تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     13-08-2016

ساتواں بحری بیڑہ

کوئٹہ میں کی گئی بدترین دہشت گردی کے خلاف جونہی وائٹ ہائوس کے ترجمان، صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے سخت مذمتی دیا، جس کی داڑھی میں تنکا تھا، اس نے فوری طور پر اپنے لشکر کے میمنہ اور میسرہ کو آگے بڑھنے کے اشارہ دے دیا۔ چنانچہ وہ لشکر جس میں جمہوریت کے خزانوں سے سب سے زیادہ فیض یاب ہونے والے ڈیورنڈ لائن فیم محمود خان اچکزئی اور مولانا شیرانی پییش پیش ہیں نے،کوئٹہ میں 72 انسانوں کا خون پینے والے ڈریکولا کو بے گناہ ثابت کرنے کے لئے افواج پاکستان اور اس کی خفیہ ایجنسیوں پر نوکیلے پتھروں کی بارش کر دی۔ حضرت مولانا فضل الرحمان اپنے حصے کا کام نمٹانے کے لئے میڈیا کے کیمروں کے سامنے گرجنے لگے۔ ابھی وہ سانس لینے کے لئے رکے ہی تھے کہ ملک کے چیف ایگزیکٹو نے قومی اسمبلی میں اے این پی کے پارلیمانی لیڈر غلام احمد بلور کو طلب کر لیا۔ وہ ابھی ایوان وزیر اعظم سے نکلنے کے لئے تیار ہو رہے تھے کہ ان کی جماعت کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات زاہد خان کا بیان کھڑاک سے سامنے آ گیا کہ ''اچکزئی نے جو کچھ کہا وہ ہمارے دل کی آواز ہے‘‘۔ پھر''اتفاق‘‘ سے چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے ان سب کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے لقمہ دیا کہ اب اختیارات کی بات بھی ہو جانی چاہئے اور تمام بنیادی فیصلے ریاست کو کرنے چاہئیں نہ کہ کسی اور کو۔ ان کے اس بیان سے لگتا ہے کہ شاید ابھی18ویں ترمیم کا زہر آلود خنجر ملک کی سالمیت کی پیٹھ میں گھونپنے سے ان کی تسلی نہیں ہوئی۔
اب پاکستان کس سے کہے کہ بلال انورکاسی کو کس نے قتل کیا، سول ہسپتال میں خود کش دھماکہ کرکے 72 انسانی جانوں کا خون کس نے بہایا اور120افراد کو کس نے شدید زخمی کیا؟ جیسے ہی یہاں میمنہ اور میسرہ کے حملے شروع ہوئے، دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر عبد الباسط کو بھارتی وزارت خارجہ میں طلب کرکے پاکستان کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر دراندازی کا الزام دھر دیا گیا۔ ان سے کہا گیا کہ پاکستان لشکر طیبہ کے ذریعے کشمیر میں دہشت گردی کرا رہا ہے اور بھارت نے جیابگا رائیونڈ کے رہائشی20 سالہ بہادر علی عرف ابو سیف اﷲ کو 25 جولائی کو بھاری اسلحہ سمیت کشمیر سے گرفتار کیا ہے۔
1971ء میں پاکستان نہ جانے کون سے بحری بیڑے کا انتظار کر رہا تھا جسے آنا تھا نہ آیا، لیکن سب نے دیکھا کہ 8 اگست کو جب کوئٹہ میں ہائیکورٹ بار کے صدرکو قتل اور پھر 72 سوگوار وکلا کو سول ہسپتال میں شہید کر دیا گیا اور اس منظم دہشت گردی پر پاکستان کا ہر ہاتھ اور ہر آنکھ اپنے ازلی دشمن کی جانب اٹھنا شروع ہوئی تو ساتواں بحری بیڑہ فوری طور پر نریندر مودی کی مدد کو پہنچ گیا اور اس شان سے پہنچا کہ قومی اسمبلی کے ایوان میں کھڑے ہوکر سرکاری ریکارڈ کا حصہ بناتے ہوتے ہوئے کہا گیا کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی 'را‘ بے قصور ہے، یہ تو ہماری خفیہ ایجنسیاں ہیں جو ان تخریب کاروں کو اپنے پے رول پر رکھے ہوئے ہیں۔ لطف کی بات دیکھیے کہ سپیکر ایاز صادق ان الفاظ کو کارروائی سے حذف کرنے کا نہیں کہتے بلکہ ساتویں بحری بیڑے کے ایک ملاح کو کھل کر کہنے پر اکساتے رہے۔ یہ کارروائی دیکھتے اور بیانات سنتے ہوئے ہمارا ازلی دشمن 72 پاکستانیوں کے خون سے لتھڑے ہوئے مکروہ چہرے کے ساتھ دورکھڑا قہقہے پر قہقہے لگائے جا رہا تھا۔
پاکستان کے وہ لوگ جو خبر اور حقیقت کی تلاش میں سنجیدہ ہیں اور جو اردو اور انگریزی اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین کو غور سے پڑھنے کے عادی ہیں، انہیں چاہیے کہ سچائی جاننے کے لئے ایک دفعہ ایئرکموڈور طارق مجیدکی کتاب:Bahawalpur Air Massacre ایک دفعہ ضرور پڑھیں، انہیں اس میں بہت کچھ ملے گا۔ لوگوں کو یاد تو ہوگا کہ جب ممبئی حملے کا واقعہ ہوا تو ساتواں بحری بیڑہ اس وقت بھی یہ کہتے ہوئے ہمارے دشمن کی غیبی مدد کو آیا تھا کہ اجمل قصاب پاکستانی پنجاب کے قصبے فرید پورکا رہنے والا ہے اور 
ایجنسیاں وہاں جانے والوں کو گائوں کے اندر داخل ہونے کی اجا زت نہیں دے رہی ہیں۔ یہ مدد اس وقت کی گئی جب26/11 کو ممبئی کے شیوا جی ٹرمینل اور تاج محل ہوٹل پر حملہ کیا گیا اور اس کا الزام پاکستان کی آئی ایس آئی اور لشکر طیبہ پر لگا دیا گیا۔ دل تھام کر سنیے کہ اجمل قصاب در اصل کون تھا؟ اجمل قصاب ممبئی حملے سے پہلے ہی بھارتی 'را‘ کی تحویل میں تھا۔ اگر کسی اینکر یا کالم نگار کو اس بات پر شک ہے یا وہ اسے اپنے دوستوںکے خلاف الزام سمجھ رہا ہے تو بھارت کے صوبے مہاراشٹرکے سابق انسپکٹر جنرل پولیس کی وہ تقریر سامنے رکھ لے یا بھارت کے تمام اخبارات کے ریکارڈ سے چیک کر لے جس میں انہوں نے کہا تھا: ''جب ممبئی حملہ کیا گیا تو اجمل قصاب اس وقت بھارت کی ایجنسیوں کی تحویل میں تھا‘‘۔ میں یہ کوئی زبانی کلامی بات نہیں کر رہا ہوں بلکہ جو چاہے اور جب چاہے ممبئی ہائیکورٹ سے اس کی تصدیق کر سکتا ہے کیونکہ مہاراشٹر کے سابق آئی جی پولیس نے ممبئی ہائیکورٹ میں اس ثبوت بارے میں رٹ کی ہوئی ہے جس کی سماعت کے لئے اکتوبر 2016 ء کی تاریخ مقرر ہے۔
کون نہیں جانتا کہ اس وقت سابق افغان صدر حامد کرزئی اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے کس کے سب سے زیا دہ قریبی اور ذاتی تعلقات ہیں؟ کون نہیں جانتا کہ حامد کرزئی کے ساتھ محمود خان اچکزئی کے افغان مہاجرین کی آمد کے وقت سے ہی گہرے مراسم ہیں اور یہ بات تو چند دن پہلے روز روشن کی طرح عیاں ہو کر سامنے آ چکی ہے کہ یہ دونوں یعنی کرزئی اور اچکزئی ڈیورنڈ لائن کے سب سے بڑے مخالف ہیں۔ انشا اﷲ ایک دن یہ حقیقت بھی سامنے آجائے گی کہ عدنان سمیع اور شرمیلا ٹیگورکس کے ایما پرکس مشن پر پاکستان آئے تھے؟
ہمارا سب سے بڑا دشمن اور دہشت گردوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے والے بھارت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی نے چناب ویلی اور پیر پنجال کے مسلم اکثریتی علاقوں میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر فوج کو تیار رہنے کا حکم دے دیا ہے اور اس سلسلے میں بھارت کی ناردرن کمانڈ کے چیف لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ہودا نے کمانڈر سری نگر 15چنار کورکے لیفٹیننٹ جنرل ستیش دوا اور دوسرے سینئر فوجی حکام کے ہمراہ مقبوضہ وادی کا دورہ بھی کیا ہے۔ بھارتی فوج کے لئے پیر پنجال میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور نوجوانوں کی مزاحمتی تحریک پر سخت خدشات پیدا ہو چکے ہیں چونکہ پیر پنجال کی سرحد باقی کشمیر کو جموں سے علیحدہ کرتی ہے اور یہاں پر زور پکڑنے والی مزاحمتی تحریک کو کچلنے کے لئے بھارت کی ناردرن کمانڈ نے کشمیر میں مزید فوج بھیجنے کی منظوری دیتے ہوئے سخت اقدامات کرنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے لشکر طیبہ کے نام سے پاکستان کے خلاف لائن آف کنٹرول پر در اندازی کا پرانا الزام دھرنا شروع کر دیا گیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved