2011ء کے عرب انقلاب کی المناک پسپائی کے بعد آج جو عرب دنیا کی حالتِ زار ہے وہ حکمرانوں کے لیے ایک نئی بغاوت کے آثار پیش کررہی ہے لیکن فی الوقت یہ خطہ شدید بحران اور انتشار کا شکار ہے۔ 'عرب بہار‘ کہلانے والے انقلابی ریلے نے مصر،تیونس، لیبیا اور یمن کی حاکمیتوں کو اکھاڑ پھینکا تھا اور اسرائیل سے لے کر مراکش اور الجزائر تک حکمرانوں کے ایوان‘ اس دھماکہ خیز بغاوت سے لرز اٹھے تھے۔ بحراوقیانوس سے لے کر بحر ہند تک کا سارا خطہ جس انقلابی طوفان کی زد میں آیا تھا اس سے خلیجی ریاستوں کی بادشاہتوں سے لے کر شام کی حاکمیت تک ڈگمگانے لگے تھے۔ اس انقلاب کی پسپائی کی وجہ ایک ایسی قیادت اور پارٹی کا فقدان تھا جو ان تحریکوںمیں شریک ہوتی، کروڑوں عام انسانوں کی مانگوں اور مقاصد کو پورا نہیں کیا جاسکا تھا۔ مشرقِ وسطیٰ کا تاریخی ‘ ثقافتی اور سیاسی لحاظ سے سب سے اہم ملک مصر ہے۔ مصر میں انقلابی فتح سے کامیابی‘ پورے خطے کے مستقبل کو روشن کرے گی اور یہاں کی تنزلی سارے مشرقِ وسطیٰ کو مزید بربادیوں کی کھائی میں دھکیلنے کا باعث بن رہی ہے۔ 1990ء کی دہائی سے 2010ء کے عرصے میں مصر کے فوجی آمر حسنی مبارک نے آئی ایم ایف کے نسخوں کے تحت معاشی ترقی اور شرح نمو میں بڑا اضافہ کیا تھا جسکے پوری دنیا کے سرمایہ دارانہ معیشت دانوں اور مفکروں نے بہت گُن گائے تھے ۔ لیکن دنیا کے ہر مقام کی طرح‘ مصر میں بھی اس 'سامراجی استعمال‘ کو مرتب کرنے والے ادارے کی ترقی کے اس نسخے سے آبادی کی بھاری اکثریت اقتصادی ترقی کے باوجود مزید غربت ذلت اور محرومی میں گرتے چلی گئی تھی۔ اس بعد یہ غم وغصہ ایک آتش فشاں کی طرح پھٹا اور حسنی مبارک کا تختہ الٹ کر رکھ دیا۔ اس کے بعد
جب اخوانِ المسلمین کا 'مورسی‘ صدر بنا تو معاشی پالیسی اس کی بھی اسی آئی ایم ایف کے نسخے کے مطابق ہی تھی۔ اس سے چند ماہ بعد انقلاب کا پہلے سے دگنی طاقت کا ایک اور ریلا زیادہ شدت سے ابھرا اور مورسی کو معزول ہونا پڑا۔ ایک قیادت سے محروم تحریک کو فوجی جرنیل عبدالفتح سیسی نے ہائی جیک کرکے اپنی نیم آمریت مسلط کردی۔ لیکن پالیسی اس کی بھی سرمایہ دارانہ طرزکی تھی۔ چونکہ انقلابی عوام دومرتبہ انقلاب کرکے جب مایوسی میں چلے گئے تھے۔ ایک اندوہناک سکوت پیدا ہوچکاتھا ۔' سیسی ‘نے سیاسی اور معاشی جبر سے معاشرے کو دبانے کا سلسلہ شروع کردیاہے۔ اقتدار کو کسی حد تک جبر کے ذریعے مستحکم کرنے کے بعد سیسی نے مصر کے ایک نخلستان شرم الشیخ کے مقام پر سینکڑوں بیرونی حکمرانوں اور انکے نمائندوں کو دعوت دے کر بلایا۔ یہاں آنے والے بیشتر عرب حکمران‘ انقلابی ریلے اور خصوصاً مصر میں ممکنہ انقلاب کے خوف سے لرزاں تھے۔ اسی لیے انہوں نے چاہتے نہ چاہتے ہوئے سیسی کے دعوئوں کومان لیا اور اربوں ڈالر مصر کو مستحکم کرنے کے لیے سیسی پر نچھاور کردیئے۔ اس میٹنگ میں اہم ترین شخصیت آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لگارڈ ہی تھی۔ اس نے اس صورتحال کو '' موقعہ ملنے کے لمحات‘‘ قرار دیا تھا۔ آج اس کے ڈھائی سال بعد استحکام کم اور مصر انتشار کا زیادہ شکار ہے۔ آئی ایم ایف اب مصر سے 12ارب ڈالر کے نئے''قرضے‘‘ پر مذاکرات کررہا ہے اور زیادہ کڑی شرائط عائد کررہا ہے۔ جس سرمایہ کاری کی تسلسل سے آمد کی
امید تھی وہ سوکھ چکی ہے۔ پہلے سے موجود سرمایہ کار بھی راہ ِ فرار اختیار کررہے ہیں ۔ عوام کی حالت اس نیم آمریت کے آنے سے بد سے بدتر ہوتی چلی گئی ہے۔14 فیصد سرکاری افراطِ زرکے باوجود ایک نیا''ویٹ‘‘(ویلیو ایڈڈ ٹیکس) لگا یا جارہا ہے۔ تیل کی قیمتوں پر سبسڈی ختم کی جارہی ہے۔ سرکاری بیوروکریسی کی نچلی پرتوں سے برطرفیوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ خلیجی ریاستیں جو 15سے 20ارب ڈالر کی امداد دے چکی ہیں اب ہاتھ کھینچ رہی ہے۔ مصر کی کرنسی کو مصنوعی طور پر ابھار کر رکھا گیا ہے، جبکہ بلیک مارکیٹ میں ڈالردوتہائی زیادہ قیمت پر ہی خریداجاسکتا ہے۔ کرنسی میں یہ بحران اتنا شدید ہوگیا ہے کہ مصر کی ملا اشرافیہ کے ادارے 'جامعہ الازہر‘ نے ایک فتوے کے ذریعے بیرونی کرنسی رکھنا 'گنا ہ کبیرہ‘ ہونے کا اعلان کردیا ہے۔ دوسری جانب مصر کی دوتہائی معیشت اب غیر رسمی یا کالے دھن پر مبنی ہے۔40فیصد یونیورسٹی گریجویٹ اور نوجوان بیروزگار ہیں۔ مصر میں ڈاکٹروں کی بڑی کھیپ ہر سال فارغ التحصیل ہوتی ہے، لیکن ان کی اکثریت مصر کی بجائے سعودی عرب جا کر کام کرتی ہے۔اگر ہم اس دور کا جائزہ لیں جب عرب میں سوشلزم ابھر رہا تھا ،جمال عبدالناصر نے ہر گریجویٹ کو سرکاری ملازمت دینے کی گارنٹی دے رکھی تھی ۔ تب ان میں سے کوئی بھی بیروزگار نہیں ہوا کرتا تھا۔لیکن اب مصر کے پڑھے لکھے نوجوانوں کو دس دس سال کے انتظار کے بعد بھی ملازمت نہیں ملتی۔ 'سیسی ‘اندر سے ایک نئے انقلاب سے خوفزدہ ہے ،اسی لیے وہ شاید حسنی مبارک کی طرح بے دریغ اور جارحانہ پالیسیوں کی بجائے کچھ میانہ روی سے چلنے کی کوشش کررہا ہے۔ لیکن اس نظام ِ زر کے بحران میں ہر پالیسی اس لیے ناکام ہوجاتی ہے کیونکہ اس میں معاشرے کو ترقی دینے کی صلاحیت ہی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔لیکن اگر مصر میں یہ صورتحال ہے تو باقی عرب دنیا میں بھی بحران شد ت اختیارکرتا جارہا ہے۔برطانوی اخبار ''دی انڈیپنڈنٹ‘‘ کے مطابق آئی ایم ایف نے یہ انتباہ کیا ہے کہ عراق،ایران، مسقط و عمان ،الجزائر،سعودی عر ب،بحرین،لیبیا اور یمن ایسے ممالک ہیں جن کے بجٹ کے خسارے تیل کی قیمتوں میں گراوٹ کی وجہ سے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ اب ان کو اُدھار لینا پڑے گا، کیونکہ ان کی رقوم 5سال کے اندر ختم ہوجائیں گی۔ اس وقت عرب دنیا کی 35کروڑ 70لاکھ آبادی میں اکثریت غربت‘ بیروزگاری اور انتشار کا شکار ہے۔ بنیادی پرستی اور داعش طرح کی دہشت گردی زوروں پر ہے۔ 19فیصد عرب نوجوان اس شمولیت کو غلط نہیں سمجھتے اور اس مذہبی جنون اورد ہشت گردی میں شمولیت کی سب سے بڑی وجہ نوجوانوں کی بیروزگاری اور سماجی ومعاشی بیگانگی ہے۔ مالیاتی سرمائے کا دہشت گردی سے رشتہ اس سے بہتر کیا ہوسکتا ہے کہ شام میں عام نوجوانوں کو جس ملازمت میں سب سے زیادہ اجرت حاصل ہوتی ہے وہ مذہبی دہشت گرد تنظیموں میں شمولیت ہی ہے۔1980ء سے2010ء کے دوران‘اس خطے کی آبادی دگنی ہوئی تھی لیکن وسائل اور آمدن میں ایک چوتھائی اضافہ بھی نہیں ہوسکا تھا۔ سب سے بڑی اور امیر خلیجی ریاست سعودی عرب میں حالات اس حدتک بگڑ چلے ہیں کہ جس حکومت کو ہر سال 2,26000 روزگاردینا تھے وہ 2015ء کے سا ل میں صرف49000 نوکریاںفراہم کرسکی ہے۔ پوری عرب دنیا میں صرف 35فیصد افراد ایسے ہیں جن کو کسی بہتر مستقبل کی امید ہے۔ اس سے عوام کی اس نظام سے مایوسی اور مستقبل کی تاریکی سے جنم لینے والی پریشانی کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔ 'عرب انقلاب‘ سے پیشتر پورے خطے میں12سے15 فیصد بے روزگاری تھی۔ اس انقلاب کی پسپائی کے بعد اب یہ شرح 25سے 30فیصد ہوچکی ہے۔عرب ممالک کے عوام خصوصاً نوجوانوں میں اضطراب اور ہلچل بڑھ رہی ہے انکی بڑی اکثریت اسلامی پارٹیوں اور مذہبی دہشت گرد تنظیموں سے بھی نفرت کرتے ہیں ۔ لیکن ان کے پاس اس اذیت سے نجات کا کوئی راستہ واضح نہیں ہورہا ۔ عرب حکمرانوں کا یہ معاشی اور سیاسی جبر‘ سامراجی تجزیہ نگار''دی اکانومسٹ‘‘ کے مطابق ایک بڑے دھماکے کے حالات پیدا کررہا ہے۔لیکن اس مرتبہ لوگ جمہوری اور مصنوعی سیاسی ڈھانچوں میں تبدیلی تک نہیں رکیں گے۔ یہ اس معاشی اور معاشرتی انقلاب کو پورا کرنے کے لیے آگے بڑھ جائیں گے۔2011ء کے انقلاب کے اصل محرکات‘ بنیادی انسانی زندگی کے مسائل کے حل کی تلاش ہی تھی۔اس تلاش کی جستجواپنی منزل تک پہنچنے کیلئے سماج میںانقلابی تلاطم جاری رکھے گی۔