تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     14-08-2016

مرد اوّل کی حیثیت

قسمت کی اس ستم ظریفی کو اتفاق کہا جائے یا خوش قسمتی لیکن برسوں پہلے 1967ء میں آکسفورڈ یونین کی نوجوان صدر کے طور پر محترمہ بے نظیر بھٹو نے اگر اپنی دوست اور ساتھی طالبہ تھریسا بریزیئر کو فلپ مے سے متعارف نہ کرایا ہوتا تو آج یہ صاحب 10ڈائوننگ سٹریٹ میں مرد اوّل کے طور پر مقیم نہ ہوتے۔ اس جوڑے کے بیچ کی کیمسٹری کام کر گئی۔ ان دونوں کو پہلی ہی نظر میں محبت ہو گئی تھی۔ اس سارے معاملے میںکیوپڈ کا کردار محترمہ نے نبھایا تھا۔ اس وقت انہیں یہ خبر بھی نہیں تھی کہ ان کے اپنے شوہر بھی مردِ اوّل بنیں گے، ایک بار نہیں بلکہ دو بار! فلپ مے ایک بینکار ہیں اور صرف یہی بات برطانیہ میں خطرے کی گھنٹی بجانے کے لئے کافی ہو سکتی ہے۔ بیوی کی حیثیت کا فائدہ اٹھا کر مشکوک نوعیت کی سودے بازیوں کے حوالے سے خدشات حقیقی نوعیت رکھتے ہیں۔ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی کشش ہی ایسی ہے کہ شاذ ہی کوئی اس کی زد میں آنے سے خود کو بچا پاتا ہے۔ تاہم انٹر نیٹ پہ ڈھونڈیے تو ایک دو مبینہ سکینڈلوں کے سوا فلپ مے کے ساتھ کوئی ایسی سرگرمی جڑی نظر نہیں آتی کہ انہوں نے ڈیوڈ کیمرون کی کابینہ میں اپنی بیوی کے ہوم منسٹر ہونے کا فائدہ اٹھایا ہو۔ G4S نامی بین الاقوامی سکیورٹی فرم میں ان کے کام کرنے اور اسی فرم میں ان کے حصص ہونے کی افواہوں کا ذکر بعض بلاگز میں ضرور ہوا جس کی تردید اسی فرم نے فی الفور کردی تھی۔ تاہم بعد میں جب اس فرم کا برطانوی حکومت سے ایک بڑا معاہدہ طے پا گیا تو وہی وکیل اس فرم کے بھی وکیل تھے جس نے شروع میں پولیس اصلاحات کی تجویز دی تھی اور انہی اصلاحات کی بدولت G4S کو یہ معاہدہ حاصل ہوا۔
تھریسا مے کے ناقدین نے جب مفادات کے تصادم کا سوال اٹھایا تو انہوں نے اس بات کو رد کر دیا۔ ان کی شادی شدہ زندگی چار عشروں پہ محیط ہے۔ بچے البتہ ان کے نہیں ہیں۔ کہتے ہیں کہ فلپ مے نے ہمیشہ پس منظر میں رہ کر اپنی بیوی کو آگے بڑھنے کا موقع دیا۔ جس بینک میں وہ ریلیشن شپ منیجر ہیں وہاں ان کے ایک ساتھی ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ ''دفتر میں وہ عموماً سر جھکائے رہتے ہیں۔ عموماً کسی انویسٹمنٹ منیجر میں انا بہت ہوتی ہے لیکن فلپ مے ایسے نہیں، وہ بہت خاموش رہتے ہیں۔ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں اور بے حد دیانت دار ہیں۔ اپنی بیوی کا نام کبھی استعمال نہیں کرتے‘‘۔ فلپ مے کے برعکس ان پیش رو مردِ اوّل یعنی ڈینس تھیچر اپنی اہلیہ کے عشق میں دیوانے نہیں ہوئے تھے۔ مارگریٹ تھیچر سے صحافیوں نے ایک بار پوچھا بھی تھا کہ کیا ان کے اور ان کے شوہر کے بیچ پہلی نظر میں محبت ہو گئی تھی۔ جواباً مارگریٹ تھیچر نے کہا تھا کہ '' قطعی نہیں‘‘۔ ڈینس تھیچر نے البتہ یہ اعتراف کیا تھا کہ مارگریٹ تھیچر انہیں اس لئے پُرکشش محسوس ہوئی تھیں کہ ان کی ٹانگیں بہت خوبصورت تھیں۔ 1979ء میں جب مارگریٹ تھیچر وزیر اعظم بنیں تو ڈینس تھیچر ایک آئل کمپنی کے غیر معروف اور ریٹائرڈ ایگزیکٹو تھے جو پس منظر میں رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔ اس سے قبل وہ ایک کامیاب بزنس چلا رہے تھے۔ کہتے ہیں کہ ان کے پیسے نے مارگریٹ تھیچر کی کارزارِ سیاست میں اترنے میں مدد کی تھی اور پھر وہ پارلیمنٹ میں بھی پہنچ گئیں۔ مارگریٹ تھیچر نے اپنی خود نوشت سوانح حیات میں لکھا ہے کہ ''اگر ڈینس میرے 
ساتھ نہ ہوتے تو گیارہ برس سے زیادہ عرصہ وزیر اعظم رہنا میرے لئے ممکن نہیں تھا۔ وہ دانش مندانہ مشوروں اور تبصروں کا ایک خزانہ تھے‘‘۔ اپنی بیوی کے لئے ڈینس تھیچر کے اس بے لوث اخلاص کو انگلستان میں کافی سراہا جاتا ہے۔ اپنی سوانح میں ڈینس کے لئے He's my golden thread لکھ کر مارگریٹ تھیچر نے اپنے شوہر کے لئے اپنی بے پناہ محبت کا اظہار ایک سطر میں کر دیا ہے۔ مارگریٹ تھیچر کے بال بھورے تھے لیکن اپنے شوہرکی پسند کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انہوںنے اپنے بال سنہرے رنگوا لئے تھے اور پھر آخر تک رنگواتی رہیں کیونکہ ڈینس کو تھیچر بلونڈ پسند تھیں۔ 
پاکستان میں مردِ اول ہونے کا اعزاز آصف علی زرداری کو حاصل ہوا۔1987ء میں جب بے نظیر بھٹو سے ان کی شادی ہوئی، تب چھوٹا ہی سہی لیکن ان کا اپنا کاروبار ہوا کرتا تھا۔ ان کی یہ شادی خاندان والوں نے طے کی تھی۔ بے نظیر بھٹو نے ایک دوست کو بتایا تھا کہ زرداری صاحب کی ایک ظاہری برائی، اگر اسے برائی مانا جائے تو یہ تھی کہ وہ پولوکے شوقین تھے۔ ان کی بیگم جب وزیر اعظم بنیں تو زرداری صاحب وزیر اعظم ہائوس منتقل ہو گئے۔ فرق صرف یہ تھا کہ وہ وزیر اعظم ہائوس جہاں زرداری صاحب رہتے تھے اسلام آباد میں نہیں بلکہ کراچی میں تھا۔ ہر ویک اینڈ پر وزیر اعظم صاحبہ اپنے مصاحبوں سمیت کراچی جایا کرتی تھیں۔ سبھی جانتے تھے کہ ہمارے مردِ اوّل پارٹیوں اور ناچ گانوں کے شوقین تھے اور بلاول ہائوس کے بیسمنٹ میں اس مقصد کے لئے بنے ہال میں ایسی تقریبات منعقد کرانا انہیں پسند تھا۔ جلد ہی میڈیا میں میں ان کی کرپشن کی خبریں آنے لگیں اور انہیں ''مسٹر ٹین پرسینٹ‘‘ کہا جانے لگا۔ ان کا یہ لقب ان کی اہلیہ کی وزارتِ عظمیٰ کی دوسری میعاد میں بھی ان کے ساتھ چپکا رہا، فرق بس یہ تھا کہ ٹین پرسینٹ کی جگہ ٹوینٹی پرسینٹ نے لے لی تھی۔ اسلام آباد کی اونچی اونچی عمارتوں میں سے ایک میں زرداری صاحب کا ایک شاندار دفتر تھا۔''وزیرِ سرمایہ کاری‘‘ کی حیثیت میں وہ وہیں کام کیا کرتے تھے۔یہ عہدہ ان کی اہلیہ نے خاص انہی کے لئے تخلیق کیا تھا۔1996ء کے موسمِ بہار میں برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر پاکستان کے دورے پہ آئیں جس کو کاروباری دورہ ظاہر کیا گیا اور اس کے اخراجات سٹی بینک نے ادا کئے۔ پاکستان کی جانب سے مذاکرات کی قیادت وزیر سرمایہ کاری نے کی تھی۔ اسلام آباد کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں دیے گئے ظہرانے کے سوا میڈیا والے کہیں مدعو نہیں تھے، اس لئے کوئی یہ جان نہیں پایا کہ پاکستان اور برطانیہ میں کس نوعیت کے کاروباری سودے طے پائے گئے ہیں۔ اسی سال کے آغاز میں ڈان میگزین کو زرداری صاحب نے ایک خصوصی انٹرویو دیا تھا جس میں ان کی کوشش یہ رہی کہ اپنے تفصیلاتِ کار میں سے''کمیشن اور کک بیکس‘‘ جیسے الفاظ حذف کر لیں۔ اس انٹرویو کا آغازالزامات کی ایک طویل فہرست کے ساتھ ہوا تھا جس میں مبینہ سوئس اکائونٹس، فرانس میں رہائش گاہ، مالیاتی اور ترقیاتی اداروں میں مداخلت اور قومیائے گئے بینکوں میں صدورکے عہدوں پہ اپنے لوگوں کی تقرریوں جیسی تمام باتیں شامل تھیں۔ زرداری صاحب نے بڑے اطمینان کے ساتھ ان تمام الزامات کی صحت سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ''آپ کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم ہیں، وہ کسی کی کٹھ پتلی نہیں۔ پاکستان کی گاڑی کو ایک ساتھ دو لوگ نہیں چلا سکتے۔ ویسے بھی میرے پاس ایسا کون سا تجربہ ہے کہ ریاستی امور میں انہیں میں کوئی مشورہ دے سکوں؟‘‘ ان سے پوچھا گیا تھا کہ کیا وہ ایک دن اپنی بیوی کی طرح وزیر اعظم بننا چاہیں گے؟ ان کا جواب تھا کہ '' قطعاً نہیں، ہر رات وہ جتنی فائلز پڑھتی ہیں وہ میرے لئے ممکن ہی نہیں۔ میری تربیت ایسی نہیں ہوئی۔ ویسے بھی مجھے کوئی ووٹ نہیں دے گا‘‘۔ آخری بات جو انہوں نے کہی وہ ان کے منہ سے تضاد کا ایک شاہکار معلوم ہو رہی تھی۔ انہوں نے کہا: ''خوشی ایک نسبتی چیز ہے۔ زندگی مکمل کبھی بھی نہیں ہوتی۔ انسان کے پاس جو کچھ ہو، اسی پہ اسے قانع ہونا چاہیے اور زیادہ کی لالچ نہیں رکھنی چاہیے۔ لالچ کا انت نہیں ہوتا۔ زندگی ایک چیلنج ہے اور صرف جرأت مند لوگ ہی جی پاتے ہیں‘‘۔
مرد اوّل سے صدرِ مملکت بن جانا اور بل کلنٹن سے مردِ اوّل بن جانا بہت ممکن ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آصف زرداری کی طرح بل کلنٹن کو اپنی اہلیہ کی کابینہ میں جگہ چاہیے ہوگی؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved