تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     12-08-2016

کشمیر کے لئے کیسے اور کب اٹھو گے ، اے حکمرانو!

واہگہ بارڈرپر پاکستان اور ہندوستان کی پرچم کشائی کی تقریب دیکھنے گیا تو ہندوستانی علاقے میں ایک بڑے بورڈ پر نظر پڑی جس پر لکھا ہوا تھا ''دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک‘‘ یہ وہ فخریہ جملہ ہے جسے ہندوستان کی حکومت نے ہر اس جگہ آویزاں کر رکھا ہے جہاں غیر ملکیوں کا آنا جانا ہوتا ہے۔ ہندوستان کی وزارتِ خارجہ اس جملے کو پوری دنیا میں سفارت کاری کے لئے استعمال کرتی ہے۔ اس جملے سے ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک چین ہے، دوسرے نمبر پر ہندوستان ہے، اب چونکہ چین جمہوری ملک نہیں ہے لہٰذا جمہوری لحاظ سے بھارت ہی وہ ملک ہے جو دنیا میں سب سے بڑی جمہوریہ ہے چونکہ عالمی برادری میں عزت و وقار کا حامل وہی ملک سمجھا جاتا ہے جو جمہوری ہو، اس لحاظ سے ہندوستان کے حکمرانوں نے اپنی آبادی کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے آپ کو دنیا کا نمبرون عزت دار ملک بنا لیا اور اس کا اس قدر ڈھنڈورا پیٹا کہ اس نے دنیا سے اپنے اس مقام کو بہت حد تک منوا بھی لیا۔ دنیا میں دوسرا سکہ جو رائج ہے وہ سیکولرازم ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ ریاست کا مذہب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، لہٰذا ریاست اپنی رعایا کے ساتھ غیرجانبدار ہے۔ سب کے ساتھ میرٹ کی بنیاد پر وہ یکساں سلوک کرتی ہے۔ ہندوستان کی حکومت اور ان کے سفارت کاروں نے اس کا بھی خوب پروپیگنڈا کیا اور دنیا کو یہ باور کرایا کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ میں سیکولرازم کے سائے تلے مختلف مذاہب اور تہذیبوں کے لوگ سکون کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہندوستانی حکمرانوں نے ایک اور کام کیا۔ انہوں نے 57مسلمان ملکوں میں یہ پروپیگنڈا کیا کہ پاکستان سے زیادہ مسلمان بھارت میں رہتے ہیں اور وہاں مسلمانوں کو آزادی حاصل ہے، لہٰذا بھارت کو پاکستان سے زیادہ اہمیت ملنی چاہئے۔ انہوں نے عرب دنیا میں سفارتکار بھیجے تو مسلمان بھی بھیجے اور عربی زبان کے ماہر ہندو بھی بھیجے، یوں انہوں نے اس میدان میں بھی پاکستان کو پیچھے چھوڑا، سفارتی تعلقات اور تجارت وغیرہ میں بھارت ہم سے بڑھ کر ہمارے پڑوس کے ملکوں تک میں دخیل ہو گیا اور کامیابیاں حاصل کرتا چلا گیا۔
قارئین کرام! ماننا پڑے گا کہ ہمارے حکمران اور ہماری وزارت خارجہ ہندوستان کے ساتھ سفارتی، تجارتی اور ثقافتی میدانوں میں ناکام ہوتی چلی گئی۔ ہم دنیا کو نہیں بتلا سکے کہ ہندوستان جس آبادی کی بنیاد پر اپنے آپ کو بڑی جمہوریہ کہتا ہے، وہاں امریکہ، یورپ اور دیگر جمہوری ریاستوں کے عوام کی طرح ہندوستان کے عوام برابر نہیں ہیں۔ اس معاشرے کی ہندو اکثریت خود چار ذاتوں میں تقسیم ہے، ان چار کے بعد مزید سینکڑوں ذاتیں ہیں۔ سب سے نچلی ترین ذات دلت ہیں جن کو برابر کے حقوق حاصل نہیں ہیں۔ ان دلتوں کی تعداد کوئی 35کروڑ ہے۔ یہ جانوروں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے خلاف جب فسادات ہوتے ہیں تو ان کی بستیوں کے باسیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا جاتا ہے۔ تین کروڑ مسیحی لوگوں کے چرچوں کو جلایا جاتا ہے۔ راہبائوں کی آبرو ریزی کی جاتی ہے۔ آسٹریلیا سے آنے والے پادری اور ڈاکٹر ٹموتھی جیسے مسیحا کو ان کے ننھے بچے سمیت جیپ میں جلا دیا جاتا ہے۔ اپنے حقوق مانگنے کی پاداش میں ایک ہی دن میں ہزارہا سکھوں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کا حال سب سے بدتر ہے۔ ستر سال میں ہزاروں فسادات میں لاکھوں مسلمان جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ موجودہ وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی ریاستی حکومت کے تحت گجرات میں دو ہزار مسلمانوں کو زندہ جلا دیا تھا۔ بابری مسجد ہی کیا ہزاروں مساجد اور چرچ مسمار کر کے مندر بنائے جا چکے ہیں۔ اگر صرف الیکشن کا نام جمہوریت ہے تو یہاں جمہوریت ہے اور اگر جمہوری رویوں کا نام جمہوریت ہے تو وہ چین میں ہے، انڈیا میں نہیں۔ انڈیا میں تو گائے جیسے جانور کے تقدس کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کو سرعام قتل کیا جا رہا ہے۔ ان کے مونہوں میں گائے کا پیشاب اور گوبر ٹھونسا جا رہا ہے۔ اگر انسانیت کے ساتھ بہتر سلوک کا نام جمہوریت ہے تو یہاں جمہوریت کا نام و نشان نہیں ہے۔ ہندو توا پر ببانگ دہل عمل سیکولرازم کے ڈھکوسلے کا پول کھول رہا ہے۔
نہرو لیاقت پیکٹ کی رو سے پاکستان کی حکومت دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ ہندوستانی حکمرانوں کی ظالمانہ کرتوتوں کو ہندوستان اور پوری دنیا کے سامنے رکھنے کی پابند تھی اور ہے مگر بتلایا جائے کہ اس ذمہ داری کو کس حکمران اور سفارتکار نے پالیسی بنا کر پورا کیا؟ کشمیریوں کے رائے شماری کے حق کو نہ ماننا۔ یہ کہاں کی جمہوریت ہے اس جمہوریت کش استبداد کو پاکستان کے حکمرانوں نے دنیا کے سامنے مسلسل پیش کیوں نہیں کیا اور انڈیا کے چہرے پر جمہوریت کے نام سے جعلی نقاب کو کیوں نہیں اتارا؟
کشمیر کی موجودہ تکلیف دہ اور کربناک صورتحال اب دوسرے ماہ میں داخل ہو گئی ہے۔ راجناتھ کو چودھری نثار کا جواب بہت اچھا، نوازشریف کے بیانات خوب، مگر بتلایا جائے کہ ہندوستان کی آٹھ لاکھ فوج کے مظالم اور ان کے دستاویزی ثبوت قائد ملت کی کرسی پر بیٹھنے والوں نے کب اور کس قدر پیش کئے؟ یو این چارٹر اور جنیوا کنونشن کی رو سے پیلٹ گن جیسے ہتھیار‘ جو دوران جنگ بھی ممنوع ہیں‘ وہ احتجاج کرنے والے نہتے کشمیری لوگوں پر چلائے جا رہے ہیں، ان کو اندھا کیا جا رہا ہے۔ ہماری وزارت خارجہ 35دنوں بعد بھی اس ظلم کو عالمی ادارے میں پیش نہیں کر سکی۔ حقیقت یہ ہے کہ راجناتھ اور انڈین فوج کے افسران پر جنگی جرائم کے مقدمات چلانے کے لئے حکومت پاکستان کو عالمی عدالتوں کا رخ کرنے کا اعلان کر دینا چاہئے تھا۔ میرا اب بھی مشورہ ہے کہ کشمیر کے لوگوں سے ثبوت اکٹھے کئے جائیں۔ آج نہیں تو کل ان شاء اللہ کشمیر تو آزاد ہو گا مگر مجرموں کے ناموں کو سامنے آنا چاہیے۔بھارتی فوج کے کور کمانڈر، بریگیڈیئر اور کرنل وغیرہ جو ممنوعہ ہتھیار چلانے کا حکم دے رہے ہیں ان پر جنگی جرائم کے کیس ضرور چلنے چاہئیں۔ سربیا کے ظالموں کی طرح مستقبل میں انڈین ظالموں کو کٹہرے تک پہنچانے کے ثبوت اکٹھا کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟
انتہائی دکھ ہوتا ہے جب امریکہ یہ کہتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر ہندوستان کا داخلی مسئلہ ہے، اہل انصاف امریکی حکمرانوں سے یہ سوال کرتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ اگر ہندوستان کا داخلی مسئلہ ہے تو پنڈت جواہر لعل نہرو جو ہندوستان کے پہلے وزیراعظم تھے انہوں نے اس مسئلے کو یو این میں کیوں پیش کیا؟ انہوں نے اس مسئلے کو خارجی مسئلہ کیوں بنایا؟ جی ہاں! جس مسئلے پر پہلے وزیراعظم نے دنیا کو فریق بنایا، عالمی ادارے کو ریفری، منصف اور جج بنایا، وہ مسئلہ ہندوستان کا داخلی مسئلہ کیسے بن گیا؟ کیا امریکہ کی وزارت خارجہ جواہر لعل نہرو سے بڑھ کر انڈیا کے مفاد کی علمبردار ہے؟ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت پاکستان نے ایسے کھرے اور دو ٹوک انداز سے تسلسل کے ساتھ کب امریکہ کو آگاہ کیا اور کب دنیا کو بتلایا کہ امریکہ کا مذکورہ مؤقف تاریخی حقیقت اور عدل کے یکساں خلاف ہے؟ ہمارے حکمران اپنی حکمرانی کے لئے لاکھوں اور کروڑوں ڈالر خرچ کر کے امریکہ میںلابسٹ مقرر کرتے ہیں جو امریکی اشرافیہ سے مل کر ان کو قائل کرتے ہیں کہ حکمرانی کے لئے مذکورہ صاحب مفید ہیں۔ کشمیر کے لئے لابنگ کون کرے گا؟ کشمیر کمیٹی نے آج تک کیا کیا اور کیا کر رہی ہے؟ مظلوموں کی تحریک تسلسل کے ساتھ دوسرے مہینے میں داخل ہو گئی مگر ہم تو ابھی تک اپنے اداروں کی سابقہ کارکردگی کا جائزہ تک نہ لے سکے اور نہ ان کو فعال کرنے کا عملی ثبوت دے سکے، نہ بیانات سے آگے بڑھ کر اسلامی دنیا کو متحرک ہی کر سکے۔ مقبوضہ کشمیر کی وادی میں کشمیریوں کی تعداد 70لاکھ ہے جبکہ فوج کی تعداد آٹھ لاکھ ہے یعنی عورتوں، شیرخوار بچوں سمیت آٹھ افراد پر ایک فوجی متعین ہے۔ دنیا میں ایسی جنگی صورتحال کہاں ہے؟ یقینا کہیں نہیں ہے۔ جی ہاں! یہ فوج نہتے عوام سے جنگ کر رہی ہے، ہم نے اس صورتحال کو جنگی صورتحال باور کروا کر سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کی کیا تیاری کی ہے؟ کیا کشمیریوں کے مٹ جانے پر ہی ہم ماتم کریں گے اور آنسو بہائیں گے۔ آخر اب نہ اٹھے تو کب اٹھیں گے، اے وارثان قائداعظم اور قائد ملت؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved