تحریر : شمشاد احمد تاریخ اشاعت     17-08-2016

کشمیریوں کی تحریک آزادی، عالمی ضمیر اور پاکستان

مقبوضہ کشمیر ایک مرتبہ پھر تشدد کے شعلوں میں جل رہا ہے، کشمیری بھارتی سکیورٹی فورسز کے جبر و استبداد کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس مرتبہ کوئی یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ اس تحریک کے پیچھے کسی غیرملکی ہاتھ کی کارفرمائی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے دلیرانہ آواز بلند کرنے والے برہان وانی، جس نے کسی کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائے تھے اور جو صرف نوجوانوں کے جذبات کی ترجمانی کر رہا تھا، کی شہادت نے تمام مقبوضہ وادی میں ایک مرتبہ پھر حق خودارادیت کی پُرزور تحریک شروع کردی۔ کرفیو اور کریک ڈائون کے باوجود، دیکھتے ہی دیکھتے غاصبانہ قبضے کے خلاف بغاوت کا دائرہ پھیل گیا۔ اس نے نہ صرف 1990ء کی دہائی میں کشمیریوں کی جدوجہد کی یاد تازہ کردی بلکہ آزادی کی جدوجہد کو ایک نیاولولہ، نیا رنگ اور نئی جہت بھی عطاکردی۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق مقبوضہ وادی کے بہت سے قصبوں کی گلیوں میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں پر بھارتی سکیورٹی فورسز کی اندھادھند فائرنگ سے اب تک ستر بے گناہ کشمیری شہید اور دو ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ شہری پُرامن مظاہروں کے دوران ''آزادی، انصاف اور انسانی حقوق‘‘ کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ سری نگر میں کرفیو کے باوجود شہری سڑکوں پر آئے اور بے گناہ افراد کی ہلاکت پر احتجاج کیا۔ کشمیر، جوجنت ارضی کہلاتا ہے، کو بھارت کے غاصبانہ قبضے نے جہنم میں تبدیل کردیا ہے۔ 
قہر یہ ہے کہ بھارتی فورسز ''آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ‘‘ کے تحت شہریوں پر بے پناہ ستم ڈھانے کے باوجود کسی بھی قسم کے احتساب یا پوچھ گچھ سے بری ہیں۔ اس کے باوجود نعرہ ''ہمیں آزادی چاہیے‘‘ اب وادی کے ہر درودیوار سے گونج رہا ہے۔ اس کی جھلک سوشل میڈیا پر بھی دکھائی دیتی ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ کشمیری نوجوان بھارت کی نام نہاد جمہوریت پر یقین نہیں رکھتا، اور انڈیا ہرگز نہیں جانتا کہ اب وہ اس صورتحال کو کیسے کنٹرول کرے۔ آزادی اور نجات کے لیے صدا بلند کرنے والے افراد کے جذبے کو کچلنے کے لیے اس نے وادی میں سات لاکھ فوجی دستوں کے ذریعے ایک خوف کی فضاقائم کردی ہے۔ تحریک کے زور پکڑنے کے ساتھ ساتھ یہ جابرانہ ہتھکنڈے مزید شدت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ اس کی وجہ سے وادی میں ہونے والی ہلاکتیں بھی بڑھ رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق آزادی سے اب تک وادی میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کی تعداد چھ ہندسوں تک پہنچ چکی ہے۔ ہلاکتوں، کرفیو، تشدد اور میڈیا بلیک آئوٹ کا تازہ سلسلہ گزشتہ ایک ماہ سے جاری ہے؛ تاہم یہ اوچھے ہتھکنڈے ماضی میں بھی کشمیریوں کی آواز کو نہیں دبا سکے تھے، یہ اب بھی کام نہیں دیں گے۔ 
نہتے کشمیریوں کے خلاف اندھی طاقت کا استعمال تمام حدیں پار کر چکا۔ اب بھارتی فورسز پیلٹ گنز استعمال کررہی ہیں۔ اس سے پہلے قانون نافذ کرنے کے لیے اس ہتھیار کا استعمال کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ اس سے پہلے بھی کشمیری احتجاجی مظاہرے کرچکے ہیں لیکن معلوم تاریخ میں اتنے بڑے بڑے مظاہرے کبھی دیکھنے میں نہیں آئے اور نہ ہی احتجاج کا اتنا پیہم سلسلہ دکھائی دیا۔ آج کشمیر کی مرکزی سیاسی جماعتیں یا ان کے قائدین نہیں بلکہ عام شہری بھارتی فورسز کے سامنے سینہ سپر ہیں۔ آج ان کے سیاسی رہنما ریلیوں میں آئے تو ضرور لیکن اس جذبے کے ساتھ نہیں جو عوام کے دل میں موجزن ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے عوام کے ضبط کے بند ٹوٹ گئے ہوں، جذبات کا لاوا کشمیر کی گلیوں میں بہہ نکلا ہو، اور آج کا کشمیر نوجوان نسل کے ہاتھ اپنی زمام اختیار سونپ چکا۔ کشمیریوں کی نئی نسل احتجاج کی تاریخ رقم کر رہی ہے، وادی میں ''تبدیلی‘‘ آچکی۔ آج سوشل میڈیا استعمال کرنے والی نئی نسل کی تحریک ہے، یہ تعلیم یافتہ، پُرعزم اور پُرجوش لوگ ہیں اور ان کی آنکھوں میں حق خود ارادیت کی چمک صاف دکھائی دے رہی ہے۔ ایک مشہور بھارتی مصنفہ اور کالم نگار ارون دتی رائے، جو انسانی حقوق کے لیے آواز بلندکرنے کی وجہ سے عالمی سطح پر جانی جاتی ہیں، نے 2008ء کے بعد کشمیر کی تحریک آزادی میں آنے والی ہنگامہ خیز تبدیلی کو بہترین انداز میں بیان کیا ہے: ''فوجی کیمپوں، چیک پوائنٹس اور بنکرزکے حصار میں کھیلنے اور عقوبت خانوں سے آنے والے چیخیں سن کر جوان ہونے والی اس نسل کو اچانک احساس ہوگیا ہے کہ سراٹھا کروقار سے بات کرنے اورشانے سے شانہ ملا کر احتجاج کرنے میں کیا طاقت ہے‘‘۔ خوف ایک چبھے ہوئے کانٹے کی طرح ہوتا ہے، جب ایک مرتبہ دل سے نکل جاتا ہے تو اُس قوم کو دنیا کی دوسری بڑی فوج بھی نہیں ڈرا سکتی۔ مس رائے لکھتی ہیں: ''یہ بات ہمیشہ سے واضح تھی کہ ان تاریک ترین لمحات میں برستی ہوئی لہورنگ اذیت کے طوفان میں کشمیری نوجوان امن نہیں آزادی مانگ رہے ہیں‘‘ آگے چل کر وہ لکھتی ہیں: ''اس کا مرکزی نکتہ ایک اخلاقی سوال کے گرد گھومتا ہے۔ کیا کوئی حکومت فوجی طاقت سے عوام کی آزادی سلب کرنے کا حق رکھتی ہے؟ انڈیا کو کشمیر کے مسلے سے نجات چاہیے، بالکل اسی طرح کشمیریوں کو بھی انڈیا سے آزادی چاہیے۔ اس مرتبہ بھارتی سرکار کی کشمیریوں کی آواز دبانے کی کوشش نے اس سے ایک گرجدار دھاڑ میں تبدیل کردیا ہے‘‘۔ اب یہ بات نوشتہء دیوار بن چکی ہے کہ کشمیری بھارت کو ایک قابض فورس سمجھتے ہیں۔ 
کشمیریوں نے اپنی تحریک سے یہ بات بھی واضح کر دی کہ یہ جدوجہد حکومت، معاشی پیکج یا دیگر مفادات کے لیے نہیں۔ بھارتی فورسز کا سامنا کرنے والے کشمیری محض ملازمتوں یا کتابوں کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش نہیں کر رہے، وہ صرف اور صرف آزادی چاہتے ہیں۔ آزادی کے نعرے لگاتے ہوئے اُنہوںنے پاکستانی پرچم بھی اٹھائے ہوتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیرکی گلیوں اور سڑکوں پر اُنھوں نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ اقوام متحدہ نے کشمیریوں کو ''بھارت کا داخلی مسئلہ‘‘ قرار دیتے ہوئے آنکھیں پھیر لی ہیں۔ امریکہ پر بھی اخلاقی فرض عائد ہوتا تھا لیکن وہ بھی اس مسئلے سے کنارہ کرگیا۔ شاید یہ نوبل انعام یافتہ صدر، بارک اوباما اور امریکہ کے لیے غفلت سے جاگنے سری نگر کی گلیوں میں بارود کی بو سونگھنے کا وقت ہے۔ 
جہاں تک ہمارا تعلق تو ہم نے بھی بادل نخواستہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے شہریوں پر ظلم کی مذمت، خراب ہوتی ہوئی امن و امان کی صورت حال، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی، کشمیریوں کے جان و مال کے نقصان اور انتہا پسند عناصر کے ہاتھوں اُن کی معاشی ناکہ بندی پر رسمی تشویش کا اظہار کرکے آگے بڑھ جانے کی پالیسی رکھتے ہیں۔ انڈیا اس رویے کو بھی ''اپنے داخلی معاملات میں سنگین مداخلت‘‘ قرار دیتاہے؛ تاہم نریندر مودی پر یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ اکڑی ہوئی گردن سے حقائق تبدیل نہیں ہوجاتے۔ کشمیر کے مسئلے کو دہشت گردی کے ساتھ گڈمڈ کرنے کی بھارتی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔ تاریخ کا سبق ہے کہ عوامی تحریکوں کو طاقت سے ہمیشہ کے لیے نہیں دبایا جاسکتا۔ طاقت کے اندھے استعمال سے شہریوں کی جانیں تلف ہوں گی تو بھارت کو بھی کوئی ریلیف نہیں ملے گا۔ دنیا کی واحد سپرپاورکا وجود بھی ایک طویل جنگ آزادی کے مرہون منت ہے۔ نریندر مودی اپنے ملک میں طاقت کے ذریعے تاریخ کا پہیہ نہیں روک سکتے۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ 1857ء میں لڑی جانے والی جنگ آزادی ہی تھی جس نے آخر کار انڈیا کو آزاد کرایا۔ اب انڈیا طاقت سے کشمیرپر اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتا ہے تو دوسری طرف کشمیری انڈیا کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔
آج کشمیر اُن افراد کی صدا بن کر دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے جن پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہے۔ دنیا کو جاننا ہوگا کہ اب بھی کشمیر کے مسئلے کا ایک پرامن، قانونی اور منصفانہ حل موجود ہے۔ وہ حل جو اقوام متحدہ نے تجویز کیا تھا۔ پاکستان اور انڈیا، دونوں نے کشمیر پر یو این سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کو قبول کیا تھا۔ جس دوران بھارت اپنی پوزیشن تبدیل کرنے کے لیے تیار نہ تھا، افسوس کی بات یہ کہ نائن الیون کے بعد ہمارے کچھ حکمرانوں نے ایسے اشارے دیے جو کشمیر پر ہمارے اصولی موقف سے یک طرفہ انحراف کے مترادف تھے۔ ہم ''گونگی اور بہری‘‘ پارلیمنٹ رکھتے ہیں‘ جس نے کشمیر کی اخلاقی اور سیاسی حمایت کے لیے ایک بھی مشترکہ اجلاس نہیں بلایا۔ وقت آگیا ہے جب ہم شتر مرغ کی طرح ریت میں سردبائے حقائق سے آنکھیں چرانے کی بجائے کشمیرکی ابتلا کے بارے میں اپنی بے حسی کی چادر اتار پھینکیں۔ ہمیں دنیا کے ضمیر کے جھنجھوڑنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزشت نہیں کرنا چاہیے۔ ہم نے کشمیری نوجوان، جس نے پاکستانی پرچم بلند کیا ہے، کو باور کرانا ہے کہ پوری قوم اُس کے ساتھ ہے۔ اس تاریخی لمحے کو بے حسی کی دھند میں نہیں کھوجانا چاہیے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved