تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     14-08-2016

آزادی اور ہمارے مسائل

آزادی اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اور اس عظیم نعمت کی قدر صحیح معنوں میں وہی لوگ کرسکتے ہیں جو اس سے محروم ہیں۔ دنیا کے بہت سے مقامات پر آج بھی مسلمان غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ کشمیر اور فلسطین کے مسلمان کئی عشروں سے آزادی کے حصول کے لیے آئینی اور قانونی جدوجہد کر رہے ہیںلیکن ریاستی جبر اور تشد د کی وجہ سے تاحال انہیں آزادی حاصل نہیں ہو سکی۔ پاکستان ہمارا گھر ہے جس میں ہم آزادی کے ساتھ سانس لے رہے ہیں ۔یہ گھر ہمیں آسانی سے حاصل نہیں ہوا بلکہ اس کے حصول کے لیے ایک لمبی تحریک کو چلایا گیا۔ 
مسلمانانِ ہند 1857 ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں کے عتاب کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔ انگریزوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کی غالب اکثریت مسلمانوں کے سیاسی عروج کے راستے میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے اور ان کے مکار رہنما مسلمانوں کو دوبارہ متحدہ ہندوستان کے سیاہ وسفید کا مالک بننے دینے پر آمادہ وتیار نہیں تھے۔ انگریزوں کی فنی اور فوجی ترقی اور ہندوؤں کی تدبیر اور چالبازی مسلمانوں کے لیے بہت بڑا چیلنج تھی۔ مسلمان رہنما اس حقیقت کو بھانپ چکے تھے کہ انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل ہو جانے کے بعد بھی وہ ہندوؤں کے زیر تسلط غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے۔ تحریک پاکستان کے قائدین کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بصیرت اورفہم و فراست سے نوازا تھا۔ انہوں نے مسلمان اکثریت کے علاقوں کو علیحدہ وطن بنانے کے لیے برصغیر کے طول وعرض میں ایک عظیم تحریک کو برپا کیا۔ 1906ء میں مسلم لیگ کے قیام سے لے کر 1947ء تک اکتالیس بر س کی طویل جدوجہد بالآخر مسلمانانِ ہند کی آزادی پر منتج ہوئی۔ اس آزادی کے حصول کے لیے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے اپنے گھروں کو خیر باد کہا ، بوڑھوں کی داڑھیوں کو لہو میں رنگین کیا گیا، نوجوانوں کو شہید کیا گیا، ماؤں اور بہنوں کی عصمت دری کی گئی اور معصوم بچوں کو نیزوں کی انیوں پر تڑپایاگیا۔ان ساری قربانیوں کے باوجود مسلمانانِ ہند اس بات پر خوش تھے کہ اللہ تبار ک وتعالیٰ نے ان کو آزادی کی نعمت سے نواز دیا ہے۔ وہ اس حوالے سے اپنے قائدین کی سیاسی بصیرت اور تدبرکے دل کی گہرائیوں سے معترف تھے۔ حضرت محمد علی جناح، حضرت علامہ اقبال، حضرت مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان او ر دیگر بہت سے قائدین کی باشعور قیادت نے جس انداز میں انگریزوں کے جبر اور ہندوؤں کی مکاری کو مات کیا اس کی تاریخ میں کم ہی مثال ملتی ہے۔ پاکستان ایک کثیرالقومی ریاست ہونے کے باوجود نظریاتی اور مذہبی ہم آہنگی کی وجہ سے عالم اسلام کی سب سے بڑی ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھر چکا تھا۔ 
قیام پاکستان کے وقت تحریک پاکستان کے قائدین نے اس بات کا عہد کیا تھا کہ پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست کی حیثیت سے چلایا جائے گا۔ الحمدللہ پاکستان کے قیام کو 69 برس بیت چکے ہیں اور بہت سے شعبہ جات میں پاکستان ترقی کی شاہراہ پر گامزن بھی ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود حقیقی اسلامی فلاحی ریاست بننے کا خواب تاحال شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا۔ نظریاتی اعتبار سے تاحال ملک کے مختلف طبقات میں یکسوئی اور ہم آہنگی پیدا نہیں ہو سکی۔ بعض لوگ حضرت محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کے خطبات، بیانات اورنظریاتی اعتبار سے ان کی واضح تقریروں کے باوجود پاکستان کو ایک قومی ریاست کی حیثیت سے چلانا چاہتے ہیں جب کہ ملک کی مذہبی جماعتیں اور مذہب سے محبت کرنے والا ایک بڑا طبقہ اس کو ایک نظریاتی ریاست کی حیثیت سے چلانے کا خواہاں ہے۔ اس نظریاتی کشمکش کی وجہ سے کئی مرتبہ تناؤ اور کھینچاؤ کی کیفیت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ آئین پاکستان اورقرار دادِ مقاصد نے پاکستان کے نظریاتی ریاست ہو نے کی ضمانت دی ہے لیکن اس ضمانت کے باوجود تاحال صحیح معنوں میں اسلامی قوانین کی عملداری کا مرحلہ آنا باقی ہے۔ جہاں تک تعلق ہے فلاح کی بات کاتو ملک میںسرکاری ہسپتال اور سستے تعلیمی ادارے بڑی تعداد میں موجود ہیں لیکن اس کے باوجود عوام کی کثیر تعداد کے لیے یہ سہولیات ناکافی ہیں۔ دیہی علاقوں کے رہنے والے بہت سے لوگ علاج ومعالجہ اور بنیادی تعلیمی سہولیات سے محروم ہیں۔ اسی طرح شہری علاقوں میں سطح غربت سے نیچے رہنے والے لوگ کی ایک بڑی تعداد علاج معالجے اور تعلیم کی سہولیات سے محروم ہے۔ تعلیم اور علاج کی سہولیات کے ساتھ ساتھ ایک فلاحی ریاست کی یہ ذمہ داری بھی ہوتی ہے کہ سطح غربت سے نیچے رہنے والے لوگوں کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان کی سہولیات کو فراہم کرے۔ لیکن پاکستان میں غریب لوگوں کی ایک بڑی تعداد دو وقت کی روٹی کھانے اوراپنا سر چھپانے کے لیے ایک چھوٹے سے مکان کی سہولت سے بھی محروم ہے۔ ان سہولیات کو فراہم کرنے کے لیے تاحال ٹھوس اقدامات نہیں کیے جا سکے۔
