ندیمؔ صدی کے حوالے سے اگلے روز الحمرا کے ہال نمبر2 میں مشاعرہ تھا جس کا اہتمام ہمدرد فائونڈیشن نے کر رکھا تھا۔ مدارالمہام تھے امجد اسلام امجد۔ آزاد کشمیر سمیت چاروں صوبوں سے شاعر مدعو تھے جن میں کراچی سے پیرزادہ قاسم‘ انور شعور‘ ڈاکٹر فاطمہ حسن‘ کوئٹہ سے نوید حیدر ہاشمی‘ اسلام آباد سے کشور ناہید‘ انعام الحق جاوید‘ انور مسعود‘ آزاد کشمیر سے احمد عطااللہ ‘ اسلام آباد ہی سے عطا الحق قاسمی‘ لاہور سے مرتضیٰ برلاس‘ رحمن فارس‘ ناہید قاسمی‘ نجیب احمد‘ کراچی ہی سے صابر ظفر‘ لاہور سے کیپٹن(ر) عطا محمد‘ ایوب خاور جو کامپیئر بھی تھے اور خانیوال سے قمر رضا شہزاد۔ کُل بیس شاعر تھے‘ ایک آدھ نام بھول گیا ہوں تو معذرت۔
یہ محفل کوئی تین گھنٹے تک جمی رہی۔ ابتدائی کلمات جناب کامران لاشاری نے ادا کیے جبکہ حکیم سعید مرحوم کی صاحبزادی بھی آئی ہوئی تھیں۔ انہوں نے بھی خیر مقدمی کلمات ادا کئے۔ یہ ہر لحاظ سے ملک بھر کا ایک نمائندہ اور یادگار مشاعرہ تھا۔ ایوب خاور بیچ بیچ میں قاسمی صاحب کی کوئی نہ کوئی نظم بھی سناتے رہے۔ انعام الحق جاوید اورانور مسعود نے لوگوں کو ہنسانے کا فریضہ کمال خوبصورتی سے ادا کیا۔ جو تخلیقات پیش کی گئیں اس سے پتا چل رہا تھا کہ شاعری ابھی مری نہیں اور نا ہی شاعروں میں تھکاوٹ کے کوئی آثار دکھائی دیے۔
انورشعور جہاں بھی ہوں شرارت سے باز نہیں رہ سکتے۔ بار بار مجھ سے کہہ رہے تھے کہ آپ صدر ہیں اور سارا مجمع آپ کو دیکھ رہا ہے کہ آپ کسی کو داد ہی نہیں دے رہے۔ میں نے کہا حسب توفیق دے تو رہا ہوں‘ اس کے علاوہ ایک وقت میں ایک ہی کام ہو سکتا ہے کہ صدارت کروں یا داد دوں۔ دراصل میں تھکا ہوا بھی تھا اور بیٹھے بیٹھے مت بھی ماری گئی تھی۔ میں نے تو اپنی باری آنے پر کہہ بھی دیا تھا کہ صدر اگر بوڑھا ہو تو اسے سب سے پہلے پڑھا دینا چاہیے۔ کشور ناہید نے تو مائیک سنبھالتے ہی کہہ بھی دیا کہ صدر کی طرف سے داد ہی نہیں آ رہی‘ دراصل وہ خود داد حاصل کرنا چاہتی تھیں اور کر کے بھی رہیں۔ ویسے بھی کشور ناہید کو داد نہ دینا پاکستان میں اپنی رہائش خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ پیرزادہ قاسم سے فرمائش کر کے انہیں ترنم میں بھی سنا گیا۔ قمر رعنا شہزاد کو چاق و چوبند دیکھ کر خوشی ہوئی‘ پچھلے سال میں نے ان کے کلام پر اپنے کالم میں ناقدانہ نظر ڈالی تو انہی دنوں ان کا ایکسیڈنٹ ہو گیا جس میں وہ شدید زخمی بھی ہو گئے۔ یار لوگوں نے مشہور کر دیا کہ یہ حادثہ اسے ظفر اقبال کے کالم کی وجہ سے پیش آیا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ کسی رفیق خیال کے کلام کا جائزہ لیا تو بعد میں وہ فالج کی زد میں آ گئے اور مشہور یہی ہو گیا کہ اس کی وجہ بھی وہ کالم ہی تھی۔ پہلے بھی کئی بار عرض کر چکا ہوں کہ کمزور دل حضرات جو سچ سُننے کی تاب نہیں رکھتے وہ مجھے اپنا کلام یا کتاب بھیجا ہی نہ کریں۔
اگلے روز میں نے لکھا تھا کہ گلزار‘ جاوید اختر اور ستیہ پال آنند کی نظموں میں وزن کا کچھ زیادہ خیال نہیں رکھا جاتا، جس پر ایک دوست بتا رہے تھے کہ آنند نے فیس بک پر اسے زیادتی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ میں پاکستانی ہوں‘ کچھ تو خیال کیا جاتا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ پاکستانی ہیں ہی نہیں‘ ان کے پاس یہاں کا شناختی کارڈ ہے نہ پاکستانی پاسپورٹ۔ وہ اگر پیدا اس علاقے میں ہوئے تھے جو اب پاکستان کا حصہ ہے تو وہ پاکستانی کیسے ہو گئے۔ اس طرح تو میں بھی اپنے آپ کو بھارتی کہہ سکتا ہوں کیونکہ میری پیدائش کے وقت پاکستان کا کہیں وجود ہی نہیں تھا۔
دوسرے‘ اگر وہ پاکستانی ہوتے بھی تو انہیں بار بار بے وزن ہونے کا لائسنس نہیں دیا جا سکتا جبکہ میں پاکستانی شعرا کے حوالے سے بھی اس گستاخی کا مرتکب ہوتا رہتا ہوں۔ یعنی اگر آپ نثری نظم کی بجائے موزوں نظم لکھ رہے ہیں تو بے وزن ہونے کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ستیہ پال آنند احترام کے لائق تو شاعر ہونے کی وجہ سے ہیں ہی‘ لیکن انہیں دل بھی بڑا رکھنا چاہیے۔ اگر وہ وزن میں ٹھوکر کھائیں گے تو اعتراض تو آئے گا ہی۔ میری تو فنّی غلطی یا سُقم کی کوئی نشاندہی کرے تو میں تو اسے اپنا محسن سمجھتا ہوں کیونکہ غلطی تو ہم سب کرتے ہیں کہ آخر بندے بشر ہیں۔
اگلے روز ایک مقامی اور قومی مؤقر روزنامے کے پنجابی صفحے پر صوفیہ بیدار کی غزل اور نجم الحسنین حیدر کی نظم بہت اچھی لگیں۔ آپ کی تواضع طبع کے لیے پیش ہیں:
پڑھ پڑھ منتر پھوکے‘ کِنّے جادو ٹونے کیتے
تیرے دل نوں پھیرن لئی اساں نفل نمازاں نیتے
نذر نیازاں منتاں مندراں کیہ کیہ چارے کیتے
ٹونے کرکر ہاری جیندے پڑھ پڑھ پانی پیتے
ہتھ پھڑا کے عشق دا کاسا دھرتی تے جا لایا
کیہڑا اوہنوں پچھے جا کے جنہیں چت پریتے
نیناں دی پڑچھتی ہیٹھاں ڈکے کنے اتھر
اکھیاں دی ورلاں چوں ڈلھے کِنّے اتھّر پیتے
اِکّو ای گھر وچ رہندے دوویں وسدے سجّے کھبّے
ست دے نال بڑئی جیویں سادھو چور مسیتے
اَگ جلا کے لائی سینے گھر نوں تیلی پایا
آپ وچھوڑے سہیڑے ورہاں‘وچھڑے چُپ چُپیتے
غم خوار
بارش نال یرانہ اوہدا
پُھلاں دے نال پیار
بیریاں دے گل پاہیں پاوے
چڑیاں دی چہکار
ساتھوں ساڈا رب وی کھوہیا
چیری سُو دستار
یوسف چھڈ ذلیخا ٹُر گئی
ماپیاں دی غم خوار
لیجے‘ ہمارے دوست محمد اظہار الحق کا مسئلہ بھی حل ہوا کہ محبی ڈاکٹر تحسین فراقی نے بتایا ہے کہ وہ نعتیہ شعر یوں ہے ؎
کہاں خاکِ مدینہ اور کہاں خاکسترِ دل
کہاں کا پھول تھا لیکن کہاں پر آ کھلا ہے
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس نعت کے دو شعر انہوں نے اپنی کتاب ''معاصر ادب‘‘ میں بھی درج کیے ہیں۔
آج کا مطلع
حدِ سفر مری کیا ہے، تجھے بتا سکتا
یہ بارِ دوش اگر اور بھی اُٹھا سکتا