ہمیں آزادی یا یہ کہیے کہ پاکستان حاصل کئے، کم و بیش سات دہائیاں گزر گئیں۔ اِس دوران بہت کچھ پایا،اور بہت کچھ کھویا۔ آج پاکستانی دُنیا بھرمیں پھیلے ہوئے ہیں، اور جہاں ایک بھی پاکستانی آباد ہے، وہاں پاکستانی پرچم لہرا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی جان کی بازی لگانے والے پاکستانی جھنڈے اُٹھائے ہوئے ہیں، اور دُنیا کو بتا رہے ہیں کہ پاکستان آج بھی اُن کی منزل ہے۔ اُن کے ساتھ کھڑا ہے، اور اُن کے حق میں پوری شدت کے ساتھ آواز اُٹھا رہا ہے۔ 14اگست کو آزادی کا جو سورج پورے برصغیر میں طلوع ہوا تھا، اس کی کرنیں کشمیر تک نہیں پہنچ سکیں۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں کھڑے ہو کر عہد کیا تھا کہ کشمیریوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جائے گا۔ وہ ہندوستان یا پاکستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کر سکیںگے۔ لیکن برسوں گزرنے کے باوجود یہ عہد پورا نہیں کیا گیا۔ دُنیا جانتی ہے اِس راستے میں بھارت کی ہٹ دھرمی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو اور ان کے جانشین اپنے عہد کی پاسداری نہیں کر سکے۔ ان کا خیال ہو گا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ (خودبخود) حل ہو جائے گا۔ کشمیری رو دھو کر چُپ ہو جائیں گے، اور پاکستان بھی ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنے پر مجبور ہو جائے گا، لیکن ایسا ہوا نہیں۔ پاکستان نے کشمیر سے آنکھیں بند کیں، نہ کشمیری بھارتی قبضے کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کرنے پر آمادہ ہوئے۔ پُرامن مذاکرات سے کوئی نتیجہ نہ نکلا تو کشمیری نوجوانوں نے ہتھیار اُٹھا لیے۔ چند ہفتے پہلے نوجوان برہان وانی کی شہادت نے جذبات کو پھر برانگیختہ کر دیا ہے، کرفیو جاری ہے، ذرائع ابلاغ پر سنسر لگا ہوا ہے، چھرّے دار بندوقوں سے سینے تو کیا چہرے تک چھلنی ہو رہے ہیں۔ لیکن کشمیریوں کا جذبہ سرد نہیں پڑ رہا۔(شاید) موبائل کیمرے کے ذریعے ایک تصویر دُنیا بھر میں عام ہوئی ہے، جس میں ایک بچہ بندوق تانے ہوئے بھارتی سپاہی کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہے، اور گولی کا جواب پتھر سے دینے کے در پے ہے۔ لیکن پیٹھ دکھانے پر تیار نہیں۔ ہندوستان میں ایسی آوازیں بلند ہونے لگی ہیں، جو مسئلے کا حل چاہتی ہیں، اس کی طرت توجہ دِلا رہی ہیں۔
وزیراعظم نریندر مودی اس ادّعا کے ساتھ برسر اقتدار آئے تھے کہ وہ ہندوستانی دستور میں دیا گیا، کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کر کے اسے باقاعدہ صوبہ بنا لیں گے، لیکن انہیں مُنہ کی کھانا پڑ رہی ہے۔ یاد رہے ہندوستان کے ساتھ کشمیر کے(نام نہاد) الحاق کا مطلب انضمام نہیں تھا اس کا الگ تشخص برقرار رکھا گیا تھا، کسی ہندوستانی کو کشمیر میں کوئی جائیداد خریدنے کا حق حاصل نہیں تھا۔
پاکستان میں آج جب آزدی کا جشن منایا جا رہا ہے، تو کشمیر کی آزادی کا عہد بھی تازہ ہے۔ پاکستان اور ہندوستان دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں، انہیں بہر قیمت مل کر اِس مسئلے کا حل تلاش کرنا پڑے گا، ایسا حل جس پر کشمیری عوام بھی مطمئن ہو سکیں۔ کوئی فریق دوسرے کو بزور طاقت زیر تو نہیں کر سکتا، لیکن اس کی زندگی دوبھر بنا سکتا ہے اور وہ بنی ہوئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہد میں اہل ِ پاکستان کے لئے اطمینان کا پہلو صرف یہ ہے کہ انہوں نے الگ وطن کے حصول کا جو فیصلہ کیا تھا، وہ درست تھا۔ ہندوستان کے زیر نگیں رہنے کا تجربہ کشمیر کی مسلمان اکثریت کو راس نہیں آیا، تو کسی دوسرے علاقے یا صوبے کے لوگوں کو کیسے مطمئن رکھ سکتا تھا؟
تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستانی اپنے جھنڈے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ان کی اپنی زمین ہے، اپنی چھت ہے، اپنے دروازے، اپنی کھڑکیاں اور اپنے روشن دان ہیں، وہ ان سے جب چاہیں روشنی اور ہَوا حاصل کر سکتے ہیں۔ گھر کے اندر تزئین و آرائش کے مسائل موجودہیں، کون سی چیز کہاں سے لانی اور کہاں رکھنی ہے، کتنی چار پائیاں کم ہیں، اور کتنی چپاتیاں۔ یہ سب اہم ہے، لیکن پائوں کے نیچے زمین ہو تو مسائل کا سامنا کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔
پاکستان میں سب اچھا نہیں ہے، لیکن سب بُرا بھی نہیں ہے۔ گھر کا تعارف اُس کے مکین ہوتے ہیں، اور مکینوں کو آگے بڑھنے کے لیے ہمت اور محنت کرنا پڑتی ہے۔ تاریخ میں کسی بھی قوم کے مسائل خودبخود حل نہیںہوئے، بنیادی بات یہ ہے کہ ہم گزشتہ سات دہائیوں کا جائزہ لیں، اپنی غلطیوں کا ادراک کریں، وہ خود کو دہرانے نہ پائیں۔ یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ جو نظام اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے سے ہم نے اپنے لیے پسند کیا ہے اُس کے مطابق سفر جاری نہیں رکھ سکے۔ تیز دوڑنے کے شوق میں ٹھوکریں کھا کر گرتے رہے ہیں۔ ایک پائوں زخمی ہونے کے بعد، اُس کے علاج کے بجائے دوسرے پائوں کو زخمی کرتے رہے ہیں۔رتی برابر عقل رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ ایک زخم کا علاج دوسرا زخم نہیں ہے۔ بقول برادرم ہارون الرشید خون کو خون سے نہیں دھویا جا سکتا، اِس کے لیے پانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ بات بارہا دوہرانے اور یاد رکھنے کی ہے کہ اجتماعی زندگی کی گاڑی دستور کی پٹڑی پر چلے گی تو آگے بڑھے گی... ہم اس وقت دہشت گردی کے خلاف ایک بڑی جنگ لڑ رہے ہیں۔ چند ہی روز پہلے کوئٹہ میں انتہائی سنگین حملہ ہوا ہے۔ بلوچستان کو اپنے اعلیٰ ترین قانونی دماغوں سے محروم کر دیا گیا، ایک ہی ہلّے میں56 وکلاء جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ دو میڈیا کارکن بھی لقمہ ٔ اجل بنائے جا چکے، اور ایک زخم زخم ہے... یہ نہ تو پہلی واردات ہے اور نہ آخری، ایک لمبی لڑائی درپیش ہے۔ پس منظر کی بحث میں اُلجھے بغیر پیش منظر کی طرف متوجہ رہنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی قیادت اور فوجی حکام کا دھیان اپنے اپنے کام پر مبذول رکھنے کی ضرورت ہے، جس کا کام اُسی کو ساجھے۔
گزشتہ ہفتے ادارہ ''اُردو ٹائمز‘‘ اور ''کاروان ادب‘‘ کے زیر اہتمام عالمی اُردو کانفرنس میں شرکت کے لیے مانچسٹر اور برمنگھم جانے کا اتفاق ہوا۔ ''اُردو ٹائمز‘‘ کے روح رواں طاہر چودھری اور ان کے رفقا نے (جن میں سے صابر رضا نظامت کی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے) اِس سال اسے ''جشن ِ منصور آفاق‘‘ کے طور پر منعقد کیا تھا۔ دونوں شہروں میں ہزاروں پاکستانیوں سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ منصور آفاق بے مثال شاعر ہیں۔ اُن کا دیوان حال ہی میں شائع ہوا ہے، اور اُنہیں اِس عہد کا (جناب ظفر اقبال کے بعد) سب سے بڑا شاعر قرار دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے اُردوغزل کو نئی شناخت اور نیا لباس عطا کیا ہے۔ ان کا تعلق میانوالی سے ہے اور گزشتہ کئی سال سے برطانیہ میں مقیم ہیں۔ ڈرامہ نگار، کہانی نویس، کالم نگار کے طور پر بھی ان کا لوہا مانا جا چکا ہے۔ سلطان باہو کے فارسی کلام کا منظوم ترجمہ کر کے انہوں نے اپنے آپ کو ممتاز تر ہی نہیں ممتاز ترین کر رکھا ہے۔ وفاقی وزیر مملکت سید امین الحسنات، سلطان باہو فائونڈیشن کے حضرت فیاض الحسن،اقلیم صحافت کے بادشاہ سہیل وڑائچ، خاتون صوفی بزرگ ڈاکٹر صغریٰ صدف، تحریک انصاف میانوالی کے ایم این اے امجد خان نیازی، ممتاز محقق اور استاد ڈاکٹر سعادت سعید اور محترمہ راشدہ ماہین ملک پاکستان سے منصور آفاق کے لئے ہدیۂ تبریک لے کر پہنچے تھے۔ ایک رات کے لئے لندن جانا ہوا، وہاں برادران اظہر جاوید اور شوکت ڈار کے زیر نگرانی بیرسٹر گل نواز نے پُرتکلف عشائیے کا اہتمام کیا۔ جس میں دوسرے احباب کے علاوہ سید قمر رضا،چودھری نجیب، چودھری ماجد،ڈاکٹر عارف انیس اور عرفان الحق بھی شریک تھے۔برطانیہ میں آرام فرما برادرم رئوف کلاسرا نے امریکہ روانگی موخر کر دی تاکہ جشن منصور کی رونق دوبالا کر سکیں۔حضرت کامران شاہد بھی گوشۂ تعطیل سے باہر نکل کر رونق افروز ہوئے ، اور دامن کو خوشیوں سے بھر گئے۔ پاکستانی نژاد برطانویو ں سے پُرزور تبادلہ ٔ خیال ہوا کہ وہ پاکستان سے نکل آئے ہیں، لیکن پاکستان ان کے اندر سے نہیں نکلا۔ اربابِ اقتدار پر بھرپور حملوں کے باوجود اِس بات سے کوئی اختلاف نہیں کر پاتا تھا کہ کسی بالاتر از دستور تجربے سے کوئی مسئلہ حل ہونے کے بجائے نئے مسائل پیدا ہو جائیں گے۔ گزشتہ69سال کے تجربوں کا نچوڑ یہی ہے؎
اک خالِ سویدا میں پہنائی دو عالم
پھیلا ہو تو ایسا ہو، سمٹا ہو تو ایسا ہو
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)