پاکستان میں بسنے والے بہت سے غریب لوگ اپنے چھوٹی عمر کے بچوں کو تعلیم کی سہولیات سے بہرہ ور کروانے کی بجائے ان کو محنت مزدوری اورپر مشقت کاموں میں دھکیلنے پر مجبور ہیں۔ معصوم بچوںکے اعصاب اور جسم مزدوری کا بوجھ اُٹھانے سے قاصر ہوتے ہیں لیکن وہ ناپختہ عمر میں محنت اور مزدوری کا بوجھ صرف اس لیے اُٹھاتے ہیں کہ اپنے غریب والدین کا ہاتھ بٹا سکیں اور اپنے بہن بھائیوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکیں۔ ان بنیادی سہولیات کے ساتھ ساتھ پاکستان کی معاشی حالت بھی تاحال اُس مقام پر نہیں جس پر ایک ترقی یافتہ ملک کو ہونا چاہیے۔ پاکستان کی معیشت کا بہت بڑا انحصار تاحال بیرونی قرضوں پر ہے۔ پاکستان کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے چاروں موسموں سے نوازا ہے۔ زراعت کے لیے وسیع رقبہ موجود ہے۔ ذہین اور فنی مہارت رکھنے والے افراد بڑی تعداد میں ملک میں موجود ہیں لیکن اس کے باوجود معیشت کی حالت دن بدن ابترسے ابتر نظر آتی ہے اور ہر آنے والے سال میں روپے کی قدر بین الاقوامی کرنسیوں کے مقابلے میں گرتی جا رہی ہے۔ اس صورتحال کے تدارک کے لیے کوئی ٹھوس پالیسی وضع نہیں کی جا سکی۔ زراعت کی قوت کو صحیح معنوں میں استعما ل نہیں کیا جا سکا۔ اسی طرح ہنرمند افراد کے لیے بھی صنعتوں کا مؤثر اور مربوط نیٹ ورک قائم نہیں کیا جا سکاجس کی وجہ سے ذہین افراد کی بڑی تعدادملک میںسستے داموں تعلیم حاصل کرنے کے بعد بیرون ممالک اپنی فنی مہارت کا اظہار کرنے پر مجبور نظر آتی ہے۔ کینیڈا ،آسٹریلیا، جرمنی ،برطانیہ اور یورپ ممالک کے بہت سے ممالک میں قابل پاکستانی ڈاکٹر زاورانجینئرز اپنی خدمات کو انجام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان قابل افراد کے لیے ملک میں سازگار ماحول فراہم کرنا حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے کوئی واضح حکمت عملی تاحال ترتیب نہیں دی جا سکی۔ اسی طرح 21 ویں صدی میں پاکستان تاحال توانائی کے بحران سے دوچار ہے۔ پاکستان الحمدللہ جوہری توانائی کا حامل ملک ہے اور جوہری توانائی کے ذریعے توانائی کی کل ضروریات کو پورا کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پن بجلی اور شمسی توانائی کے ذریعے بھی بجلی کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ماضی میں کئی حکمران توانائی کے بحران پر قابو پانے کا دعویٰ کر چکے ہیں لیکن یہ دعویٰ حقیقی معنوں میں شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا۔ ان تمام مسائل کے ساتھ ساتھ ملک میں ایک مسئلہ امن وامان کی صورتحال کا ہے۔ ملک ایک عرصے سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ دہشت گردی کی بہت سی داخلی، خارجی اور نفسیاتی وجوہات ہیں۔ دہشت گردوں کو قرار واقعی سزا نہ ملنا بھی دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کا موجب ہے۔ حکمران اور پاکستان کے دفاعی ادارے اس سلسلے میں مسلسل جدوجہد کرنے میں مصروف ہیں لیکن دشمن کی مداخلت اور بیرونی ایجنسیوں کی کوششوں کی وجہ سے تاحال ملک میں امن قائم نہیں ہوسکا۔ لیکن پاکستان قوم پرامید ہے کہ پاکستان کی عسکری ادارے اور ریاست کے دیگر ستونوں کے باہمی تعاون کے ساتھ پاکستان میں امن وامان کی صورتحال یقینا بہتر ہو جائے گی۔ ہر پاکستانی پاکستان کو دل وجان سے زیادہ عزیز رکھتا ہے اور اس کو ایک کامیاب ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے اگر پاکستا ن کے مذکورہ مسائل حل ہو جاتے ہیں تو یقینا ہم صحیح معنوں میں آزاد ریاست کہلوانے کے قابل ہو جائیں گے۔اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آزادی کی اس نعمت کو جو کئی عشروں کی مسلسل اور پیہم جدوجہد سے حاصل ہوئی اس کو برقرار رکھے اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے ملک کوایک عظیم اسلامی اور فلاحی مملکت کی شکل اختیار کرنے کی توفیق دے۔ آمین

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved