تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     16-08-2016

آخری خواہش

''تو یہ تھی بسترِ مرگ پہ پڑی انتونیا کی آخری خواہش‘‘ پاشا سوچتا رہا ، روتا رہا۔ پھر بہت پیار سے، احتیاط سے اپنی محبوب بیوی کو اس نے مٹی میں سلا دیا۔ 
انتونیا آخری چھ برس مسلسل بیمار رہی ۔ اپنے وسیع فارم میں ، میاں بیوی سبکدوشی کی زندگی بسر کر رہے تھے ۔ پاشا کی عمر بھی ڈھل رہی تھی مگر وہ بھلا چنگا تھا۔ انتونیا توجیسے گھلتی جا رہی تھی ۔ باتونی تو وہ کبھی بھی نہیں تھی ، اب جیسے ایک دائمی چپ اس نے سادھ لی تھی ۔ تین دہائیاں پاشا نے اس کے ساتھ بسر کی تھیں ۔ انتونیا کے مزاج میں نفاست تھی ۔ جب کبھی اس کی طبیعت ناساز ہوتی ، وہ خاموش ہو جاتی ۔ جب کبھی کوئی بات اسے ناگوار گزرتی، تب بھی ۔ اسے کبھی جھگڑتے ، شور مچاتے نہیں دیکھا گیا۔ بس وہ خاموش ہوجاتی ۔ اس خاموشی کا مطلب تھا کہ کچھ غلط ہے اور گہری خاموشی کا مطلب تھا کہ وہ زیادہ تکلیف میں ہے ۔ اس خاموشی کا مقصد پاشا یا کسی اور پر دبائو ڈالنا نہیں تھا، یہ بات پاشا کو بخوبی معلوم تھی بلکہ اندر ہی اندر وہ اس تکلیف دہ بات یا بیماری کے اثرات ختم ہونے کا انتظار کر رہی ہوتی ۔ 
انتونیا کی چپ نہ ٹوٹی اور وہ بستر پہ لگ گئی۔ہر طرح کے میڈیکل ٹیسٹ ہوتے رہے ۔ آخر یہ معلوم ہوا کہ اسے کینسر ہے ۔ ابھی یہ دوسری سٹیج پر تھا ۔ ابھی تو یہ قابلِ علاج تھا اور علاج تو ہو رہا تھا۔'' کینسر کا درد تو دوائوں سے دب بھی جاتاہے ۔ ‘‘ پاشا خود سے یہ کہا کرتا'' پھر وہ بولتی کیوں نہیں ؟‘‘ 
پاشا یہ چاہتا تھا کہ انتونیا کچھ بولے ۔ وہ نہیں بولی ۔ پھر ایک روز پاشا سو کر اٹھاتو اس نے دیکھا کہ انتونیا کی زبان ہمیشہ کے لیے خاموش ہو چکی ہے ۔ وہ زندہ تھی مگر وہ زبان، جس سے اس نے بولنا تھا،اس پہ فالج گر گیا تھا۔تو یوں انتونیا ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی ۔ پاشا بیٹھا اسے دیکھتا رہتا۔ وہ پاشا کو دیکھتی رہتی ۔ اس بڑھاپے ، اس بیماری میں بھی اس کے چہرے پر معصومیت تھی اور بے بسی بھی ۔ اس نظر میں مدد کی درخواست تھی ۔ پاشا اس کی نظریں پہچانتا تھا۔
ایک روز پاشا نے اس سے یہ کہا'' انتونیا ، عمر بھر تم نے میرا ساتھ خوب نبھایا‘‘ وہ بیتے دن یاد کرنے لگا۔ شادی کے بعد شروع کے سال۔ پاشا جب مالی مشکلات کا شکار تھا۔ کئی برسوں کی خون پسینے کی کمائی سے اس نے یہ فارم خریدا تھا۔ وہ ملازم رکھنے کی استطاعت نہ رکھتا تھا اور خود ہی سبزیاں اگایا کرتا۔ تب ایک روز وہ سو کر اٹھا تو اس نے دیکھا کہ انتونیا اپنے نرم و نازک ہاتھوں سے زمین کھود رہی تھی ۔ اس نے انتونیا کے ہاتھ دیکھے۔ دو ناخن ٹوٹ گئے تھے۔ ایک میں سے لہو رس رہا تھا۔ہمیشہ اس نے حتی الامکان کوشش کی تھی کہ انتونیا کو کوئی سخت جسمانی کام نہ کر نا پڑے ۔ اس روز پاشا رو پڑا۔ انتونیا نہیں روئی ۔ اس کا جسم نرم و نازک مگر دل باہمت تھا۔ روح بہت تناور تھی ۔ 
مفلوج، کینسر زدہ انتونیا کے سامنے بیٹھا پاشا کافی پیتا رہا۔ اس کے منہ میں قطرہ قطرہ پانی ٹپکاتا رہا۔ ا س کی ہمت کی تعریف کر تا رہا۔ اس نے وہ دن یاد کیا، جب رات گئے شہرسے واپسی پر ایک ٹرک نے ان کی گاڑی کو ٹکر ماردی تھی ۔ پاشا کے ماتھے اور سر پہ چوٹ لگی ۔ خون بہتا رہا اور وہ نیم بیہوش سا ہو گیا ۔وہ جیسے نیند میں، ایک غنودگی کی کیفیت میں سب کچھ دیکھتا رہا۔ ٹرک والا تو بھاگ گیا ۔ مددگار کوئی نہ تھا۔ اس روز دھان پان سی انتونیا نے قوی ہیکل پاشا کو ڈرائیونگ سیٹ سے نکال کر پچھلی سیٹ پر لٹایا۔ اس کام میں اسے پچیس منٹ لگے ۔ اس کے بعد کسی نہ کسی طرح وہ گاڑی چلا کر ہسپتال پہنچی ۔وہ ماہر ڈرائیور نہیں تھی شد بد ہی رکھتی تھی۔ بلا شبہ وہ ایک مشکل، تکلیف دہ رات تھی اور بلاشبہ انتونیا نے اس رات بہت ہمت کا مظاہرہ کیا۔ 
ایسے واقعات بہت سے تھے۔ پاشا انہیں دہراتا رہا، انتونیا کی تعریف کر تا رہا۔ انتونیا کی زبان تو خاموش ہی تھی ۔ اس کی آنکھیں بھی خاموش ہی رہیں ۔ 
بلا شبہ یہ تکلیف دہ وقت تھا۔ اگرچہ ڈاکٹروں کا کہنا یہ تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فالج کے اثرات میں تھوڑی بہت کمی کا امکان موجود تھا لیکن ابتدا میں بہتری کے بعد کینسر پھر سے پھوٹ پڑا تھا۔ انتونیااب اس حالت میں تھی ، جس میں اسے قرب المرگ قرار دیا جا سکتاتھا۔ ہمیشہ ہر تکلیف اس نے بہت ہمت ، حوصلے سے برداشت کی تھی ۔ پاشا کو گو بہت صدمہ ہوتا لیکن کسی نہ کسی حد تک وہ ذہنی طور پر اب تیار ہو تا جا رہا تھا۔ اب وہ صرف یہ چاہتا تھا کہ انتونیا کے دل میں چھپی حسرت جان سکے ، اسے پورا کر سکے ۔ وہ چاہتا تھا کہ انتونیا کو آخری بار مسکراتا دیکھے۔ اس روز اس نے ہر موضوع پر بات کی ۔ اس نے اپنی زندگی میں ہر تکلیف دہ وقت میں ساتھ نبھانے پر انتونیا کا شکریہ ادا کیا۔انتونیا کی آنکھوں میں ناراضی نہیں تھی ۔ پاشا دیکھ سکتا تھا ۔ وہ راضی تھی ، سراپا راضی۔ ہاں البتہ ایک حسرت ضرور تھی ۔ 
پاشا اٹھا۔بظاہر وہ دوسرے کمرے میں چلا گیا لیکن چھپ کر انتونیا کو دیکھنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ انتونیا سنگھار میز کی طرف دیکھ رہی ہے ۔ اس کے ذہن میں ایک جھماکا ہوا۔وہ ہل کے رہ گیا۔پھر وہ کمرے میں آیا اور اس نے یہ کہا '' انتونیا تم کس قدر خوبصورت ہو‘‘ انتونیا مسکرانے لگی اور شرما سی گئی ۔ بس اتنی سی بات تھی۔
اصل بات یہ تھی کہ پاشا جب اپنی بیوی سے بہت خوش ہوتا، وہ اس کے حسن کی تعریف کیا کرتا ۔ وہ شرم سے سرخ ہوجاتی اور زیرِ لب مسکرانے لگتی۔ اب ہو ایہ تھا کہ کیمو تھیراپی کے نتیجے میں کینسر زدہ انتونیا کے بال جھڑ گئے تھے ۔ وہ کمزور ہو گئی تھی ۔ پاشا اس کا علاج کراتا رہا، تعریف کرنا بھول گیا۔ انتونیا کینسر زدہ اور مفلوج سہی مگر اس کے اندر کی عورت زندہ تھی ، جو خوبصورت کہلوانا چاہتی ہے ۔ یہ حسرت اس کے دل سے جا نہیں رہی تھی ۔ 
اس رات پاشا انتونیا کے حسن کی تعریف کرتا رہا۔ وہ سنتی رہی ، مسکراتی رہی ۔ صبح جب وہ سو کر اٹھا تو وہ مر چکی تھی مگرا س کے ہونٹ ابھی تک مسکرا رہے تھے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved