پاکستانی کرکٹ میں اوول کا نام بہت پرانا ہے اور ہمارے لئے ہمیشہ خوش گوار یادوں کا باعث رہا۔انگلینڈ کے حالیہ دورے کے نتائج نے‘ پھر سے انہی خوش گوار یادوں کو تازہ کردیا ۔ پاکستانیوں کی یادوں میں جس اوول نے اچھی یادیں کاشت کیں‘اس میں ہمارے مایہ ناز فاسٹ بائولر‘ فضل محمود کی کارکردگی نے اہم کردار ادا کیا۔جب انہوں نے30اوورز میں صرف53رنز دے کر‘ انگلینڈ کے خلاف6وکٹیں حاصل کیں۔ کرکٹ ٹیم کا موجودہ دورہ کئی اعتبار سے برسوں یادگار رہے گا۔ پاکستان پر دنیائے کرکٹ کے دروازے برسوں پہلے تقریباً بند ہوچکے تھے۔ مختلف وجوہ کی بنا پر کوئی بھی ملک ہمیں اپنے ہاں مدعو نہیں کررہا تھاجبکہ ہم کسی کو بلانے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔سری لنکا جیسے دوست ملک کی ٹیم پر بھی یہاں دہشت گردوں نے حملہ کر دیا تھا۔ جس کے بعد سری لنکا سمیت ‘دنیا کی تمام کرکٹ ٹیموں نے پاکستان کے دورے پر آنے سے انکار کر دیا۔ہم ایک مدت تک کرکٹ کی دنیا سے جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ طویل کوششوں اور کاوشوں کے بعد‘ ہم نے خلیج کے ملکوں میں کرائے پر گرائونڈ لے کر‘ مختلف بیرونی ٹیموں کو کھیلنے کی دعوت دی۔ جس کے نتیجے میں کرکٹ کی معروف ٹیموں کے ساتھ‘ ہمیں کھیلنے کے دوبارہ مواقع ملے۔ بیرونی دنیا کی جو ٹیم طویل عرصے کے بعد‘ پاکستان کے دورے پر آئی۔ وہ بھی جگ ہنسائی کا ذریعہ بنی۔طرح طرح کی کہانیاں مشہور ہوئیں کہ زمبابوے کی ٹیم کو ڈالروں میں معاوضہ دے کر‘ پاکستان کے دورے پر بلایا گیا ۔بعد کے میچ ابوظہبی اور شارجہ وغیرہ میں کھیلے گئے لیکن اس کا فائدہ یہ ہوا کہ کرکٹ کی اچھی ٹیمیں ‘جوپاکستان کے ساتھ کھیلنے سے گریزاں تھیں‘ خلیج کے میدانوں میں کھیلنے لگیں اوراس طرح ہمیں آہستہ آہستہ کرکٹ کی دنیا میں قبول کیا جانے لگا۔
انگلینڈ کے دورے کی دعوت‘ ہمیں طویل سفارتی کوششوں کے بعد موصول ہوئی۔امید ہے کہ ہمیں کرکٹ کھیلنے والے معروف ملکوں کے دوروں کی دعوتیں ملنے لگیں گی لیکن بیرونی ٹیموں کا پاکستان آکر کھیلنا ‘کافی عرصے تک دشوار رہے گا کیونکہ بد نصیبی سے ہمارے ملک کی شہرت‘ دہشت گردوں کی وجہ سے تاحال خراب چلی آرہی ہے۔ یہ جب چاہیں‘ کسی بھی غیر ملکی مہمان پر حملہ کر سکتے ہیں۔انہیں اغوا کر سکتے ہیں۔ان پر خود کش حملے کر سکتے ہیں۔اس کی گارنٹی دینا‘ ابھی تک ہمارے اختیار میں نہیں۔ خدا کرے‘ پاک فوج کی قیادت نے‘ دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لئے جوپختہ عزم و ارادہ کر رکھا ہے‘ وہ اس میں کامیاب رہے اور ہماری سرزمین پر بھی کرکٹ کی معروف ٹیمیں آکر کھیلنے لگیں۔ ہمارے میدانوں میں بھی بین الاقوامی کرکٹ کے میچ ہونے لگیں اور ہمارے بچے بھی کھلے گرائونڈز میں بیٹھ کر ‘بیرونی کھلاڑیوں کو پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ‘ کھیلتا ہوا دیکھ سکیں۔ ہماری نوجوان نسل‘ کرکٹ کے کھیل میں غیر معمولی دلچسپی رکھتی ہے لیکن ہر بچے کو یہ موقع نہیں ملتا کہ وہ بیرونی ملکوں میں جا کر‘ کرکٹ کے ٹیسٹ میچ دیکھ سکے۔ پاکستانیوں کے لئے کرکٹ کی دنیا میں واپسی‘ حقیقت میں اس وقت شروع ہو گی جب بیرونی ٹیمیں پاکستان میں آکر کھیلنے لگیں گی۔ لاہور‘ کراچی‘ ملتان‘ پشاور‘ کوئٹہ‘ راولپنڈی اور کئی دیگر شہروں میں دنیا کے نامور کھلاڑی میچ کھیلتے ہوئے دکھائی دیں اور ہمارے بچے بھی معیاری کرکٹ کا مشاہدہ کر نے لگیں۔
کھیل قوموں کے درمیان‘ ہمیشہ خیر سگالی اور باہمی رابطوں کے مواقع مہیا کرتے ہیں۔ ان دنوں پاکستان اور بھارت کے درمیان شدید کشیدگی کا ماحول پایا جاتا ہے خصوصاً بھارتی حکمرانوں اور افواج نے‘ مظلوم کشمیریوں پر وحشیانہ حملوں کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ چند لاکھ افراد پر مشتمل نہتی اور بھارتی فوج کے گھیرے میں آئی ہوئی چھوٹی سی قوم‘ بدترین تشدد اور بربریت کا سامنا کرنے کے باوجود‘ اپنا حق خود ارادیت حاصل کرنے پر تلی ہے‘ جو اس کا بنیادی حق ہے۔ ساری دنیا‘ کشمیریوں کے اس حق کو تسلیم کرتی ہے اور بھارت بھی یہ حق تسلیم کرنے کا پابند ہے لیکن اس کے حکمران‘ کشمیریوں کو یہ حق دینے پر تیار نہیں۔ایک کشمیری خاتون نے بتایا کہ مقبوضہ کشمیر کے نہتے عوام پر ‘وہ اسلحہ بھی استعمال کیا جا رہا ہے‘ جس پر عالمی برادری نے پابندی لگا رکھی ہے۔نوجوانوں کے چہروں پر کیمیاوی موادو الے چھرے‘ نشانہ بنا کر چھوڑے جاتے ہیں جو چہرے پر لگتے ہی فوراً جلد اور گوشت میں پیوست ہو کر‘ انتہائی اذیت دیتے ہیں۔ بیشتر حالات میں نوجوانوں کی آنکھیں بھی ناکارہ ہو جاتی ہیں۔ اس انتہائی ظلم کو دنیا بھی نفرت کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے اورکئی ملکوں نے انسانی ہمدردی کے تحت‘ متاثرہ نوجوانوں کو اپنے ملکوں میں بلاکر ‘ان کے علاج کی پیش کش بھی کی ہے۔ایک تازہ رپورٹ کے مطابق‘ ایسا مواد بھی استعمال کیا جا رہا ہے جو نوجوان لڑکے لڑکیوں کے چہروں پر ڈالا جائے تو ان کی کھال اور گوشت پگھل کر نیچے گر جاتے ہیں‘ جس سے چہرے اور کھوپڑی کی ہڈیاں باہر نکل آتی ہیں۔ انسانیت سے گری ہوئی بھارتی حرکات نے‘ دو طرفہ نفرت کا جو ماحول پیدا کر رکھا ہے‘ اس میں خیر سگالی کا اظہار‘نا ممکنات میں سے ہے۔ لیکن کھیلوں میں خیر سگالی کی جو طاقت پائی جاتی ہے‘ اس کی ایک مثال پاکستان اور بھارت میں کرکٹ کے کھیل کی مشترکہ دلچسپی ہے۔دونوں طرف کے عوام اپنی ٹیموں کو آپس میں کھیلتا ہوا دیکھنے کے لئے ہر وقت بے چین رہتے ہیں۔یہ دونوں قوموں کی بدنصیبی ہے کہ ان کے سیاست دان اور نفرت فروش ‘ خیرسگالی کے اس کھیل کو بھی اپنی سیاست کا ذریعہ بنائے رکھتے ہیں۔ دونوں ملکوں کی ٹیموں کو اپنے ملکوں میں کھیلنے کی اجازت نہیں دیتے لیکن کسی تیسرے ملک میں موقع ملے تو ٹیموں کو باہم کھیلنے کی اجازت بھی دے دیتے ہیں اور دونوں طرف کے کھلاڑیوں کو جوش و خروش سے کھیلنے کے کھلے مواقع بھی مہیا کئے جاتے ہیں۔ دنیامیں جہاں بھی پاک بھارت کرکٹ میچ ہونے کی خبر آئے‘ وہاںشائقین بھاری تعداد میں شرکت کے لئے پہنچ جاتے ہیں۔لیکن تنگ نظراور نفرتوں میں پلے ہوئے حکمرانوں نے‘ عوام کے درمیان باہمی خیر سگالی کے جذبات کو کچل کر ایسی بھیانک نفرت کی فصل اگائی ہے‘ جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ان دنوں مقبوضہ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے؟یہی بھیانک اور خونخوار فصل اگائی جا رہی ہے۔
لیکن پاکستان اور بھارت کے عوام کے درمیان‘ باہمی خیر سگالی کے جو بھر پور جذبات پائے جاتے ہیں‘ ان کی تازہ مثال پاکستان اور انگلینڈ میں کرکٹ کے حالیہ مقابلوں کے دوران سامنے آئی۔ اوول میں جب پاکستان اور انگلینڈ کی ٹیمیں‘ آخری ٹیسٹ میچ کھیل رہی تھیں تو ایک عجیب و غریب واقعہ ہوا۔پہلے تین ٹیسٹ میچوں میں سے‘ دو انگلینڈ نے جیت لئے تھے۔ چوتھے میچ میں سیریز کا فیصلہ ہونا تھا۔ اگر اوول کا ٹیسٹ برطانیہ جیت لیتا تو ہم 3-1سے ہار جاتے۔یہ شکست ہمیں بہت عرصے کے لئے‘ پیچھے دھکیل سکتی تھی۔ ہماری ٹیم کو پہلے ہی عالمی معیار کے مطابق نہیں سمجھا جاتا ۔ ٹیسٹ میچوں کے نئے سلسلے میں حالیہ مکمل ہار‘ ہم پر نیا ٹھپہ لگا دیتی اور مضبوط ٹیمیں ‘ پاکستان کو کھیل کے قابل سمجھنے سے انکار کر دیتیں۔آخری ٹیسٹ میں یونس خان اگر فیصلہ گن اننگز نہ کھیلتے تو ہمارے سر پہ شکست کا خطرہ منڈلا رہا تھا اور زیادہ سے زیادہ اگر سیریز برابر بھی کر لیتے تو پوری سیریز ہماری فیصلہ کن شکست پر منتج ہوتی۔عین اس وقت جب یونس خان نے اپنی سینچری مکمل کی‘ انہیں بھارت سے ایک ٹیلی فو ن موصول ہوا۔ یہ وہاں کے عظیم بیٹسمن‘ محمد اظہر الدین کا تھا۔ انہوں نے اپنے تجربے اور مہارت کی روشنی میں‘ یونس خان کو چند استادی گُر بتائے اور وہ ڈبل سینچری کے راستے پر چل پڑے۔ میچ جیتنے کے بعد‘ یونس خان نے بتایا کہ میچ کے عین دوران ‘ اظہر الدین نے ٹیلی فون کر کے کچھ گُر بتائے اور میں دوسری سینچری کی راہ پر چل نکلا۔ خدا نے میری مدد کی اور میں اس میں کامیاب رہا۔ یونس خان کی دوسری سینچری نے سیریز کا پانسہ پلٹ دیا اور ہم ہارنے کے بجائے‘ سیریز بچانے میں کامیاب ہو گئے۔ شدید نفرت کے اس ماحول میں ایسی خیرسگالی‘ کھیل کی دنیا میں ہی ممکن ہے۔