تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     16-08-2016

مرے وطن ترے دامانِ تار تار کی خیر

فیض صاحب کے ایک مجموعہ کلام کا نام ہے ''دست تہہ سنگ‘‘۔ آج کے کالم کا عنوان فیض صاحب کی صرف آٹھ اشعار پر مشتمل ایک کمال کی نظم سے لیا گیا ہے۔ جبکہ فیض صاحب نے اپنی شاعری کے مجموعہ کا نام غالب کے ایک مصرع سے لیا۔ نظم کا عنوان ہے ''خوشا ضمانت غم‘‘ فیض صاحب نہ صرف انگریزی بلکہ عربی اور فارسی ادب پر بھی عبور رکھتے تھے۔ خیر فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی استعمال لیا ہے۔ نیکی۔ بھلائی۔ حفاظت۔ خوشحالی۔ اچھائی۔ میرے خیال میں فیض صاحب نے خیر کا لفظ فارسی سے زیادہ پنجابی زبان کے معنی میں لیا ہے۔ اہل پنجاب خوش ہو جائیں (جو بمشکل ہوتے ہیں) تو کہتے ہیں۔''تیری خیر ہووے‘‘ زیادہ مہربان ہوں (جو اکثر نہیں ہوتے) تو پھر تو کہتے ہیں ''ستّے (یعنی سات عدد) خیراں‘‘ (خیر کا مجموعہ) کی دُعا دیتے ہیں۔ یہ پتہ نہیں چل سکا کہ کون سی اچھائیاں یا خوبیاں اکٹھی کی جائیں تو اُن کی کل تعداد سات بنتی ہے۔ دُعا تو بہرحال دُعا ہوتی ہے۔ میرا عقیدہ ہے کہ دل سے دی جائے۔ تواس کے قبول ہو جانے کا روشن امکان ہوتا ہے۔ آپ دعا کو کسی تجربہ گاہ میں لے جا کر اس کا تجزیہ کرنے سے تو رہے۔ مذکورہ بالا نظم کے آدھے (یعنی چار) اشعار کے ہر پہلے مصرع کی ردیف سلام ہے اور ہردوسرے مصرعے کی تان خیر کے لفظ پر ٹوٹتی ہے۔ برائے مہربانی آپ اُنہیں پڑھ لیں تو بات آگے بڑھے۔ ؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎؎
دیار یار ترے جوشِ جنوں پہ سلام
مرے وطن ترے دامان تارتار کی خیر
رہ یقینِ تری افشانِ خاک و خون پہ سلام
مرے چمن تیرے زخموں کے لالہ زار کی خیر
ہر ایک خانہ ویراں کی تیرگی پہ سلام
ہر ایک خاک بَسر، خانماں خراب کی خیر
ہر ایک کشتہ ناحق کی خامشی پہ سلام
ہر ایک دیدئہ پرُنم کی آب و تاب کی خیر
آج کے کالم میں وطن عزیز کے دامان تار تار کے صرف تین پہلوئوں کا تذکرہ کیا جائے گا۔ بات شروع کرتے ہیں ایک بڑی عمدہ کتاب پر شائع ہونے والے تبصرہ سے جو برطانیہ کے سب سے موقر ہفت روزہ اکانومسٹ نے اپنی 16 جولائی کی اشاعت میں صفحہ نمبر72 پر شائع کیا۔ کتاب کا نام ہےTrials : On Death Row in Pakistan فاضل مصنفہ کا نام ہے۔ Isabel Buchanan ۔ 264 صفحات کی یہ کتاب چوٹی کے ناشرJonathan Cape نے شائع کی اور اس کالم نگار جیسے لوگوں کی محدود قوت خرید کا لحاظ کرتے ہوئے قیمت 17 پائونڈ رکھی۔ دُنیا میں ایسی ہزاروں جگہ ہوں گی جو وحشت۔ بربریت اور غیر انسانی سلوک کی علامت بن چکی ہیں۔ اگر ان کی فہرست مرتب کی جائے تو پاکستان میں پھانسی کے سزا یافتہ قیدیوں کی کال کوٹھڑیوں کا نام شاید سب سے اُوپر لکھا جائے۔ بدقسمت قیدی ان عقوبت خانوں میں سالہا سال (دس سال سے بھی زیادہ) اس طرح ٹھونسے جاتے ہیں کہ 120 مربع فٹ کی کوٹھڑی (Cell ) میں آٹھ آٹھ لوگ۔ اتنی تنگ جگہ میں ہر دُوسرا قیدی اپنی بیماری باآسانی منتقل کرتا ہے۔ کتاب جس تحقیق پر مبنی ہے وہ 2003ء میں شروع ہوئی جب اندازاً آٹھ ہزار قیدی پھانسی کی سزا دیئے جانے کے سالوں سے منتظر تھے۔ ایک سابق وزیر (جو غالباً باتدبیر ہو گا) نے مصنفہ کو وثوق سے بتایا کہ دو تہائی قیدی بے گناہ ہیں۔وُہ جھوٹے مقدمات میں پھنسائے گئے اور اُنہیں جھوٹے گواہوں کی دی گئی گواہی کی بنیاد پر سزائے موت دی گئی۔ فاضل مصنفہ نے سکاٹ لینڈ میں قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اُردو زبان سیکھ لی۔ پاکستانی مٹھائیوں سے رغبت اس خاتون کو لاہور لے گئی جہاں اُس نے اپنے آپ کو تحقیق و تفتیش کے سمندر میں غرق کر دیا۔ اسے فرصت ملتی تھی تو گلاب جامن اور رس ملائی جی بھر کر کھاتی تھی جو کہ پاکستان جانے کا اصل مقصد تھا۔ اس کارِ خیر (یہاں یہ لفظ فارسی زبان کے معنی میں استعمال کیا گیا) میں جس نوجوان پاکستانی وکیل نے مصنفہ کی بھرپور معاونت کی ہے وہ بھی ایک خاتون تھیں اور نام تھا ۔سارہ بلال۔ اس کتاب میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ پولیس تشدد کے ذریعہ ملزموں سے اعترافی بیان حاصل کرتی ہے اور استغاثہ کی بنیاد یہی اعترافی بیان ہوتا ہے۔ پولیس کو اپنے موقف کو سچا ثابت کرنے کے لئے جعلی شہادتوں کا بندوبست کرنے میں نہ کوئی مشکل پیش آتی ہے اور نہ کوئی قانونی رکاوٹ۔ پاکستان کے نظام انصاف کو سب سے زیادہ نقصان جس چیز نے پہنچایا وہ ہے پرُانے برطانوی سامراج کے بنائے ہوئے قوانین کو اسلامی شریعت کی رائج الوقت تشریح کے ساتھ گڈ مڈ کر دینا۔ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر والا معاملہ جہاں بھی ہوگا وہاں بڑی خرابی پیدا ہوگی۔ توہین رسالت کے الزام میں بارہ سو افراد کو موت کی سزا سنائی گئی مگر پھانسی کسی ایک کو بھی نہ دی گئی۔ مصنفہ نے اپنی کتاب کا انتساب اُن بہادر لوگوں کے نام کیا ہے جو خود بے گناہ ہیں اور پھانسی گھاٹ کی طرف لئے جانے والے حواس باختہ افراد کی ڈھارس بندھاتے ہیں۔ محبت سے اور اپنائیت سے اُن پر دست ِشفقت رکھتے ہیں۔ قادر مطلق کی عدالت میں اُن کے گناہوں کی معافی کی دُعا مانگتے ہیں۔ فاضل مصنفہ کتاب کے آخری باب میں لکھتی ہیں کہ اُن لوگوں کا حشر پاکستان میں پھانسی کے سزا یافتہ قیدیوں سے بھی کئی گنا بڑا ہوا اور ہوتا رہا۔ جنہیں امریکی فوج کا خصوصی دستہ پاکستان سے اغواء کر کے افغانستان لے گیا اور اُنہیں محض شک کی بنیاد پر باگرام کی جیل میں غیر معین عرصہ تک چاروں طرف سے بند گوداموں میں اس طرح بند رکھا گیا جس طرح وہ زندہ انسان نہیں بلکہ مرُدہ جانوروں کا گوشت ہوں۔ یہ کتاب پاکستانی عدلیہ کی بے پناہ تعریف پر ختم ہوئی چونکہ پاکستانی عدالتوں نے مذکورہ بالا قیدیوں کے اُن انسانی حقوق کا احترام کیا جو دُنیا کے دو بڑے جمہوری ملک (امریکہ اور برطانیہ) نے پامال کئے۔
اب آیئے دامانِ تار تار کے دُوسرے حصہ کی طرف۔ صنعتی ترقی کی ضرورت اور اہمیت سے انکار کرنا ممکن نہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ انسانوں کے پینے والے پانی اور سانس لینے والی ہوا اور سارے ماحول کو تباہ و برباد کر دیا جائے۔ جناب ریاض احمد ملک (سابق وفاقی سیکرٹری) ہم سب کے شکریہ کے مستحق ہیں کہ اُنہوں نے ہماری توجہ چوا سیدن شاہ میں کلر کہار روڈ پر دس سالوں کے اندر چار سیمنٹ فیکٹریوں کے بعد پانچویں سیمنٹ فیکٹری بنانے کے شدید ماحولیاتی نقصانات سے آگاہ کیا۔ آپ کو شاید یہ اعداد و شمار پڑھ کر اعتبار نہ آئے۔ مگر ایک سابق وفاقی سیکرٹری جیسے ذمہ دار شخص نے انکشاف کیا کہ ان چار سیمنٹ فیکٹریوں کی روزانہ پیداوار 24 ہزار ٹن ہے اور بارودی دھماکوں کے ذریعہ ہر روز 40 ہزار ٹن چونے کا پتھر (Limestone ) حاصل کیا جاتا ہے۔ آپ یہ پڑھ کر یقینا زیادہ حیران نہ ہوں گے کہ ہمارے ماحول کی حفاظت کے لئے ایک سرکاری ادارہ Environmental Protection Agency موجود ہے جو انگریزی محاورہ کے مطابق غُراّ تو سکتا ہے مگر تیز دانتوں سے محروم ہونے کی وجہ سے کاٹ نہیں سکتا۔ چوا سیدن شاہ کی خوبصورت وادی کے درجن بھر دیہات میں ڈھائی لاکھ لوگ رہتے ہیں۔ دیکھتے دیکھتے اُن کے قدرتی ماحول کا چہرہ برُی طرح مسخ ہو گیا ہے۔ پینے کے پانی کی مقدار بہت کم ہو گئی ہے۔ اور جو پانی دستیاب ہے۔ اس میں کیمیائی عناصر نے زہر گھول دیا ہے۔ آج تک کسی سیاسی جماعت کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس المیہ پر احتجاج کرے اور ماحول کو مزید تباہ و برباد کرنے والے مجرموں کے ہاتھ توڑ سکے۔
دامان تار تار کی تیسری اور آخری مثال جناب عبدالستار ایدھی مرحوم کی رضا کارانہ جلا وطنی کی دی جائے گی۔ آٹھ دسمبر1994 ء کو ایدھی صاحب بڑی خاموشی اور راز داری سے پاکستان سے بھاگ کر برطانیہ آگئے اور یہاں ایک ماہ ''زیر زمین‘‘ رہے۔ برطانیہ میں ایدھی ٹرسٹ کے ایک رُکن ڈاکٹر ہارون صاحب کے توسط سے میری اُن سے مختصر ملاقات ہوئی تو اُنہوں نے مجھے دَبے لفظوں میں اشارتاً بتایا کہ پاکستان میں کچھ لوگ (مجھے اُنہوں نے نام بتائے مگر اس تاکید کے ساتھ کہ میں اُن کا ذکر نہ کروں) ایک سازش کے ذریعہ حکومت کا تختہ اُلٹناچاہتے ہیں اور اس کام میں ایدھی صاحب کا تعاون حاصل کرنے کے لئے اُن پر اتنا دبائو ڈال رہے تھے کہ اُن کے لئے وطن سے بھاگ کر باہر پناہ لینے کے سوا اور کوئی چارہ نہ رہا۔ پاکستان ماشاء اللہ اتنے بڑے بڑے باخبر صحافیوں سے بھرا پڑا ہے کیا اُن کا فرض نہیں کہ اس راز سے پردہ اُٹھائیں کہ وہ ساشی کون تھے۔ جن سے زچ ہو کر ایدھی صاحب برطانیہ ایک ماہ چھپے رہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس قسم کی سازش پھر ہو رہی ہو۔کیا ایک داغ داغ جمہوری نظام (اور وہ بھی محض برائے نام) کی حفاظت اُس طرح ہمارا فرض نہیں جس کا مظاہرہ تُرکی میں کیا گیا۔ ڈرتا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آئندہ چند ماہ میں ہمارے دامان تار تار کے رہے سہے بخیے بھی اُدھیڑے جائیں یہ وُہی دامن ہے جس کے خیر کی فیض صاحب دُعا مانگتے ہوئے دُنیا سے رُخصت ہوئے۔ آیئے ہم بھی یہی دُعا مانگیں کہ موجودہ حکمران طبقہ اس گھڑی میں (جب ابھی پانی سر سے اُوپر نہیں گذرا) اپنا سیاسی چال چلن اور معاملات کو بہتر بنا لیں۔ اصلاح و احوال کی صورت نکالیں تو غالباً ہماری دُعا قبول ہو جائے گی۔ ؎
مرے وطن ترے دامانِ تار تار کی خیر

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved