لیپا پوتی کی کوشش ناکام ہوئی اور یہ واضح ہو گیا کہ دہشت گردی پر حکومت کے طرز عمل سے فوج مطمئن نہیں۔ یہ محمود اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن ایسے کارندوں کو اپنی ہی فوج کے خلاف استعمال کرنے کا نقد نتیجہ ہے‘ غیر ضروری چالاکی کا۔ اپنی عقلوں کے گرداب میں گھرے احمقوں کے سوا سب جانتے ہیں۔ یہ علت و معلول کی دنیا ہے۔ ہر چیز اپنا نتیجہ پیدا کرتی ہے ‘ ہمیشہ ۔ متاع دانش ہے‘ چالاکی نہیں۔
پنجاب کی ایک لوک کہانی یہ ہے : رئیس نے ملازم رکھا‘ قیلولے کے بعد جو دودھ پلایا کرتا۔ شبہ ہوا تو ایک دوسرے نوکر کو نگرانی کے لیے کہا گیا۔ پہلے نے اسے گانٹھ لیا۔جس طرح ٹاک شوز میں اشتہارات سے بھی زیادہ پانی ۔ اب تین پائو ملایا جانے لگا۔ مالک کو شک گزرا۔ بقول مشتاق یوسفی‘ اس شک میں کوئی شبہ نہ تھا۔ اب ایک تیسرے کی ضرورت پڑی۔ وہ نر ا میڈیا سیل تھا۔ اب مونچھوں پر بالائی لگا دی گئی۔ یک زبان پھر تینوں نے کہا : بھول گئے سرکار‘ آپ نوش فرما چکے۔
دہشت گردی کے انسداد کی ٹاسک فورس وہی آئینہ ہے‘ مونچھوں پر بالائی۔ اس ہنر میں‘ میاں صاحب اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ سابق وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی راوی ہیں کہ کچھ لوگوں سے‘ بعض وعدے میاں صاحب نے کیے۔ سردار صاحب نے ان سے کہا : میاں صاحب! اس پیمان کو پورا کرنا مشکل ہو گا۔ وہ ہنسے اور کہا : کون سا پیمان؟
کچھ چیزیں میاں صاحب نے پہلے ہی سیکھ لی تھیں‘ کاروبارمیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ KINSHIP پہ استوار ہے۔ ذاتی تعلقات اور سرپرستی کا سلسلہ۔ عمران خان نون لیگ ایک مافیا کہتے ہیں‘ تو ایک اعتبار سے بالکل درست کہتے ہیں۔ ہر سطح پر بارسوخ لوگوں سے ان کا رابطہ ہے۔ جو سازگار ہو‘ اس کی اعانت کرتے رہتے ہیں۔ مگر کوئی رشتہ اور کوئی تعلق‘ ایسے لوگوں کے لیے دائمی نہیں ہوتا۔
ایک تجربہ جنرل حمید گل نہایت رنج سے بیان کیا کرتے ۔ 1990ء کا الیکشن جیتا جا چکا تو وہ میاں محمد شریف مرحوم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ کہا کہ اب کاروبار کو انہیں مزید فروغ نہ دینا چاہیے۔ ان کا جواب یہ تھا : اب تو ہمارا وقت آیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ محنتی اور جاہ طلب اسحاق ڈار ملازمت کے سلسلے میں ان سے ملے تھے۔ مردم شناس میاں صاحب نے انہیں پہچان لیا اور سرپرستی کا آغاز کیا۔ باقی تاریخ ہے۔
جینئس اور فصیح و بلیغ مگر منتقم مزاج بھٹو نے اتفاق فاونڈری چھینی تو بڑے میاں صاحب نے کہا : ہم سے تو سیاستدان اچھے۔ انہوں نے ادراک کر لیا اور اکثر سرمایہ کار کر لیتے ہیں کہ رسوخ کے بغیر اس معاشرے میں جائز سے جائز کاروبار بھی آسانی سے چلایا نہیں جا سکتا۔
مطلوب اور مفید تھے تو جنرل غلام جیلانی خان کے تابع مہمل تھے اورجنرل محمد ضیاء الحق کے بھی۔ 1985ء میں جب پنجاب اسمبلی میں عدم اعتماد کی قرارداد منظور ہونے کا امکان تھا‘ ضیاء الحق میدان میں اترے اور اعلان کیا: نوازشریف کا ''کلّہ‘‘ مضبوط ہے۔ یہ بھی کہا کہ اللہ ان کی زندگی بھی نوازشریف کو لگا دے۔ اللہ نے ان کی دعا قبول کی‘ اگرچہ اس طرح نہیں مانگی گئی تھی‘ جس طرح ظہیر الدین بابر نے اپنے فرزند کے لیے۔ جنرل کو ان پر کس قدر اعتماد تھا۔ جنرل غلام جیلانی خان کو بھی‘ تمام تر ذہانت اور عمق کے باوجود ‘بعض اعتبار سے جو ایک روایتی آدمی تھے‘ وضع دار۔
جیسا کہ ان کے نام سے ظاہر ہے ‘ چار عظیم ترین صوفیا میں سے ایک ‘شیخ عبدالقادر جیلانیؒ سے ان کے خاندان کو عقیدت تھی۔ اگر کوئی گیلانی ان کے پاس چلا آتا تو اس کے لیے فکرمند ہوتے۔ کسی رفیق‘ ماتحت سے سفارش کرتے تو یہ کہتے : یہ گیلانی ہیں اور میں غلام گیلانی۔
