکیورٹی اداروں کی ٹاسک فورس کا قیام کاٹھی پہ کاٹھی ڈالنے کے مترادف ہے مگر ہماری منتخب سیاسی قیادت اور فوجی سربراہ نے دو روزہ سوچ بچار کے بعد دہشت گردوں سے نمٹنے کی یہی نادر تدبیر سوچی ہے۔ 
2015ء میں کل جماعتی کانفرنس اور پارلیمنٹ میں طویل مباحثے کے بعد تشکیل پانے والے نیشنل ایکشن پلان کو قومی سطح پر والہانہ تائید و حمایت ملی۔ سانحہ اے پی ایس کے زخم تازہ تھے اور عوام معصوم بچوں کے قاتل دہشت گردوں کے علاوہ ان کے حامیوں‘ سہولت کاروں اور مالیاتی مددگاروں کا مکمل خاتمہ چاہتے تھے۔ یہ پلان آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی نگرانی میں مرتب ہوا اور ساری قومی قیادت نے اس پر مہر تصدیق ثبت کی‘ ہر ایک کو امید تھی کہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں قومی جذبے کے تحت اس پر عملدرآمد کا اہتمام کریں گی مگر ع
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
دو تین ماہ تک جوش و خروش دیکھنے میں آیا مگر پھر یہ عملاً مساجد کے لائوڈ سپیکر کی آواز کم کرانے‘ لاہور اور کراچی کے اردو بازار میں بکنے والی کتابوں اور ان کے ناشروں‘ تقسیم کاروں کو پکڑنے اور دینی مدارس کے مہتمم حضرات سے مل کر نصاب تعلیم تبدیل کرنے کی ہدایات تک محدود ہو گیا۔ کراچی میں رینجرز اور بلوچستان میں ایف سی نے ریاست کے باغیوں اور دہشت گردوں کو طبی و مالیاتی سہولتیں فراہم کرنے والے بعض عناصر پر ہاتھ ڈالا مگر سیاسی جماعتوں کے شور و غوغا پر یہ کارروائیاں بھی دھیمی پڑ گئیں۔
مدرسہ اصلاحات کی شق پر کتنا عمل ہوا؟ فاٹا اصلاحات کمیٹی کی سفارشات پر اب تک عملدرآمد کیوں نہیں ہو سکا؟ مالیاتی سہولت کاروں کے خلاف پورے ملک میں کریک ڈائون نہ کرنے کا سبب کیا ہے‘ کریمنل جسٹس سسٹم کی تشکیل نو میں کس قدر پیش رفت ہوئی؟ چاروں صوبوں کی پولیس اور سول و خفیہ ایجنسیوں کی صلاحیت کار بڑھانے پر توجہ کیوں نہیں دی گئی؟ نیکٹا فعّال کیوں نہ ہو سکا؟ قوم نے پوچھا‘ نہ کسی نے بتایا۔ ڈیڑھ سال گزرنے کے بعد سانحہ کوئٹہ نہ ہوتا تو ردی کی ٹوکری میں پڑے نیشنل ایکشن پلان کو کوئی چھوتا‘ نہ اس کی گرد جھاڑتا۔ سکیورٹی اداروں نے ایپکس کمیٹی اور اعلیٰ سطح کے اجلاسوں میں اور قلمکاروں نے اپنی تحریروں میں توجہ دلائی مگر کسی نے درخور اعتنا نہ سمجھا ع
جو کہا تو سن کے اُڑا دیا جو لکھا تو پڑھ کے مٹا دیا
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے نیشنل ایکشن پلان کی منظوری پر وزیر اعظم نواز شریف نے کہا تھا میں اس کی نگرانی کروں گا۔ پارلیمنٹ کی نگرانی کی بات بھی ہوئی تھی اور لوگ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو بھی اس منصوبے کا نگران سمجھتے تھے کیونکہ یہ برین چائلڈ بھی جی ایچ کیو کا تھا جس پر سیاستدانوں نے خاصی رد و قدح کے بعد انگوٹھا لگایا۔ نیشنل ایکشن پلان کی روشنی میں فوجی عدالتوں کا فیصلہ ہوا اور پارلیمنٹ نے اکیسویں آئینی ترمیم منظور کی تو کئی ماہ تک سپریم کورٹ نے انہیں معطل رکھا اور وکلا برادری نے اس کی بھرپور مخالفت کی۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے اپنے حصے کا کام نہ کرنے کی وجوہات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں‘ میرٹ پر بھرتی کئے گئے اہلکاروں اور افسروں پر مشتمل پولیس فورس ہمارے سیاسی حکمرانوں کو پسند ہی نہیں۔ یہ ان کے ذاتی اور خاندانی مفادات کا تحفظ کر سکتی ہے‘ نہ سیاسی مقاصد کی تکمیل اور مخالفین سے نمٹنے میں مددگار۔
فاٹا طویل عرصہ سے دہشت گردی اور جرائم کا مرکز ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کی تشکیل اور کرائے کی قاتل تنظیم بننے سے قبل بھی یہ علاقہ سمگلروں‘ کار چوروں اور قاتلوں کی پناہ گاہ کے طور پر مشہور تھا اور پولیٹیکل ایجنٹ کے ذریعے حکمرانوں کے سیاسی و مالی مفادات کی تکمیل کا ذریعہ۔ اربوں روپے کے فنڈز کی خُرد برد آسان تھی اور فاٹا کے منتخب ممبر حکومتوں کی تشکیل و تحلیل میں موثر کردار ادا کرتے۔ موجودہ کریمنل جسٹس سسٹم حکمران اشرافیہ کو سازگار ہے اور عدالتی و انتخابی اصلاحات سے موجودہ عوام دشمن نظام 
خوفزدہ کیونکہ ایک مخصوص طبقہ کے لیے یہ منافع بخش کاروبار ہے‘ جبکہ دہشت گردی‘ ٹارگٹ کلنگ‘ بھتہ خوری کا نشانہ عام شہری بنتے ہیں۔ حکمران اشرافیہ کو ریاستی وسائل پر سرکاری اداروں کا تحفظ حاصل ہے اور پاک فوج‘ آئی ایس آئی اور دیگر سکیورٹی اداروں کا کسی آپریشن میں الجھے رہنا بہت سوں کے لیے مفید ہے۔ بھلا کوئی نیشنل ایکشن پلان پر عملی اور معنوی طور پر عملدرآمد کا اہتمام خوش دلی سے کیوں کرے۔ جو کام ڈیڑھ پونے دو سال میں نہیں ہو پایا وہ اگلے چار ماہ میں ہو سکتا ہے۔ ع
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
ایمانداری کی بات ہے کوئٹہ دھماکہ صرف پولیس اور دیگر سول اداروں کی ناکامی نہیں۔ جب کوئی فرد یا گروہ کسی سکول ہسپتال اور پارک میں تباہی مچانے کی ٹھان لے تو اسے کوئٹہ اور لاہور تو درکنار پیرس اور انقرہ و استنبول میں بھی روکنا ناممکن ہوتا ہے۔ پنجاب پولیس‘ سندھ اور بلوچستان کی پولیس سے زیادہ چوکس ہے۔ چھوٹو گینگ کی گرفتاری میں وہ ناکام رہی اور لاہور میں بچوں کے اغوا کے واقعات بھی اس کی نااہلی کا ثبوت ہیں مگر سی ٹی ڈی سے مل کر اس نے بہت سی کامیاب کارروائیاں کی ہیں۔ اس کے باوجود گلشن اقبال پارک کا سانحہ پیش آیا اور پولیس و خفیہ ادارے روک تھام نہ کر سکے۔ یہ پاکستان دشمنوں‘ ملک میں ان کے تربیت یافتہ اور حمایت یافتہ دہشت گردوں کے خلاف کھلی جنگ ہے جو جیتنے کے لیے کئی محاذوں پر مستعدی‘ چوکسی اور غیر معمولی اہلیت و صلاحیت کے علاوہ 
عوام کی شرکت ضروری ہے۔ کوئی مانے نہ مانے نیشنل ایکشن پلان کی تشکیل کے فوری بعد سیاسی اتحاد پارہ پارہ ہو گیا۔ اس کی تعبیر و تشریح پر مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی‘ ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے مابین اختلاف محاذ آرائی کی حدود کو چھو رہا ہے۔ سیاسی حلقے اُسے فوجی بالادستی کی نظر سے دیکھتے ہیں اور حکمران وفاقی جماعت میں بھی یہ سوچ اجنبی نہیں۔ جنرل راحیل شریف کی غیر معمولی فعالیت سے خوفزدہ حکمران ایکشن پلان کی کامیابی کو اپنے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ آپریشن ضرب عضب‘ کراچی آپریشن‘ بلوچستان آپریشن اور نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی کا کریڈٹ فوج کو جائے گا جبکہ وہ 2018ء کا الیکشن اس صورت میں جیت سکتے ہیں کہ بجلی کا بحران ختم ہو‘ میٹرو بس اور اورنج لائن ٹرین کے منصوبے مکمل ہوں اور نیا فوجی سربراہ ان کی مرضی سے تعینات ہو‘ جو انتخابات میں دوسرے اداروں کی طرح ان کی مدد کرے۔ اقتصادی راہداری منصوبے کی حفاظت تو کرے مگر کسی ادارے کی تشکیل اور فوج کی شراکت کا خواہش مند نہ ہو۔
ملک میں جان و مال‘ عزت و آبرو کا تحفظ ہر شہری کی خواہش اور ضرورت ہے مگر جس سست رفتار‘ فرسودہ‘ از کار رفتہ سیاسی‘ معاشی‘ قانون اور عدالتی ڈھانچے نے نیشنل ایکشن پلان کو ڈیڑھ سال تک مفلوج رکھا‘ دہشت گرد‘ مجرم ناقص تفتیش اور نظام شہادت کی وجہ سے انسداد دہشت گردی کی عدالتوں سے چھوٹتے رہے اور جہاں دہشت گردوں کا ہر مالیاتی سہولت کار کسی سیاسی جتھے سے تعلق کی بنا پر معصوم قرار پایا‘ وہاں مرکزی و صوبائی سکیورٹی فورسز کے نمائندوں پر مشتمل ٹاسک فورس نیشنل ایکشن پلان کو کامیابی سے ہمکنار کرے گی؟ وفاقی حکومت اور فوجی قیادت کے ہاتھ کوئی نئی گیدڑ سنگھی ہاتھ لگ گئی ہے تو چنداں مشکل نہیں مگر یہ دل ہے کہ مانتا نہیں۔ سیاستدان وقت حاصل کرنے اور سکیورٹی اداروں کو غچّہ دینے میں ماہر ہیں اور انتظار کرنے کے عادی۔ آج سے ایک سال قبل محمود خان اچکزئی اور مولانا محمد خان شیرانی پارلیمنٹ میں فوج اور خفیہ ایجنسیوں پر تنقید کرتے تو انہیں لینے کے دینے پڑ جاتے مگر اب صورتحال یہ ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ نثار علی خاں نے ان کی مذمت کی تو پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے پارلیمنٹ سے واک آئوٹ کیا اور میاں محمد نواز شریف اپنے وزیر داخلہ کا ساتھ دینے کے بجائے اپوزیشن کو منانے چل پڑے۔ خواجہ آصف زندہ باد۔ ناامیدی مگر کفر ہے اور نئی ٹاسک فورس کو اس وقت تک بھرپور عوامی اور سیاسی حمایت ملنی چاہیے جب تک یہ بھی نیکٹا‘ فاٹا اصلاحات کمیٹی اور ایپکس کمیٹیوں کی طرح اپنی افادیت کھو نہیں دیتی۔ ٹرک کی بتی کے پیچھے لگنے میں حرج ہی کیا ہے۔ جہاں ستیاناس‘ وہاں سوا ستیاناس۔ 
ہمارا خیال تھا دو روزہ اجلاس کسی متبادل‘ نتیجہ خیز اور زود اثر حکمت عملی پر غور کرے گا۔ خیر جانے دیجیے۔ دل خوش فہم کی امیدیں برقرار ہیں۔ ہمارا کیا جاتا ہے ہم خوش ہمارا خدا خوش۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved