کل رات یہ عاجز نارووال میں تھا جہاں شاعر اور وہاں کے اے ڈی سی طارق کریم کھوکھر نے ایک محفل مشاعرہ برپا کر رکھی تھی جس کے مہمان خصوصی انور مسعود تھے اور دیگر مہمان شعرا میں شاہد ذکی‘ رانا عامر لیاقت اور محمد ادریس قریشی وغیرہ تھے۔ اس دورے کی سب سے عمدہ بات یہ رہی کہ برسوں کے بعد خوبصورت شاعر زاہد ہُما سے ملاقات ہو گئی جو وہاں پر ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ مشاعرہ ہال بہت بڑا ہونے کی وجہ سے کسی سائونڈ سسٹم سے محروم تھا جس سے آواز پھٹتی اور وہاں پڑھی جانے والی چیزوں کی صاف سمجھ نہ آتی تھی۔ مشاعرہ کے کمپیئر خود طارق کریم کھوکھر تھے۔
نارووال ہمارے کرم فرما پروفیسر احسن اقبال کا شہر ہے‘ صاف ستھرا اور کھلا کھلا۔ اس علاقے میں داخل ہوتے ہی سڑک کے دونوں طرف حد نظر تک دھان کی فصل موجیں مارتی نظر آتی ہے۔ اگیتی فصل باقاعدہ سٹے بھی نکال رہی ہے اور جب یہ پکنے کے قریب آتی ہے تو ایک مخصوص خوشبو بھی چھوڑتی ہے۔ آبِ رواں کی پہلی غزل کا ایک شعر ہے ؎
پھر سرِ صبح کسی درد کے در وا کرنے
دھان کے کھیت سے اک موجِ ہوا آئی ہے
یہ فصل پانی بہت مانگتی ہے‘ حتیٰ کہ یہ بوئی بھی کھڑے پانی میں جاتی ہے جبکہ چاول پکانے کے لیے بھی کھلا پانی درکار ہوتا ہے اور چاول کھانے کے بعد بھی پانی کا استعمال کچھ ضرورت اور معمول سے زیادہ ہی ہو جاتا ہے جسے رات بھر بار بار نکالنا بھی پڑتا ہے۔ دھان کی کاشت کے حوالے سے شیخو پورہ اور گوجرانوالہ بھی ایسے ہی علاقے ہیں جہاں رات کو کوئی اُٹھ کر پوچھے کہ کتنی رات گئی ہے تو کچھ ایسا جواب ملتا ہے کہ تین پیشاب گزر گئی ہے اور دو پیشاب رہ گئی ہے!
مشاعرے کے بعد رات واپسی کا ارادہ تھا لیکن بتایا گیا کہ وہاں رات کا سفر محفوظ نہیں ہے اور ڈاکوئوں کو شاید پتا بھی ہوتا ہے کہ مشاعرہ پڑھ کر آنے والوں کی جیب میں پیسے بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ رات وہاں طارق کریم کی میزبانی سے لطف اندوز ہوئے اور واپسی صبح کو ہوئی۔ راستے میں ہم حسبِ توفیق مینہ بھی برساتے آئے۔ انور مسعود اپنی ''بنین‘‘ بیچنے اسلام آباد سے آئے تھے اور محمد ادریس قریشی اپنا مزاح بکھیرنے منڈی بہائوالدین سے۔ سامعین میں ضلع کے افسر بھی شامل تھے اور دو خواتین بھی جن کے بارے میں انور مسعود کا کہنا تھا کہ یہ خواتین نہیں بلکہ خوادین ہیں کیونکہ دو ہیں تین نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایک مشاعرے میں ایک بہت فربہ خاتون شریک تھیں تو ضمیر جعفری نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ خواتین کی اکثریت ہی مشاعرہ سننے چلی آئی ہے! انور مسعود نے ماضی کے ایک طویل سفر کا ذکر بھی کیا جو کسی مشاعرے ہی کے سلسلے میں ہم نے اکٹھے کیا تھا جو مجھے بس تھوڑا تھوڑا ہی یاد تھا اور جس کے دوران ہم نے فارسی شاعری اور شاعروں پر بھی کھل کر بات کی تھی۔ میں نے انہیں یاد دلایا کہ اس وقت آپ نے مولانا گرامی کا یہ شعر بھی سنایا تھا ؎
بوسۂ بے ادبم بر تو چُناں کرد ہجوم
کہ لبِ لعلِ تُرا فرصتِ دُشنام نبود
انہوں نے تصحیح کرائی کہ یہ شعر مولانا گرامی کا نہیں بلکہ غنیمت کنجاہی کا ہے۔ سخت شرمندہ ہوا کہ میں یہ شعر کہیں مولانا گرامی کے نام سے درج کر چکا تھا۔
اپنے کل والے کالم میں برادرم محمد اظہار الحق نے میرا ایک مصرع ع
کہاں کا پھول تھا لیکن کہاں پر آ کِھلا ہے
کے بارے پوچھا تھا کہ اس کا دوسرا مصرع کیا ہے لیکن یہ مجھے بھی یاد نہیں‘ صرف اتنا یاد ہے کہ یہ میری کتاب ''غبار آلود سمتوں کا سراغ‘‘ میں شامل چار نعتوں میں سے ایک کا ہے۔ انہوں نے کتاب کے لیے مکرّر فرمائش بھی کی لیکن یہ ایک عرصے سے آئوٹ آف پرنٹ ہے اور اس کا کوئی نسخہ میرے پاس بھی نہیں ہے۔ یہ کتاب میرے کلیات ''اب تک‘‘ میں بھی شامل ہے لیکن میرے پاس وہ بھی موجود نہیں تھی اور اظہار ایسی سب کتابیں آسٹریلیا میں چھوڑ آئے تھے۔ سو‘ اس کی جلد اوّل کا ایک نسخہ میں نے اپنے دوست اقتدار جاوید سے ادھار لے کر مسودہ کے طور پر ''رنگِ ادب‘‘ والوں کو کراچی بھیجا ہے جہاں سے یہ سب جلدیں چھپیں گی۔ البتہ کوئی پچیس تیس سال پہلے جب یہ کتاب (غبار آلود سمتوں کا سراغ) شائع ہوئی تھی تومحبی ہارون الرشید غریب خانے پر تشریف لائے تھے جو میں نے انہیں پیش کی تھی؛ چنانچہ ہو سکتا ہے اظہار کا مسئلہ صاحب موصوف ہی حل کر سکیں۔
ہماری پیاری دوست ڈاکٹر صغریٰ صدف نے آج والا کالم شاعر اور کالم نگار منصور آفاق کے بارے میں لکھا ہے جس میں وہ کہتی ہیں کہ اس کی خوبیاں کالم میں بیان نہیں ہو سکتیں لیکن اتنا کہا جا سکتا ہے کہ وہ میرؔ‘ غالبؔ‘ داغؔ، اقبالؔ‘ فیضؔ اور ظفر اقبال کی لائن میں کھڑا ہے۔ اس سخاوت کاشکریہ لیکن یہ دراصل ن۔ م راشد‘ مجید امجد اور منیر نیازی کی جگہ تھی جو انہوں نے مجھے اور منصور آفاق کو الاٹ کر دی ہے اور اس میں دوست داری کی کارفرمائی زیادہ لگتی ہے کیونکہ شاعر کا صحیح اندازہ اس کے مرنے کے کافی عرصہ بعد ہی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کاغذ پر بھی زندہ ہے یا نہیں۔ ہو سکتا ہے ہم دونوں کی شہرت کالم نگاری ہی کی وجہ سے ہو۔ اس لیے میں اپنا نام تو اس فہرست سے نکال رہا ہوں اور منصور آفاق کا معاملہ خود اس پر چھوڑتا ہوں۔
ہمارے ایک متجسّس اور محقق کرما فرما فرہاد احمد فگار نے بتایا ہے کہ ایک روزنامے میں آج ایک صاحب نے منیر نیازی کا مشہور شعر تنویر نقوی سے منسوب کر دیا ہے حالانکہ وہ منیر نیازی کے مجموعۂ کلام میں موجود ہے یعنی وہی شعر جو منیر نیازی کا شناختی کارڈ بن کر رہ گیا تھا کہ ؎
کُجھ اُنج وی راہواں اوکھیاں سن کجھ گل وچ غم دا طوق وی سی
کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی
اس شعر کا لطیفہ یہ ہے کہ یہ دراصل پنجابی کے ایک معروف شاعر جانباز جتوئی یا طالبؔ جتوئی کا شعر تھا جو اس کے بارے میں واویلا بھی کرتا رہا لیکن منیر نیازی اس سے دستبردار نہ ہوئے۔ میں نے اس پر کالم بھی لکھا تھا اور ساتھ یہ دلیل بھی دی تھی کہ یہ جو دو شعر منیر نیازی اکثر سنایا کرتے تھے‘ پہلا شعر جس کا مصرعِ اوّل ہے ع
کس دا دوش سی کس دا نئیں سی، ایہہ گلاّں ہُن کرن دیاں نئیں
اس کی بحر ہی دوسرے شعر سے مختلف ہے جس سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دو شعر ایک شاعر اور ایک ہی نظم کے نہیں ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔
اور اب ایبٹ آباد سے نسیمؔ عباسی کے دو شعر ؎
میں فائز اِس مقام پہ یوں ہی نہیں ہُوا
دُنیا کو دیکھ بھال کے گوشہ نشین ہُوا
تُجھ سے بچھڑ کے صورتِ احوال اور تھی
میں ٹھیک ٹھاک بعد میں جا کر کہیں ہُوا
آج کا مقطع
ظفرؔ ‘ جانے کی جلدی تھی کچھ اِتنی
کہ پیچھے رہ گیا سامان سارا