میاں محمد نوازشریف کی انہوں نے تربیت کی۔ پہلے ایک چھوٹی وزارت دی‘ پھر وزارت خزانہ۔ ایسا کچھ غلط بھی نہ کیا‘ اور کون ٹوڈرمل وہاں رکھا تھا۔ علم نہ سہی‘ قوت عمل تو تھی ۔ سالانہ میزانیے کے موقع پروزیر خزانہ کی حیثیت سے میاں صاحب اسلام آباد جا رہے تھے ۔ ان سے کہا گیا کہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے 50ارب مانگیے ‘اگر نہیں تو 45ارب ۔ 35ارب سے کم پر بالکل مفاہمت نہ کیجیے گا۔ اجلاس ہوا تو چھوٹتے ہی انہوں نے کہہ دیا :پچاس ارب‘ وگرنہ 45 یہ بھی نہیں تو 35 ۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ وہ سادہ لوح ہیں۔سادہ لوح میاں صاحب کبھی نہ تھے۔ممکن ہے سادگی کا تاثر اجاگر کرنا ہو۔
17اگست 1988ء تک آئی ایس آئی کے سربراہ‘ جنرل اختر عبدالرحمن سے پابندی کے ساتھ مشورہ کیا کرتے۔ جنرل جیلانی سے بھی‘ حالانکہ ان سے جان چھڑالی تھی۔بعدازاں جنرل محمد ضیاء الحق کی اولاد سے کیا سلوک کیا؟
میرے خالہ زاد بھائی میاں محمد یٰسین کے جنرل محمد ضیاء الحق کے ساتھ گہرے ذاتی مراسم تھے ‘بہت پہلے سے۔ ذاتی کام وہ کبھی نہیں کہتے اور دوستوں میں مقبول بہت تھے بلکہ اپنی شائستگی‘ رواداری ‘ حلم اور خوش کلامی سے محبوب۔ نواز شریف ان سے رابطہ رکھتے اور ان کے چھوٹے بھائی سینیٹرطارق چوہدری سے بھی۔
ایک دن میاں صاحب نے طارق چوہدری سے کہا: جنرل جیلانی میرے محسن اور مربی ہیں‘لیکن وہی اگر گورنر ہوں تومیں کہاں کا وزیر اعلیٰ۔ یہ قدرے طویل داستان ہے کہ کس طرح جنرل جیلانی سے جان چھڑائی گئی۔ یہ تاثر صحیح نہیں کہ جنرل جیلانی کے میاں صاحب مخالف ہو گئے تھے ۔ ان کا وہ خیال رکھتے۔ ایسی احسان مندی کے مگر وہ قائل نہیں کہ مفادات پہ زد پڑے۔
سرتاپا وہ ایک مادہ پرست ہیں‘ نظریات سے کوئی واسطہ نہیں۔ بھارت کو پاکستان کا دشمن سمجھتے تھے‘ ذاتی ضرورت پڑی تو دوست بنانے پر تل گئے۔ کاروباری احتیاج اور امید کے تحت‘ اب باجگزار بننے کو تیار ہیں۔ پرویز رشید اور نجم سیٹھی قسم کے لوگوں سے یہی ان کی قدر مشترک ہے۔ سیاست کے علاوہ شریف خاندان کے اکثر گھروں میں دو ہی چیزوں پر تبادلہ خیال رہتا ہے: ''آج کیا پکا‘‘اور ''آج کیا کمایا‘‘۔
افسوس کہ اس موضوع پر تحقیق کا ڈول نہ ڈالا گیا۔امام حسن‘ اپنے عہد کے عظیم ترین اہل علم میں سے ایک تھے۔ ان کے اقوال میں سے ایک یہ ہے: اقتدار یا دولت سے کمزوریاں جنم نہیں لیتیں بلکہ پہلے سے موجود نقائص نمایاں ہو جاتے ہیں۔
غلبے کی انسانی جبلت بہت طاقتور ہے ۔جنرلوں کی جب ضرورت نہ رہی تو میاں صاحب جمہوریت کے علمبردار بن گئے۔ قصور ان کا نہیں‘ عسکری قیادت اور اس قوم کا ہے‘ جس نے انہیں پالا پوسا اور اب فریاد کناں رہتی ہیں۔
چھ ہفتے میاں صاحب نے لندن میں گزار دیے۔ ایک ایسے آپریشن کے لیے آسانی سے جو لاہور میں ہو سکتا تھا۔ پھر کچھ دن لاہور میںجو ۔وقت حاصل کرنے کے لیے وہ آرزو مند تھے کر لیا۔ اکثر کرلیتے ہیں۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں ‘شریف خاندان سے زیادہ بڑا مسئلہ‘ان کے حریف ہیں ...کم کوش!
اکثر لیڈروں کی طرح‘ میاں محمد نواز شریف قوم اور اس کے مسائل سے بے نیاز ہیں۔ اولین ترجیح اقتدار ہے اور کاروبار زرگری۔ عام پاکستانی کی ناسور بنتی ہوئی زندگی ان کا درد سر ہے اور نہ ملک کا مستقبل ۔حافظے کمزور ہیں اور عزم ان سے کمزور تر۔ غلامی کے مارے معاشرے اس بچے کی طرح ہوتے ہیں‘ جس کا دودھ چھڑانا مشکل ہو۔
لیپا پوتی کی کوشش ناکام ہوئی اور یہ واضح ہو گیا کہ دہشت گردی پر حکومت کے طرز عمل سے فوج مطمئن نہیں۔ یہ محمود اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن ایسے کارندوں کو اپنی ہی فوج کے خلاف استعمال کرنے کا نقد نتیجہ ہے‘ غیر ضروری چالاکی کا۔ یہ علت و معلول کی دنیا ہے۔ اپنی عقلوں کے گرداب میں گھرے احمقوں کے سوا سب جانتے ہیں کہ ہر چیز اپنا نتیجہ پیدا کرتی ہے ‘ ہمیشہ! متاع دانش ہے‘ چالاکی نہیں۔